"انیس بیس کا فرق”

شہلا کلیم (مرادآباد انڈیا)
یوں تو سال ہر سال بدلتا ہے لیکن اس سال بدلتے سال کے متعلق لطیفے کے طور پر ایک مشورہ خاصہ گردش میں ہے لہذا ہم بھی احباب کو وہی مشورہ دینا چاہیں گے کہ نئے سال سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ رکھیں کیونکہ گزشتہ برس اور آنے والے سال میں صرف انیس بیس کا ہی فرق ہےـ یعنی جو کچھ بیتے برس میں ہوتا رہا ہے وہی آئندہ برس ہوتے رہنے کے قوی امکانات ہیں ـ یا یوں بھی ہو سکتا ہے کہ گزشتہ برس کے ادھورے کام اگلے برس پایہء تکمیل کو پہنچیں ـ خیر ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن خدا نہ کرے کہ آئندہ برس گزشتہ برس رونما ہونے والے واقعات کی تکرار ہو کیونکہ یقین جانیے ہم عوام کو گرتے پڑتے دیکھنے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ انکی تکرار بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ جھیل سکتے ہیں بلکہ دیکھتے اور جھیلتے ہی چلے آ رہے ہیں لیکن وطن عزیز کی اعلی و ارفع کرسی پر براجمان اپنے عظیم حاکم "محترم جناب وزیر اعظم صاحب” کو اٹل گھاٹ کی معمولی سیڑیھوں سے "مکرر” گرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ـ
جہاں تک گستاخ سیڑھیوں کا معاملہ ہے تو آپ فکر نہ کریں انتظامیہ بڑی مستعدی سے انہیں ان کے انجام کو پہنچانے کیلیے کمر بستہ ہو چکی ہے جانکاری کیلیے بتا دیں کہ کانپور میں اٹل گھاٹ کی وہ سیڑھیاں دوبارہ بنائی جائیں گی جن پر وزیر اعظم گرےـ وجہ بڑی دلچسپ اور تحقیق بڑی "سائنٹیفک” پیش کی گئی پرشاسن کے مطابق گھاٹ پر صرف ایک سیڑھی کی اونچائی غیر معمولی ہے یہ وہی نویں سیڑھی ہے جس سے پی ایم کا پاؤں الجھا اور وہ گرتے گرتے بچےـ حالانکہ دیوناگری رسم الخط (ہندی) میں سفید رنگ سے واضح طور پہ سیڑھی پر لکھا ہے "ساودھان! سیڑھی اونچی ہے” کیسا دُربھاگیہ ہے جو چیز عام جنتا کی آنکھ دیکھ پاتی ہے وہاں تک حاکموں کی نظر نہیں پہنچ پاتی ـ ایک مزے دار وجہ یہ بھی بیان کی گئی کہ پہلے بھی کئی لوگ اس سیڑھی پر گر چکے ہیں لہذا اب جلد از جلد از سر نو تعمیر کی جائےگی ـ آہ!! ذمےداران کی "عیاریاں” کہ انہیں پی ایم کے گرنے کا ہی انتظار تھا اگر عوام کے گرنے کو معمولی بات نہ سمجھتے ہوئے ایکشن لیا جاتا تو آج ملک کے وزیر اعظم کو شرمندگی اٹھانے کی نوبت آ سکتی تھی بھلا ؟
اب ذرا "سائنٹفک تحقیق” ملاحظہ ہو ” اتر پردیش کے کانپور شہر میں اٹل گھاٹ کی یہ سیڑھی بوٹ کلب کی جانب سے تیسری رینپ کی نویں سیڑھی ہے ـ اٹل گھاٹ پروجیکٹ کو انجینئیرس انڈیا لمیٹڈ کے ذریعے "نمامی گنگے” پروجیکٹ کے تحت انجام دیا گیاـ حالانکہ سبھی گھاٹ اور شمشان گھاٹ نمامی گنگے پروجیکٹ کے تحت مرکزی سرکار کے حکم پر اسی تعمیری کمپنی نے بنائے ہیں مگر کمبخت اسی سیڑھی کو گستاخ ہونا تھا ـ سیڑھی کی اس گستاخی بلکہ بغاوت پر ذمےداران پھڑک اٹھے اور اس کے وجود کو اکھاڑ پھنکنے کا عزم لیکر انتظامیہ کے ایک مستعد رکن نے وعدہ کیا کہ "میں تعمیری کمپنی کو جلد از جلد سیڑھی ٹھیک کرنے کیلیے کہونگا اور سبھی سیڑھیاں "سمان” اونچائی کی بنواؤنگاـ” جتنی شردھا سے بیان دیا گیا اسی شردھا سے سنا اور پڑھا بھی گیا اور ان شاء اللہ عمل بھی کیا جائےگا گویا سیڑھی کی سمانتا کی بات نہیں انسانیت کی سمانتا کی بات ہو!
