جو ہو ذ وقِ یقیں پیدا ۰۰۰

وصیل خان ( ممبئی اردو نیوز )
کامیابی کے حصول کیلئےکوشش ،محنت اور مستحکم ارادے کی سخت ضرورت ہوتی ہے،جولوگ اس سے غفلت برتتے ہیں کامیابی ان سے کوسوں دور چلی جاتی ہے ۔شولاپور (مہاراشٹر )کے اکل کوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں تولانورکی رہنے والی عائشہ پیرزادے نے محض ۲۴ سال کی عمر میں جج بن کر یہ کلیہ ابھی حال ہی میں سچ کردکھایا ہے جب وہ گذشتہ دنوں مہاراشٹر اسٹیٹ پبلک سروس کمیشن کے سول جج ( جونیئر لیول )کے امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوگئیں ،اس علاقے کے لوگ بتاتے ہیں کہ عائشہ اتنی کم عمری میں جج کے عہدے پر متمکن ہونے والی اس ضلع کی پہلی خاتون ہیں ۔مزید یہ کہ انہوں نے تعلیم کے حصول میں بے پناہ مصیبتیں اٹھائیں اور بڑی دقتوں کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر پورا کیا ۔ان کا گاؤں تولانور اکل کوٹ شہر سے ۴۰؍کلو میٹر دور ہے جہاں صرف دسویں تک ہی تعلیم کا بندوبست ہے اس سے آگےپڑھنے والے کو تعلقہ جانا پڑتا ہے ،عائشہ نے بلا کسی خوف اور ہچکچاہٹ کے شولاپور کے دیانند ودھی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں چارسال تک قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پہلی ہی جست میں سول جج (جونیئر لیول ) اور جوڈیشیل مجسٹریٹ کا فرسٹ کلاس کا امتحان پاس کرلیا ۔ریاست بھر سے اس سال پندرہ ہزار طلبا نے اس امتحان میں شرکت کی تھی جن میں سے صرف ۱۹۰؍کامیاب ہوئے ۔عائشہ کے والد ایک عام قسم کے انسان ہیںلیکن دھن کے پکےہیںانہوں نے تہیہ کررکھا تھا کہ کسی بھی طرح وہ اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنائیں گے۔ ان کی ایک چھوٹی سی زمین ہے جس پر کاشت کرکے وہ اپنا گھر چلاتے ہیں ،انتہائی قلیل آمدنی کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ،ان کی کل پانچ بیٹیاں ہیں اور انہوں نے سبھی کو زیورتعلیم سے آراستہ کردیااورآج عائشہ نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کرکے پورے علاقے کا نام روشن کردیا ۔ اسی کے ساتھ ہم ایک اورخاتون سنگیتا اتم دھائی گُڑے کی تحریر کردہ آپ بیتی کے تعلق سے کچھ باتیں کریں گے جنہوں نے تمام تر نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ میونسپل کمشنر کے عہدے پر سرفراز ہوئیں ۔لچھ عرصہ وہ مالیگاؤں میں بھی اپنی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ان کی ایک کتاب ’’شاہیں کا جہاں اور‘‘۰۰۰کے عنوان سے منظرعام پرآئی ہے ۔سنگیتا ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں انہوں نےیو پی ایس سی امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا ہےاور متعدد اہم انتظامی امور سنبھالتی رہیں ۔ان کا تعلق مہاراشٹر کے ستارہ ضلع کے تعلقہ مان کے میراگاؤں آندھڑی سے ہے ۔ کتاب اصلا ً مراٹھی زبان میں’ہمان ‘ کے نام سے لکھی گئی تھی جس کا بڑا خوبصورت اور دل نشین ترجمہ ملک اکبر حسن نے کیا ہے اس سے قبل بھی وہ ’’داستان ہرکنی کی ‘‘ نامی کتاب کا وہ ترجمہ کرچکے ہیں ،کتاب دیکھنے کے بعد یہ اعتراف ضروری ہوجاتا ہے کہ ملک صاحب روشن و بلیغ ترجمہ کی اچھی مہارت رکھتے ہیں ،چند خامیوں اور کمزوریوں کے باوجودکتاب کو اصل سے ہم آہنگ کرنے ان کی کوششیں صاف نظر آتی ہیں ،جن کی ستائش اس لئے بھی ہونی چاہیئے کہ اگر وہ ترجمہ نہ کرتے تو اردو والے اس سے محروم رہتے ۔ کتاب دراصل مصنفہ کی خودنوشت ہے جس میں انہوں نے معاشی کمزوریوں کے حوالے سے اپنی زندگی کی سخت ترین جدوجہد کو موضوع بنایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کی معاونت سے اپنا تعلیمی سفر انتہائی مشکلات کے ساتھ مکمل کیا ،قدم قدم پر طعنے تشنے اور غیریت کے مظاہرے کے باوجود انہوں نے انتہائی صبر و شکر کے ساتھ اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور اپنے اس نشانے کو چھونے میں کامیاب ہوئیں ۔