میں بھی حاضر تھا وہاں ” قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں "

✒ : عین الحق امینی بیگوسرائے
سی اےاے، این آر سی اور این پی آر کی سخت مخالفت کے تعلق سےجامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے عظیم المرتبت طلبا وطالبات نے جس تحریک کو جنم دیا ہے ،اس حوالے سے دور رہ کر لگ رہا تھا کہ شاید حکومت اس کو ہندو مسلم کا رنگ دینے میں یا پانسہ پلٹ کر اپنے جھانسے میں کرلینے میں کامیاب ہوجائے گی ،لیکن آج یہاں پہنچ کر آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے ،اس سے اب عین الیقین ہوگیا کہ حکومت تو کیا ،دنیا کی کوئی طاقت اب اس تحریک کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی ،یہ الگ بات ہے کہ لب بام پہنچ کرکوئی میر جعفر و صادق بن جائے ،انسانی تاریخ میں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ۔جامعہ کے پروٹسٹ کا حصہ بننے کے بعد ان مظاہرین کی تقریروں کے الفاظ ،ابوالکلام آزاد مرحوم کے الفاظ کی طرح وطن پرستی اور حب الوطنی کے جذبات سے سرشار، پلیس کی بربریت کی داستان جیسے برٹش سفید فام کے ظلم کی داستان ، ان طلبا ء کے حوصلے جیسے کے بلند وبالاچٹان اور سچ پوچھئیے تو آج یہ اشعار عملی طور پر سمجھ میں آرہے تھےکہ:
نوجوانوں یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے ،
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا ۔
اور ان کی خاک نشینی اور راتوں کو کھلے آسماں کے نیچے گذار کر یہ پیغام دیناکہ:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانہ کے گنبد پر ،
توشاہیں ہے، بسیر اکر پہاڑوں کی چٹانوں پر ۔قابل دید اور دلوں کو موم اورآنکھوں کو آب دیدہ کردینے والا منظر تھا ،یقین کیجیے کہ ان طلبا کے حوصلوں اور فکری وعملی کرداروں سے قلبی سکون مل رہاتھا ،مگر اسی لمحہ،ان کی بے بسی کے باوجود ظلم وستم کے سائے میں تاریخ اور اتہاس رقم کرنے کا پاک جذبہ ،عزم مصصم ،حکومت کو گھٹنے ٹیکنے کے لئےمجبور کرنے کی صلاحیت اور وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ” ہم اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں ” پر وزیر کی نااہلی کا مسکرا کر جواب دینے کے اندازپر اپنے آپ کو ہزار بار تھامنے کے باوجود آنکھیں آنسو بہانے پر مجبور ہوجاتیں تھیں ،وہاں پہنچ کر لگا کے ہم کسی پروٹسٹ کا حصہ ہیں ،وہی گرم جوشی،آواز وانداز ، ملک کے حکمرانوں کو مخاطب کرنے کا بے باک لہجہ اور حب الوطنی سے سرشاری کی کیفیت تھوڑی دیر بعد سے پیدا ہونے لگی تھی، میرے جاننے والوں نے اظہار خیال کرنے والوں کی لشٹ میں میرے نام بھی جڑوادیئے تھے ،اچانک میرے نام کا اعلان ہوا کہ: آج اتوار کی وجہ سے میرے پاس پہلے سے کچھ خاص اوراہم نام آئے ہوئے ہیں ، میں معذرت کے ساتھ آئندہ کل کے لئے عین الحق امینی صاحب کے نام کا اعلان کرتا ہوں ، وہاں میرے جیسوں کو کچھ کہنے ضرورت بھی نہیں تھی ،اصل تو تحریک کے مرکز کا حصہ بننے اور جامعہ کے جیالوں کی حوصلہ افزائی ، زخمی بھائی بہنوں کی دلجوئی اور شہید بھائیوں کی شہادت سے اپنے تن مردہ میں جان ڈالنا مقصود تھا ۔