کاش انتظامیہ ہم جیسے غیر سائنٹیفک عوام کی "ایموشنل ریسرچ” پر بھی توجہ دے کہ "خطا” سیڑھی کی ہی نہیں "لغزش” پاؤں کی بھی ہو سکتی ہے!!! مگر اففف یہ حاکموں کے جھینپ مٹانے کے ہتھکنڈےـــــ
خیر بات یہاں انیس بیس کے فرق کے ساتھ نئے سال کی آمد اور واقعات کی تکرار کے سلسلے میں تھی ـ لہذا گفتگو کا رخ ان واقعات کی طرف موڑتے ہیں جو انیس بیس کے فرق کے ساتھ ہمیشہ چرچا میں رہے آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہنے کے امکانات ہیں ـ شروع سے شروع کرنے والی روایت پرانی ہو چکی ہے اور گھسی پٹی روایات کی زنجیریں توڑ کر ہی کامیابی کے نئے در وا ہوتے ہیں لہذا ہم آخر سے شروع کرتے ہیں اور چونکہ سال کے اختتام پر سیاست کا بازار گرم ہے لہذا ہم بھی سیاست کا بول بالا کرکے اپنے فرائض کما حقہ نہ سہی تھوڑے بہت ادا کرنے کی سعی ناکام کرتے ہیں ـ جیسا کہ احباب واقف ہیں سال ۲۰۱۹ کے اختتام تک جس صفائی اور تیزی کے ساتھ دستور ہند میں ترمیم ہوئی عین ممکن ہے کہ اسے دیکھ کر خود محترمہ اندرا گاندھی کی روح شرمندگی سے دوچار ہو "بھگوان شری متی کی آتما کو شانتی دے” تاریخ گواہ ہے کہ دستور ہند کی ستر سالہ تاریخ میں سو سے زائد مرتبہ ترمیم ہوئی ـ کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے لہذا جیسے جیسے ضروتیں بڑھتی گئیں آئین میں ترمیم و توسیع ہوتی گئی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہر نئی پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا حملہ دستور ہند پر ہی کیا یہاں تک کہ constitution of india کی سب سے بڑی ترمیم 1976 میں ایمرجنسی کے دوران اندراگاندھی کے ذریعہ کی گئی جس کی وجہ سے اسے mini constitution کا نام بھی دیا گیا لیکن 2014 سے اندراگاندھی کے ذریعے ترمیم شدہ دستور کی "مات” کا دور شروع ہوا اور انیس بیس کے فرق کے ساتھ پارلیمینٹری سسٹم کو بالائے طاق رکھ کر اور سنودھان کو "سواہا” کرکے ایک نئی طرز پر کیبینیٹ نے کام شروع کیاـ کون نہیں جانتا کہ دستور ہند حکومت کو پارلیمنٹری سسٹم کے تحت کام کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن جب ملک کے بڑے بڑے فیصلے کیبینیٹ کے چند خاص ممبران اور دوست احباب کے ہمراہ رات کے اندھیرے میں چائے کی پیالیوں کے درمیان ہنستے کھیلتے ہو جائیں تو اسے "کچن کیبینیٹ” کے طور پر جانا جاتا ہے واضح ہو کہ یہ کوئی دستور ہند میں لکھا گیا لفظ نہیں بلکہ اس کا جنم میڈیا کے "دماغ” سے ہواـ 1976 اور 2019 میں انیس بیس کا فرق یہ رہا کہ اندرا عہد میں ڈائریکٹ امیرجنسی نافذ کی گئی جبکہ موجودہ عہد میں انڈائریکٹ حالات پیدا کئے گئے ہندی میں ہم اسے "اوپچارِک” اور "انوپچارِک” کہتے ہیں گویا "صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں” والا معاملہ ہے ویسے یہاں آپ انیس بیس کے فرق کو زمین آسمان کا فرق بھی سمجھ سکتے ہیں آخر کو جمہوری ملک ہے سوچنے، سمجھنے، دیکھنے، سننے، کہنے سے لیکر پڑھنے لکھنے تک آزادی ہی آزادی ہے ـ
خلاصہء کلام یہ کہ "فطرت کے تقاضے کبھی بدلے نہیں جاتے” لہذا آپ اپنی کسی بھی موجودہ ملازمت کو حقیر نہ جانیے خواہ آپ کے ہاتھ میں کیتلی ہی کیوں نہ ہوـ ہو سکتا ہے مستقبل میں آپ کچن میں کھڑے کھڑے ہی پورا دیش چلانے کے اہل ہوں، بلکل کچن کیبینیٹ کی طرح ـ
