آخر یہ دن بھی دیکھنا تھا۔۔!!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
کیا آپ کو یقین ہوگا کہ کبھی ہم ہندوستان کا دل یعنی دہلی میں ۵۳/ فیصد ہوا کرتے تھے، بات بہت زیادہ پرانی نہیں ہے، سنہ اور سال کے حساب سے مت دیکھئے_! اسے تاریخ سمجھئے اور تاریخ لگ بھگ صدی چاہتی ہے؛ لیکن ہم ایک صدی کے اندر ہی اندر کیا سے کیا ہوگئے_! آج ذرا اس کا اندازہ کیجئے_ ۱۹۴۲ کے اعداد و شمار میں یہ بتلایا گیا ہے؛ کہ دہلی میں مسلمان ۵۳/ فیصد تھے، پوری دہلی ان کے وجود سے سرشار تھی، چپہ چپہ پر وہی نظر آتے تھے، ویسے دہلی مغلیہ سلطنت کا پس ماندہ تھی، اس کے آثار کے طور عمارتوں کے ساتھ ساتھ افراد بھی تھے؛ لیکن جب یہی اعداد و شمار ۱۹۵۲ میں ہوتے ہیں، تو خود پنڈت جواہر لال نہرو پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ بتاتے ہیں؛ کہ مسلمانوں کی تعداد اب صرف ۵/ فیصد رہ گئی ہے، حالانکہ اکیسویں صدی میں یہ ۱۱/ فیصد ہے، دراصل انہیں زمانوں میں ہندوستان کی تقسیم اور کانگریس و مسلم کی خون ریز نفرت عروج پر تھی، وہ شہر جو کبھی مسلمانوں کا تخت و تاج ہوتا تھا، جس کی در و دیوار مسلمانوں کی عظمت و شہنشاہیت پر دلیل ہے، وہاں سے مسلمانوں کو کاٹ کاٹ کر پھینکا گیا، مارا گیا اور وہ تتر بتر ہوگئے۔
یہ آزادی اگرچہ برٹش حکومت سے تھی، ان کی سامراجیت سے تھی، قزاقوں کی قزاقی سے تھی؛ لیکن اصل میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی، انہیں سیاست کا حصہ بنایا گیا، وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ملک کی حکمران آبادی کی بنا پر مارے گئے، بلکہ ایسی قتل و غارت گری کی گئی کہ جو انسانیت کی شرمندگی سے عبارت تھی، اور آزادی کے وقت تو ماحول یہ ہوچلا تھا کہ جنہوں نے مخالفت کی وہ بھی گنہگار ٹھہرے اور جنہوں نے حمایت کی وہ بھی کسی کے مجرم ہی قرار پائے، سکون آخر کسی جانب نہ تھا، چنانچہ جن لوگوں نے پاکستان کی حمایت کی اور تقریبا ۷۷ لاکھ مسلمان یہاں سے وہاں ہجرت کر گئے، ان میں اکثر و بیشتر صاحب وجیہ لوگ تھے، ان کا سرکاری محکمہ میں ایک اعتبار حاصل تھا، وہ سیاہ و سپید کے مالک تھے، تحریک آزادی کی جان تھے؛ لیکن رخت سفر باندھا تو خون کی ندیاں عبور کرنی پڑیں، وہ تو چلے گئے؛ لیکن جو رہ گئے ان کے ساتھ تاریخ کی سب سے خطرناک بربرتا دکھائی گئی، مائیں، بہنیں اور بوڑھے بزرگ سبھی فتنوں کا شکار ہوگئے، اور مزید حیرت یہ کہ وہ پاکستان پہوچ کر ہمیشہ کیلئے مہاجر ہی کہلائے، دوسرے درجے کے شہری اور دوسرے درجے کے پاکستانی ہونے پر مجبور ہوگئے، رہی بات اسلام کے نفاذ کی تو اس میں اب بھی "دلی ہنوز دور است”۔