چاروں طرف بس ایک ہی آواز کہ حکومت کے حالیہ فیصلے نے پورے ملک میں امن چین کو غارت کردیا ہے ،مانو رفتار رک سی گئی ہے ،جو لوگ جہاں ہیں وہیں اپنی اپنی صلاحیت سے اس کالے قانون کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں ،اس طرح آپ دیکھیں تو پورا ملک سڑکوں پر آچکا ہے ،ملک میں اٹھ رہی انقلابی لہروں سے مرکزی وصوبائی حکومت جب جب ڈرتی ہے ،پلیس اور ہندوشدت پسند تنظیموں کے غنڈوں کو آگے کر دیتی ہے،جو ان نہتے پرامن مظاہرین کو اپنے تشدد کا سیدھا نشانہ بناتے ہیں ۔ حکومت کی بوکھلاہٹ کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ جہاں ہزاروں کی تعداد میں زندوں کو پس زنداں کرنے سے نہیں چوک رہی ہے ،وہیں نہ صرف ان بے قصور غیر مظاہرین ، معصوم بچے بچیوں، بے گناہ عورتوں اورلاچار وبےکس ضعیفو ں کو گھروں میں گھس کر لاٹھی ڈنڈوں سے مار مار کر نیم مردہ کردیا جارہا ہے ،بلکہ سالوں پہلے گزرے ہوئے فیروزہ باد کے منے خاں جیسے مرحوم کو بھی کورٹ میں حاضر ہونے اور” دس لاکھ” روپے جمع کرنے کا”نوٹس” ان کے وارثین کو تھما دیا جارہا ہے ، حد تو تب ہوگئی جب جامعہ اور اےایم یو کے کیمپس میں گھس کرلائبریری اور مسجدوں میں موجودطلبا کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر نہ صرف جسمانی طور پر انہیں ہمیشہ کے لئے اپاہج بنادیا گیا ہے ،بلکہ موت کے گھاٹ اتارنے تک سے حکومت نہیں چک ر ہی ہے ،
سرسری رپورٹ بتاتی ہے کہ اب تک ہزاروں معصوم لوگ ظلم کا شکار ہوکر قید کردئیے گئے ، ہزاروں کی تعداد میں گھروں سے بے گھر ہیں ، سینکڑوں لاپتہ ہیں اور پچاسویں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، ایف آئی آر اور اگیات کے نام پر بعض مسلم آبادی میں لوگ ٹھنڈ کی اس پوری پوری رات کو خوف ودہشت کے سائے میں گذارنے پر مجبور ہیں ۔
موجودہ حکومت کے کالے کرتوت کا یہ وہ منظر نامہ ہے،جو دستوری طور پر پروٹسٹ کرنے کا خمیازہ ہے ۔ اہل نظر سی اےاے ،این آرسی اور این پی آر پر عمل درآمد کے نتیجے میں ہونے والے ملکی اور عددی عتاب سے لرزاں ہیں ،انہیں احساس ہے کہ آج کے یہ گولی ڈنڈے ہی کل ہماری نسلوں کو ڈیٹنشن سینٹر میں ذلت کی زندگی اور سسک سسک کر جینے سے بچا سکتے ہیں اور ایک باعزت شہری کا خواب تبھی پورا ہوسکتا ہے،جب ڈاکٹر امبیڈ کر کے بنائے سیکولر دستور کا تحفظ کیا جائے، مودی کے لائے ہوئے اس کالے قانون کی پرزور مخالفت کی جائے،تاکہ بھارت نہ صرف جلنے سے بچے ،بلکہ نفرت کو مٹاکر آپسی اتحاد کے سہارےایک اور بٹوارے سے ںھی بچے۔