۲۰۱۹ کے اختتام تک دستور کے ساتھ کس قدر چھیڑ چھاڑ کی گئی اور اس پر عوام کا رد عمل کیا رہا اس ضمن میں ہم قارئین کے سامنے ایک کہانی بیان کرنا چاہیں گے کہانی یوں ہے کہ ایک شخص اپنی تیز طرار بیوی سے بڑا عاجز تھا جبکہ اس کا دوست بے حد مطمئین آخر جب پانی سر سے اونچا ہوا تو "عاجز شخص” سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنے "مطمئن دوست” سے سبب دریافت کیا دوست مسکرایا اور وجہ بیان کر دی کہ شادی کی پہلی رات کو اپنی بیوی کے سامنے اتفاقا میں نے ایک بلی کو مار ڈالا اس دن سے آج تک اس پر میرا خوف طاری ہے پہلا شخص خوشی خوشی ایک بلی لیکر گھر لوٹا رات ہوئی تو ایک گلاس دودھ میز پر رکھ کر بلی کو کمرے میں داخل کر دیا نتیجتاً بلی نے دودھ پیا اور اس شخص نے اس "جرم” کی پاداش میں اپنی بیوی پر رعب ڈالنے کی خاطر بلی کو قتل کر دیا بیوی کمرے میں داخل ہوئی، جائزہ لیا اور ایک زوردار طمانچہ شوہر کے منھ پر جڑ کر کہا "کمبخت یہ کام پہلی رات کا تھا”ـ
اب ذرا قارئین سب سے پہلے یہاں حسن ظن کو کھاد پانی دیں بیان کردہ کہانی کا مقصد عورت پر ظلم یا کسی جاندار کے قتل کو جائز قرار دینا ہر گز نہیں بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت” وضاحت یہ ہے کہ first impression is the last impression چلیے مان لیتے ہیں نوٹ بندی ، تین طلاق، GST ، آرٹیکل ۳۷۰ وغیرہ وغیرہ مدعے حتی کہ بابری مسجد مدعا بھی CAB سے زیادہ اہم نہیں لیکن یہ تو دیکھیے کہ اس مصلحت پسندی نے شر پسندوں کیلیے راہ کس طرح ہموار کی اگر ایک سانپ پھن اٹھا لیتا ہے تو بچاؤ کے طریقے کی بجائے اس کے ڈسنے کا انتظار کرنا عین انسانیت نہیں عین حماقت ہے NRC کے خلاف ایسے ابن الوقت لوگوں کے پاس کون سی ٹھوس پالیسی ہے جو بابری فیصلے پر سینا کشادہ کرکے سپریم کورٹ کا "سواگت” کرنے میں مگن تھے حالانکہ ایک عام ہندوستانی بھی اس بات سے تو واقف ہوگا ہی کہ دستورِ ہند کا کوئی مذہب نہیں اور constitution of india کسی بھی عدالت کو مذہبی جانب داری سے فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیتا غیر مذہبی اور غیر جانب دار عدالت ہوتی تو مندر مسجد کی بجائے کوئی اسپتال یا یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ لیا گیا ہوتا اور تب ہندوستانی مسلمانوں کی مصلحت بجا ٹھہرتی ـ خیر یہاں بابری مسجد کا مسئلہ نہیں ہمارا سوال ان لوگوں سے ہے جو حکومت کے ہر ترمیمی بل پر لبیک کہتے آئے ہیں ـ نعرے بازی، بیان بازی اور دھرنے بازی ہم نے کب نہیں کی؟ کیا کسی ایک بھی ترمیمی بل کو پاس ہونے سے روک پائے؟ دراصل بات یہ ہے کہ ہم نے ہر موجودہ مدعے کو سب سے بڑا مان کر بجائے عملی اقدام کے صرف واویلا مچایا نتیجتاً ہر بار عوام کے دو ٹکڑے ہوئے ایک گروہ مصلحت پسندوں کا تھا اور دوسرا "ماتمی” لوگوں کاـ پھر ایک لمبا دور شروع ہوا آپسی اختلافات کاـ اور اسی سے فائدہ اٹھا کر دوسری جانب حکومتِ وقت نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا پھر پچھلا مدعا ہر نئے مدعے کے سامنے حقیر ہوتا گیا اور ہر حالیہ مسئلہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا گیا یہی سلسلہ تاہنوز جاری ہےـ یاد رہے دنیا میں کچھ بھی اتفاقی یا حادثاتی طور پر نہیں ہوا کائنات کا سارا نظام ایک سسٹمیٹک ڈھنگ سے کام کرتا ہے 2014 سے پاس ہوتے آ رہے ترمیمی بل بھلے ہی CAB سے زیادہ اہم نہ ہوں لیکن کیب تک پہنچنے وسیلہ وہی ہیں ـ (جو کہ اب ایکٹ بن کر caa کا روپ دھار چکا ہے) اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہند کی عوام اس کو روک پائیں گے؟ لیکن ہمیں ڈر ہے کہیں انیس بیس کے فرق کے ساتھ حکومت یہ نہ کہہ گزرے "نیک بختو!” یہ کام پہلی "بار” کا تھاـ تاہم پوری طرح ناامید نہیں بلکہ یقین جانیے کہ اتنی بڑی سطح پر عوام کی بیداری کا یقین ہی ہمیں پہلی مرتبہ ہوا ـ جو ابھی تک بابری اور ایودھیا کے نعرے لگانے میں مگن تھے وہ اچانک دھرم اور مذہب کو بالائے طاق رکھ کر ایک ترنگے تلے اٹھ کھڑے ہوئے اس یونیورسٹی کے طلبا جنکو دھرم کے نام پر سنسکرت کا ایک مسلم پروفیسر قبول نہیں تھا وہی دھرم کے نام پر ملک کے ٹکڑے ہونے پر پھڑک اٹھےـ باطل سے اختلاف و احتجاج کیلیے صرف "جیت” ہی شرط نہیں یہ اقوام کی بیداری کا ثبوت دیتے ہیں اور کبھی کبھی بیداری کا سبب بھی بنتے ہیں اور اس بار یقینا دونوں کام ہوئے ہیں خواہ انیس بیس کے فرق کے ساتھ ہی ہوئے وہ اسلیے کہ ظاہر ہے لمبی اور گہری نیند سے بیدار ہوئے ہیں لہذا وقتا فوقتا جھونکے آتے رہنا فطری بات ہے پھر بھی اب یہ تو طے ہے کہ ہلکا سا ٹہوکا بھی خوابیدہ عوام کی بیداری کا سبب بن سکتا ہےـ
اگر ہم بات کریں انیس بیس کے فرق کے ساتھ وکاس کی تو وہ کسی بھی فرق کے ساتھ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا اس سلسلے میں واضح رہے کہ حاکموں کا تو نہیں پتا البتہ رعایا ضرور ترقی پسند ہوتی ہے لہذا عوام آئندہ برس بھی رافیل جیسی خریداری کی تکرار کو دل و جان سے قبول کرینگےـ یہ اور بات ہے کہ وطن عزیز میں رافیل عوام کی حفاظت کا ذمےدار ہے اور رافیل کی حفاظت نیبو مرچ کے ذمے ہےـ بس خدا کرے کہ رافیل کے کاغذات مکرر چوری نہ ہوں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ گھس پیٹھیوں کو دیس نکالا دینے کے چکر میں جب عوام سے ۷۱ سالہ پرانے کاغذات طلب کیے جائیں تو "ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں” کے مصداق عوام بھی کہہ گزرے my documents has been stolen by the same thief who has stolen rafale files خیر کہنے والوں کا کیا ہے وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کم از کم اپنے education documents "تعلیمی کاغذات” ہی دکھا دیں ہم ۷۱ سالہ پرانا بایوڈاٹا دکھانے کیلیے تیار ہیں بشرط یہ کہ وہ اصلی ہوں ـ
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ آخر ہم لوگ کیوں خامخواہ ہمیشہ مرکزی حکومت پر وار کرکرکے خود کو leftist ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں جبکہ right ہمیشہ رائٹ ہوتا ہے اور بڑی حقیقت بھی یہی ہے کہ ہزاروں مارکس جنم لے لیں کتنے ہی اشتراکی پیدا ہو جائیں مزدور اور غریب عوام مرنے کٹنے کیلیے پیدا ہوتے ہیں گویا ان کا وجود بنیاد کی وہ مظبوط اینٹیں ہیں جن پر اقتدار کی پختہ عمارت کا انحصار ہو پھر ہم اس بات کا رونا بھی کیوں روئیں اور کس کے آگے روئیں کیونکہ عربی کا مقولہ ہے "سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا!”
