خوف میں لپٹی ہوئی حکمت عملی کو بزدلی اور ناعاقبت اندیشی کہتے ہیں

✍?✍?✍?

@سید حفظ القدیر ندوی

جلال آباد (شاملی) میں میرے دوست ہیں سمیع اللہ خان ۔ سمیع اللہ خان کا کہنا ہے کہ مظفرنگر میں مہاویر چوک پر موبائل ہول سیل کی مارکیٹ ہے ۔ جسمیں مسلم کی صرف دو دوکانیں ہیں اور ان دو میں سے ایک سمیع اللہ خان بھائی کے بہنوئی کی دوکان ہے ۔
انکا کہنا ہے کہ جس روز 20 دسمبر کو مظاہرہ تھا مظاہرین پر امن مظاہرہ کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔ انکے بہنوئی بھی اپنے گھر تھے ۔ تبھی انکے پاس مارکیٹ کے ہی ایک غیر مسلم دوکاندار کی کال آتی ہے اور خبر دی جاتی ہے کہ آپ جلدی آئیں آپکی دوکان لوٹی جارہی ہے ۔
یہ فورا مہاویر چوک کی طرف بھاگے ۔ موقع پر ہندو نوجوانوں کی مشتعل بھیڑ انکی دوکان کا شٹر توڑ چکی تھی ۔ انہوں نے بہت منت سماجت کی لیکن کسی نے انکی ایک نہیں سنی اور دیکھتے دیکھتے انکی اور انکے برابر والی دوکان کی ایک ایک چیز ممبر پارلیامنٹ کے غنڈوں نے لوٹ لی ۔ لیپ ٹاپ نئے پرانے موبائل یہاں تک کے دوکان کا فرنیچر بھی توڑ دیا ۔ انہوں نے ایک دوکان کے نقصان کا تخمینہ بارہ لاکھ بتایا ۔
مزید قرب و جوار کے دوکان داروں سے یہ پتا چلا کہ جس وقت مظاہرین مہاویر چوک سے پر امن رخصت ہوچکے تھے تو موجودہ بی جے پی ایم پی سنجیو بالیان مشتعل نوجوانوں کی بھیڑ کے ساتھ وہاں پہونچے اور بھیڑ کو لوٹ مار کا اشارہ کرکے آگے بڑھ گئے ۔ (جس کا اعتراف انہوں نے وائرل ویڈیو میں کیا ہے ) پولس فورس موقع پر موجود تماشائی بنی رہی ۔ اس حادثہ کے گواہ کانگریس کے سابق ایم ایل اے مرحوم سعید الزماں کے بیٹے سلمان سعید بھی ہیں جنکے گھوڑے اس وقت مہاویر چوک پر موجود تھے اور دنگائیوں نے بے زبان مخلوق کو بھی نہیں بخشا تھا اور گھوڑوں کو آگ کے حوالے کر دیا تھا ۔
یہ صرف ایک مختصر قصہ ہے ۔ مظفرنگر میرٹھ بجنور بلندشہر کانپور اور دیگر شہروں کی مسلم بستیوں میں جو کچھ پولس اور موجودہ بے جے پی آر ایس ایس کے لیڈران کے ساتھ ملکرہوا وہ دل دہلا دینے والا ہے ۔ اسپر زبردست ایکشن لینے کی ضرورت ہے ۔
لیکن کیا کیا جائے ایک خوف طاری ہے ایک خاص طبقہ پر ۔ عوام کا جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے مجھے یقین ہوچکا کہ عوام قطعی حکومت سے ڈری ہوئی نہیں ہے ۔ ڈرا اور سہما تو مذہبی اور سیاسی طبقہ ہے ۔ صرف علماء ہی نہیں انکے ساتھ مسلم سیاست داں بھی انتہائی ڈرے ہوئے ہیں ۔ عوام تو مکمل مونڈ میں ہے ۔ انکی راہنمائی کرنے کیلئے نہ تو مذہبی طبقہ سے اور نہ ہی سیاسی طبقہ سے کوئی کھل کر سامنے آنے کیلئے تیار نہیں ۔ آئین ہند نے ہمیں اپنے تحفظ کے مکمل اختیارات دئے ہیں ۔ ہم تمام تر ثبوت جٹا کر جہاں تک ہوسکتی ہے کوشش تو کرسکتے ہیں نا۔
یہ دور تو ویسے ہی مذہب بیزاری اور علماء بیزاری کا ہے لیکن پھر بھی لوگ اپنے راہنماؤں اور قائدین کی جانب نظر لگائے ہوئے ہیں ۔ اس وقت عوام کیلئے کھڑے نہیں ہوسکے تو یقین جانئے رہی سہی ہوا نکل جائے گی ۔ لوگوں کو ضرورت ہے اور انکے ساتھ کیلئے کوئی نہیں ہے ۔
میرٹھ میں جو اموات ہوئی ہیں وہ تو ہیں ہی لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ کئی شہادتیں لوگوں نے چھپالیں اس ڈر سے کہ پولس کاروائی کرے گی اور لوگ اپنے کو کھو دینے کے بعد مزید ظلم و بربریت برداشت نہیں کر پائیں گے ۔ خاموشی سے جاکر اپنے جگر کی تدفین کر آئے ۔ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس سرکاری ظلم کی روداد کو سن کر ۔ لیکن پھر حوصلہ ملتا ہے اس امید کے ساتھ کہ انہیں قربانیوں کے طفیل میں ملت کے اندر بیداری ،حمیت،للہیت اور مقصد حیات پیدا ہوگا ۔ ان شاء اللہ تعالی ۔
یہ دور فیصلہ کن دور ہے ۔ خوف میں لپٹی ہوئی حکمت عملی کو بزدلی اور ناعاقبت اندیشی کہتے ہیں جس سے آپ تو ڈوبیں گے ہی ملت کو بھی لے ڈوبیں گے ۔

خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضی سوز صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر

Comments are closed.