اس کامیابی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے مستقبل کیلئے فکر مند رہا کرتی تھیں اور یہی فکر ان کے لئے مہمیز بنتی رہی ۔انہوں نے خود کو مذہبی و سماجی تعصبات سے بھی ہمیشہ دور رکھا یہی سبب ہے کہ مسلم خاندانوں سے بھی ان کے روابط بڑے گہرے رہےاور اسی کے زیراثراردو زبان و ادب سے بھی ان کا قلبی تعلق ہوگیا ،وہ کہتی ہیں’’ بطور کمشنر مالیگاؤں ‘‘ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مجھے اردوداں طبقہ سے قریب ہونے کا موقع ملا ساتھ ہی ان کی جانب سے اس بات کا تقاضا بھی ہونے لگا کہ ’ہمان ‘ کتاب کا اردو ترجمہ شائع کیا جائے ۔اردو خوبصورت زبان ہے اس کا لہجہ اور مٹھاس عجیب ہے ۔ اتنی پیاری زبان میں اگر میری کتاب آتی ہے تو مراٹھی زبان ہی کی طرح یہ بھی خا ص و عام میں تحریک کا باعث ہوگی ، اس کتاب کے ذریعے کسی کی زندگی میں مثبت تبدیلی رونما ہوتی ہے تو ا س سے بڑھ کر خوشی کی اور کیا بات ہوگی ۔اسی بات کے پیش نظر میں نے اس کتاب کا اردو ترجمہ شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔‘‘
موجودہ دورجسے ہم ترقی یافتہ دور سے معنون کرتے ہیںجو بلا شبہ درست بات ہے لیکن کس قدر افسوسناک بات ہے کہ ایسے مہذب ،علمی اور ثروت مند معاشرے کے باوجود خواتین کا تحفظ غیر یقینی ہوکر رہ گیا ہے ،آئے دن خواتین کی عصمتوں سے ظالمانہ کھلواڑ کی خبریں اخبارات کے صفحات میں بھری رہتی ہیں جس نے ہمارے اس سماج کو حیوانوں کا سماج بناکر رکھ دیا ہے ۔لیکن اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ انتظامیہ بے بس و مجبور بنا ہوا ہے ۔ کتاب میں اس تعلق سے بھی رہنمایانہ روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس ضمن میں موصوفہ لکھتی ہیں ۔ ’’ ہمارے بھارتی سماج میں سب سے زیادہ استحصال خواتین کا ہوتا ہے ۔کئی خواتین ایسی ہیں جنہیں سماج نے تنہا اور بے یارومددگار چھوڑدیاہے ۔ان خواتین کی حالت زار دیکھ کر دل بیٹھا جاتا ہے ۔ اس کتاب کو پڑھ کر ان کی زندگی میں اگر کوئی اچھی تبدیلی آتی ہے یا کوئی ان کے مسائل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو میں سمجھوں گی کتاب کا مقصد پورا ہوگیا ۔مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کرنے یا اس تعلق سے سوچنے والے طلبا و طالبات انہیں مشکل سمجھ کو چھوڑ دیتے ہیں ایسےافراد کیلئے یہ کتاب یقینا ً مشعل راہ ثابت ہوگی ۔ ‘‘ آپ بیتی اتنی دلچسپ ،معلومات افزااور حوصلہ بخش ہے کہ اسے ایک بار شروع کردیا جائے تو مکمل کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا ۔کسی تحریر یا تصنیف کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اسے دوسروں کے ذہنوں میں بہ آسانی منتقل کیا جاسکے ۔ ہم اس خوبصورت ،مفید اور انتہائی سبق آموز کتاب کی پیش کش پر مصنفہ سنگیتا اتم دھائی گڑے اور مترجم ملک اکبر حسن دونوں ہی کو ہدیہ ٔ تہنیت پیش کرتے ہیں اور ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ قارئین کو اس کے مطالعے کیلئے راغب کریں ۔
مذکورہ یہ دونوں واقعے یہ بتاتے ہیں کہ عزم مستحکم او ر شدید محنت سے ہر وہ نشانہ پورا کیا جاسکتا ہے جس کی آج ہمیںسخت ضرورت ہے ۔آج مردو خواتین سبھی کیلئے تعلیم انتہائی ضروری ہے۔ایک اچھے اور متمول سماج کی تشکیل میں تعلیم وہنرمندی کا حصول لازمی ہوچکا ہے ۔ حالانکہ اس جانب ماضی کے مقابلے میں لوگوں کی توجہ بڑھی ضرور ہے لیکن ابھی بھی بھرپور توجہ کا فقدان ہے ۔یہ واقعات نہ صرف بچوں کیلئے سبق آموز ہیں بلکہ ان والدین کی بھی توجہ مبذول کرتے ہیں جو اس ضمن میں شدید غفلت کا شکارہیں ۔

Comments are closed.