اصولا لوگ آسان سے مشکل کی طرف بڑھتے ہیں لیکن جب ہم روایت توڑ سکتے ہیں تو اصول کیوں نہیں لہذا مشکل سے آسان موضوع کی طرف بڑھتے ہوئے اب آپ کی اور اپنی مشکل آسان کئے دیتے ہیں ـ وہ آسان اور دلچسپ واقعات ایسے ہیں جنکی تکرار سے تمام کی نہ سہی چند لوگوں کی لطف اندوزی یقینا ممکن ہے ـ جیسے ہمارے ہیرو ابھینندن جو نہ صرف سہی سالم دشمن کے نرغے سے نکل آئے بلکہ دشمن کی چائے کا بھرپور آنند اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنا پرزور ابھینندن بھی کرا کے لوٹے کیا ابھینندن نہ چاہیں گے کہ وہ چائے ان کے سامنے "مکرر” پیش کی جائے جو راتوں رات انکو اصل ہیرو کے ساتھ ساتھ پردے کا ہیرو بھی بنانے کا باعث بنی ورنہ آج تک ایک عظیم ہیرو عوام کی آنکھ سے اوجھل پس پردہ بڑے بڑے کارنامے انجام دیتا رہا اور گم نام ہی رہا ـ
لیجیے ہیرو سے ہمیں اپنی فلم انڈسٹری کے کچھ عظیم ہیرو بھی یاد آ گئے جو نہ صرف پردے کے ہیرو ہیں بلکہ عوام کے اصل ہیرو دراصل یہی لوگ ہیں یہ being human کے عاشق ہیں جہاں کہیں humanity کو خطرہ لاحق ہوتا ہے یہ عشق بن کر بے خطر آتش نمرود میں بھی کود پڑتے ہیں اور عوام کی عقل "محو تماشائے لب بام” رہ جاتی ہے لیکن یہ جوکھم صرف اس حد تک اٹھایا جاتا ہے جہاں تک ان کا اپنا مفاد پوشیدہ ہو یہ وقتا فوقتا انیس بیس کے فرق کے ساتھ کسی نہ کسی ٹیلنٹ کو سڑک سے اٹھا کر اسٹیج پر لا کھڑا کرتے ہیں لیکن کون جانتا ہے کہ درحقیقت یہ دوسرے کو لانچ کرنے کی آڑ میں خود لانچ ہوتے رہتے ہیں یہی سبب ہے کہ یہ کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ـ حال ہی میں محترمہ لتا منگیشکر کی ٹکر بتائی جانے والی ایک خوبصورت آواز نے کس کی سماعتوں میں مٹاس نہ گھولی ہوگی حالانکہ مشق بندی اور تک بندی کا فرق با ذوق افراد کی سماعت و بصارت سے ڈھکا چھپا نہیں ہےـ مارکس نے جان توڑ کوششیں کی کہ عوام اور اقتدار کے درمیان دولت کی تقسیم برابر ہو دولت و شہرت کی ترازو کے دونوں پلڑے ہمیشہ متوازن رہیں مگر لوگ آج بھی یا تو بلکل فقر و فاقہ یا پھر چھپر پھاڑ کر دینے اور لینے والے اصول پر قائم ہیں لہذا یہ محترمہ بھی فرش سے سیدھے عرش پر پہنچی یا پہنچا دی گئیں مگر آہ یہ دولت و شہرت کا نشہ عام آدمی کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑتا نتیجتا یہاں بھی یہ شعر صادق آیا ـ
"تمہارا لہجہ بتا رہا ہے تمہاری دولت نئی نئی ہے”
بہر حال ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اس پورے معاملے میں being human والے فائدے میں رہے چنانچہ وہ عوام کو "تیری میری کہانی” میں لگا کر خود اپنے لیے ایک نئی کہانی کی تلاش میں نکل پڑے ـ پس یہی لوگ ہیں جو انیس بیس کے فرق کے ساتھ ہمیشہ واقعات کی تکرار چاہتے ہیں تاکہ کبھی رٹائر نہ ہو سکیں اور دوسروں کی آڑ میں از سر نو اپنی لانچنگ کرتے رہیں ـ