اسی عزم کے ساتھ ملک کا ہر طبقہ اپنے حصے کا احتجاج درج کرانا اپنا فرض سمجھ رہا ہے اور اس کے لئے نوجوان لڑکے لڑکیاں سمیت باحجاب خواتین،معصوم بچے بچیاں، سوسال کی بڑی بوڑھی دادی اماں سب سڑکوں پر نکل چکی ہیں ،تاکہ کل ہماری نسل ہم سے ہماری آج کی بزدلی کی سزانہ پائے ۔
مگر جب ان یاران باصفا کی نظریں پاسبان حرم کو ڈھونڈتی ہیں اور اپنے بیچ انہیں نہ پاکر ماہی بے آب کی طرح تڑپتی ہیں ،اپنے آنسوؤں کو آپ پوچھتی ہیں ،اپنے آگے پیچھے ،دائیں بائیں ان مضبوط شخصیتوں کو ڈھونڈتی ہیں ،جنہوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر حوصلہ بخشی تھیں کہ:
آئین وجواں مرداں حق گوئی و بے کی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ۔
جنہوں نے یہ بھی سکھایا تھا کہ :
تندی باد مخالف سے نہ گھبر اے عقاب ۔
یہ توچلتی ہیں تجھے اونچا اڑانے کے لئے ۔
انہوں نے ہی تو یہ بھی پڑھایا تھا کہ:
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے ،
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ۔
انہوں نے ہمیں یہ بھی تو بتلایا تھا کہ :
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو!
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
ان کی عزم بھری تقریروں میں ہی تو سنا تھا کہ :
باطل سے دنبے والے اے آسماں نہیں ہم۔
سوبار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا ۔
انہوں نے تو ہمیں یہ سنا سناکر اپنا گرویدہ بنایا تھا کہ:
صدیوں سے طوفاں کے مقابل رہا ہوں میں ،
آساں نہیں مٹانا نام ونشاں ہمارا۔
کئی بار انہوں نے ہمیں للکارا ،ہم نے پروانہ وار اس پر لبیک کہا ، ان کی ایک آواز پر قدموں میں نچھاور ہونا ،ہم نے اپنی سعادت سمجھی ،انہوں نے جب بھی کن کہا ،فیکون کی طرح دست بںستہ ہم صفوں میں کھڑے نظر آئے ، دستور و منشور سے، اپنے حصے کے ہرفرد بشر کو واقف کرانے کا فرض نبھایا ،آخر ہم سے ایسی کیا گستاخی ہوئی کہ قیادت ہم سے روٹھ گئی ،ہم نے کہاں انہیں نظر انداز کیا، کہ ہم سے اس درجہ بھروسہ حضور والاکا اٹھ گیا ، ہمیں اس وقت آپ کی طرف سے کوئی واضح ہدایت نہیں مل رہی ہے، آپ نے بارہا کہا ہے غیروں کو ساتھ لے کر سڑکوں پے آئیں ،ہم ایسا ہی کررہے ہیں ،مگر ہم چاہتے ہیں کہ غیروں کے ساتھ تنہا نہ جائیں ، بلکہ آپ کے نقش قدم کے ساتھ ان کے جھنڈا تلے چلیں۔
ملکی سطح پر نظر ڈالتے ہیں تو ہرکوئی نصیحت کرتے اور جوانوں کی پیٹھ تھپ تھپاتے یا دعائیں دیتے دکھائی دےرہے ہیں :
جوانوں کو مری آہِ سحَر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کر دے
آپ دیکھائی نہیں دیتے ہیں ،آپ کے سائے میں ہمارا حوصلہ دوبالا ہو جاتا ہے ،آپ جہاں بیٹھیں گے وہیں انجمن کا سماں ہوگا ، ابھی” کرو یا مرو "کا وقت ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ "کرو "کا وقت ختم ہو جائے اور صرف” مرو "کا وقت رہ جائے ،خدا واسطے آپ ہمیں تنہا نہ چھوڑئیے ، ہمیں یہ احساس مت ہونے دیجئے کہ :
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات!
4/1/2020
Comments are closed.