غور کیجیے کہ یہ تقسیم کی حمایت کرنے والوں کا حال تھا، لیکن اس کے برعکس جن لوگوں نے مخالفت کی ان کیلئے ضروری تھا کہ وہ اب بھی اچھی صورت حال میں ہوتے؛ لیکن کیا ہوا__؟ اس وقت مخالف جماعت جس نے سب سے زیادہ مخالفت کی وہ تھی جمعیت العلماء ہند_ انہوں نے باقاعدہ تحریک چلائی تھی؛ کہ کوئی بھی پاکستان نہ جانے پائے، اسے اسلام مخالف اور ملک مخالف بتلا کر تقریریں کی جاتی تھیں اور خوب ایک دوسرے کو کوسا جاتا تھا، تو وہیں شخصی طور پر مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی سخت احتجاج درج کروایا تھا، ان کی وہ تقریر تاریخی حیثیت رکھتی جو جامع مسجد دہلی میں کی گئی تھی اور پاکستان کے قیام پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا، جانے والوں کو صدائیں دی تھیں، اور رکنے کیلئے ترغیب دی تھی، وہ اکابرین کی دہائی دیتے تو کبھی مساجد و مدارس کا واسطہ دے کر جھنجھورتے تھے_ دوسری ایک اور شخصیت کشمیر کے شیخ عبداللہ کی تھی_ ان کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کھلے عام جناح کو گالی دیا کرتے تھے، اور تقسیم ہند پر اپنی شکایت درج کرواتے تھے_ بہر حال آزادی کے بعد کچھ تو وقار ٹھہرا کہ آئین بننے کے بعد جن ڈھائی سو لوگوں کے دستخط لئے گئے تھے، ان میں تیس افراد مسلمان تھے_
مگر وقت نے یوں کروٹ لی کہ وہ سارے جو مخالف تھے، آج اپنے ہی گھر کے باغی قرار بن گئے ہیں، CAA اورNRC نے انہیں مجبور کردیا ہے؛ کہ وے بھی اپنی پہچان دکھائیں، تبھی وہ ہندوستان میں رہ سکتے ہیں، ورنہ نکل جائیں_ محمود مدنی انہیں کی نسل سے ہیں، ابھی قریب ہی میں BBC کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہا؛ کہ اب ہم جد و جہد کریں گے اور اپنی جان کی بازی لگادیں گے، آپ جانتے ہیں کہ انسان جان کی بازی کب لگاتا ہے، جبکہ اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ ہو_ شیخ عبد اللہ کے بیٹے فاروق عبداللہ کے ساتھ کیا ہوا_؟ تقریبا تین مہینہ نظر بند رہے، اور جس کشمیر کو خاص صوبہ کا درجہ دلواکر ہندوستان سے ملحق کروایا تھا، وہ بھی ختم ہوگیا_ نیز ابھی ملک گیر احتجاجات میں ان تیس افراد میں سے چار خاندان کے کوگوں سے بات کی گئی جن کے آباء نے آئین پر دستخط کیا تھا، آج ان کی اولادیں یہاں سے بے دخل ہونے کو ہیں_ اف_ تاریخ کا یہ ظلم کسی بھی غافل کو جینے نہیں دیتا، انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا؛ کہ یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا، خود کو حب الوطن ثابت کیا اور اب ان کی نسلیں باغی وطن کہلانے کو تیار ہیں، اور اپنا وجود ثابت کرنے کیلئے تڑپ رہی ہیں_ کیا یہی صلہ ملنا تھا_؟ کیا یہی بدلہ ہندوستان ٹھہر جانے کا_؟ تقسیم کی مخالفت کرنے کا_؟ اور آئین پر دستخط کر کے ملک کو ایک جمہوریت پسند بنانے کا_؟
رائیگاں سب فصل گل کی گلشن آرائی گئی
اور الجھی جس قدر یہ زلف سلجھائی گئی
04/01/2020
Comments are closed.