موسیقی کی بات چلی ہے تو ایک پہلو اور اجاگر کرتے چلیں ان دنوں ہندوستان میں لتا جی کے بعد نصرت صاحب کے دوسرے جنم کی کہانی بھی عوام میں خاصی مقبول ہے یہاں کسی کی ہمت پست کرنا یا مضحکہ اڑانا مقصد نہیں ہم تو خود فن کے قدردان ہیں لیکن یاد رہے "ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں” واقعہ یہ ہے کہ دراصل کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے ہو کر یا آرٹیفیشیل سفیدی میں سر ڈبو کر ان لوگوں کے درجے کو پہنچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں جنھوں نے مشق سخن پر تمام عمر قربان کرکے بال سفید کیے، اور بس یہی صحیح نہیں!! اس قسم کے لوگ نہ صرف موسیقی بلکہ ہر فیلڈ میں پائے جاتے ہیں ـ
اگر ہم ۲۰۱۹ کے پورے سال کا احاطہ کرنے بیٹھیں تو یقین جانیے ایک تاریخ مرتب ہو سکتی ہے لیکن ہم اور یقینا آپ بھی بخوبی واقف ہیں کہ نہ تو ہم اتنا لکھنے کے اہل ہیں اور اگر ہم لکھ بھی دیں تو نہ آپ پڑھ سکتے ہیں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے یہاں پڑھنے سے زیادہ دیکھنے اور سننے کا رواج عام ہو چلا ہے ـ اب جب پڑھنے پڑھانے کی بات آ ہی گئی ہے تو لگے ہاتھوں انیس بیس کے فرق کے ساتھ ادب پر بھی نظر ڈالتے چلیں عالمی ادب پر تو خیر ہم کیونکر نگاہ ڈال سکتے ہیں جبکہ ہمارا اپنا ہی خانہ خراب ہو دو سگی بہنوں کے اہل خانہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہوں آخر کون ان کو یہ سمجھا کر صلح کرائے کہ اردو کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنے اور ہندی کو شلوک پڑھا کر ہندو کرنے والے لوگو! تم دنیا کی عجیب ترین بلکہ غریب ترین مخلوق ہو کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں زبانیں دیوناگری اور نستعلیق رسم الخط کی صورت میں صرف مختلف جامہ زیب تن کیے ہوئے ہیں جبکہ ان کا حسب و نسب ایک ہی ہےـ ادب پر اس سے زیادہ رائے دینے سے ہم احتراز کرینگے کہیں عقیدت مندوں کے ہاتھ "ریختہ” کی طرح ہمارے گریبان تک نہ پہنچ جائیں حالانکہ یہ بھی ادب کی ایک بڑی سچائی ہے کہ تحقیق سائنٹیفک دلائل کی بنیاد پر قابل قبول ہے انیس بیس کے فرق کے ساتھ عقیدتوں کی بنیاد پر نہیں ـ
ہمارا مقصد پوری تاریخ بیان کرنے کا ہرگز نہیں محض سرخیاں اجاگر کرنا تھا لیکن اگر پھر بھی احباب کو مضمون کی طوالت کا شکوہ ہو تو عرض کرتے چلیں کہ کیا آپ کے نزدیک پورے سال کی مدت طویل نہیں؟ سال سے یاد آیا کہ لوگ نئے سال کا جشن بھی انیس بیس کے فرق کے ساتھ مناتے ہیں یعنی جشن مناتے بھی ہیں اور نہیں بھی ـ نہیں منانے والے وہ لوگ ہیں جنھیں اپنی بڑھتی عمر کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور مناتے وہ لوگ ہیں جن کے اندر زندگی سے جڑی ذرا سی بھی امید باقی رہ گئی ہو یا جو لوگ واقعی کچھ کر گزرنا چاہتے ہوں لیکن موجودہ وقت اور پرانے وقتوں میں انیس بیس کا فرق آیا ہے پہلے لوگ ایک زندگی نیک ارادوں میں کٹنے کے بعد دوسری زندگی عمل کیلیے مانگا کرتے تھے لیکن اب سال بھر نیک ارادوں کے بعد لوگ عمل کیلیے اگلے ایک سال کے مل جانے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں ـ ظاہری طور پر تو یہاں پرانے وقتوں کے لوگ زیادہ ذہین نظر آئیں گے لیکن اگر گہرائی سے سوچیے تو موجودہ نسل زیادہ چالاک ہے کیونکہ پوری ایک زندگی مانگو تو ملنے سے رہی البتہ ایک ایک سال کرکے اچھی خاصی زندگی مانگی جا سکتی ہے یہ تو دنیاوی لاجک بھی ہے کہ جزوی طور پر آپ کتنا بھی ہڑپ لیں لیکن اگر کل مانگیے تو پھٹکار ہی ملتی ہے ـ
یہاں بہت سے لوگوں کو ہم سے گلہ ہو سکتا ہے کہ ہم بھی بڑے” سیاسی” نکلے اور ہم نے بھی پورے سال سے چن چن کر صرف مطلب کی باتیں ڈھونڈ نکالیں ہم نے خواتین کے استحصال اور ان کے تحفظ کی بات نہیں کی ، بھوکی عوام اور غریب مزدور کی بات نہیں کی ، بے روزگاری اور آسمان چھوتی مہنگائی کی بات نہیں کی، youth کے مدعے پر بات نہیں کی، climate change کی بات نہیں کی، global warming کی بات نہیں کی، population and pollution increasing کی بات نہیں کی ـ تو ذرا آپ ہی انصاف کیجیے کہ یہ باتیں کرتا ہی کون ہے؟؟ اور اگر بھولے بھٹکے کوئی کر بھی لے تو سنتا کون ہے؟؟ اور اگر بحالت مجبوری سن بھی لیں تو یقین جانیے اس کی آواز اس کی پکار اس کی ہمت کو محض ایک تقریر سمجھ کر بہترین مقرر کے خطاب سے نوازتے ہوئے کچھ کر گزرنے کے اس کے حوصلے کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہےـ اس ضمن میں ملکی اور عالمی سطح پر بے شمار مثالیں آپکے سامنے ہیں current میں گریٹا تھنبرگ کی مثال ہی لے لیجیے وہ سولہ سالہ بچی دنیا کی تباہی کے درد سے ایوانوں میں چیختی ہے چلاتی ہے دنیا کے عظیم رہنماؤں کو اپنے تباہ ہوتے بچپن کا واسطہ دے کر جھنجھوڑتی ہے روتی اور گڑگڑاتی ہے اور بدلے میں اسے صرف تالیاں ملتی ہیں !
چلیے اب انیس بیس کے فرق کے ساتھ ہم بھی وداع لیتے ہیں یعنی لیتے بھی ہیں اور نہیں بھی ـ لیتے اس لیے ہیں کہ فی الحال مضمون کی طوالت ہمیں کھدیڑنے پر آمادہ ہے اور نہیں لیتے اسلیے کہ "پھر ملیں گے گر خدا لایا”ـ لیکن ذرا ٹھہریے یہ تو محض ملکی باتیں ہوئی جاتے جاتے عالمی سطح پر انیس بیس کے فرق پر بھی روشنی ڈالتے چلیں لیکن…….خیر……. جانے دیجیے!! جب آگ خود اپنے گھر میں لگی ہو تو کون بےوقوف ہے جو دوسرے گھروں کی آگ بجھاتا پھرے!!

Comments are closed.