اسٹوڈنٹس کو کم مت سمجھیے۔۔!!

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]
7987972043

آج پورے ملک میں اسٹوڈنٹس کی ریلیاں نکل رہی ہیں، بلکہ اس میں اور وسعت دی جائے اور یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا؛ کہ پوری دنیا میں طلباء سڑکوں پر ہیں، جامعہ ملیہ اس میں نمایاں ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بی ایچ یو اور جواہر لال نہرو یونیورسٹیز وغیرہ سبھی اس فہرست میں شامل ہیں، ایک زور دار طاقت اور اپوزیشن کی شکل میں یہ اٹھے اور آج پورے ملک کی فضا پر چھا گئے ہیں، ان میں لڑکیاں بہت ہی جلی کردار رکھتی ہیں، ویسے بلا کسی تفریق مذہب قوم کی ہر صنف نازک نے موثر کردار نبھایا ہے، بالخصوص قوم کی مسلم لڑکیوں نے سر اونچا کردیا ہے، اور ملک کو خواب غفلت سے جگا کر ایک نئی سمت کی طرف لا کھڑا کیا ہے، انہوں نے یہ باور کرایا ہے کہ اگر خموش رہوگے تو جینے کا حق کھو دوگے، تمہارے پاس تمہیں خود کو ثابت کرنے کیلئے بھی کچھ نہ ہو گا، تم سے ووٹ لیکر پھر تم سے ہی تمہاری پہچان مانگیں گے، CAA اور NRC کی شکل میں تم سے تمہارا وجود چھین لیا جائے گا، تم جاگ جاو_ اٹھو اور اپنا حق مانگو_ اس کیلئے لڑو_ جہد مسلسل کرو_!!
حیران کن بات ہے کہ جنہیں سیکھنا چاہئے وہ سبھی کو سکھا گئے، اب وہی تحریک پورے ہندوستان کی امید ہے، فاشزم کے خلاف ایک چنگاری ہے، بلکہ شعلہ جوالہ ہے، تاریخ میں بھی انہوں نے ملک کو ایک کیا تھا، پوری طاقت کو ایک ہی مٹھی میں سمیٹ کر ملک کو انگلیوں پر نچانے والی اندرا گاندھی کے خلاف جے پی آندولن کیا تھا، جسے بہار آندولن بھی کہا جاتا ہے، یہ ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۵ کی بات ہے، جس وقت ملک میں امرجینسی چل رہی تھی، اس تحریک کی قیادت جے پرکاش نارائن کر رہے تھے، جو اگرچہ صرف بہار میں غیر منظم حکومت اور کرپشن کے خلاف شروع ہوا تھا؛ لیکن جلد ہی یہ ملک گیر بن گیا اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف محاذ آرائی ہوگئی، اسے بعد میں سمپورنا کرانتی کا بھی نام دیا گیا، جب پورے سانسد کو گھیر لیا گیا تھا، اسپیکر بھی اندر جانے سے قاصر رہ گئے تھے، اندرا گاندھی کا فکری محل ریزہ ریزہ ہو کر رہ گیا تھا، اور اسی تحریک نے پھر ہندوستان کی جمہوریت بحال کی تھی، لوگ بھول گئے ہوں؛ لیکن اسٹوڈنٹس نہیں بھولے، وہ اپنی طاقت جانتے ہیں، اسی لئے آج وہ میدان میں ہیں، انہیں دبانے کی کوششیں رائیگاں ہیں، وہ نہ دبائے جائیں گے اور نہ جھکائے جائیں گے، وہ جاگے ہیں تو جگا کر ہی دم لیں گے۔
۲۰۱۱ میں سیریا کے اندر انقلاب کی لہر کن لوگوں نے پیدا کی تھی، وہاں کے طلبہ ہی تھے جنہوں نے بشار الاسد کے خلاف اور اس کے مظلم کے خلاف ملک گیر تحریک کا آغاز کردیا تھا اور نوبت یہ آن پڑی تھی؛ کہ بشار نے انہیں گولیوں سے بھون کر رکھ دیا، مگر وہ پیچھے نہ ہٹے بلکہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا اور آج پورا سیریا خانہ جنگی کی چپیٹ میں ہے، تیونس کا کیا قصہ ہے وہاں بھی ایک طالب علم نے نوکری نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی اور حکومت کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک ایک ہوگیا اور حکومت کی بخیہ ادھیڑ دی گئی_ تاریخ میں ہو یا موجودہ وقت میں ہو_ کبھی بھی طلباء کی تحریکات کو سنجیدگی سے نہ لینا بے وقوفی اور لاعلمی کی بات ہے، دراصل بات یہ ہے کہ اگر ایک طالب علم اپنی کلاس چھوڑ دے تو وہ کلاس لیس ہو جاتا ہے، اور دنیا میں جو کوئی classless ہوجائے، وہ سب سے زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے، اس کے پاس ماضی کا کچھ نہیں ہوتا، وہ آئندہ کی بھی فکر نہیں کرتا، وہ بس ایک مقصود پر دھیان دیتا ہے، جس سے اس کا سروکار ہے، اس وقت پوری طلباء یونین کا سروکار حکومت سے ہے، اس کی بے جا پالیسیوں اور ناجائز قوانین سے ہے، انہوں نے ہی طلباء کو classless کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی احتجاج اب ملک گیر بن چکا ہے، ہر کوئی اس سے جڑ رہا ہے، بڑے چھوٹے اور پردہ سمیی کے افراد بھی آگئے ہیں، ایک جنون ہے، حوصلہ ہے، کچھ کر جانے اور ملک میں پھر جے پی تحریک کو زندہ کردینے کی فکر ہے، وہ علم بغاوت اٹھائے ہوئے ہیں، گھروں کو چھوڑ بیٹھے ہیں، سڑکوں کو اپنا گھر بنا چکے ہیں، دن اور رات کی کوئی تمیز نہیں ہے، اب جاہل سرکار بمقابلہ گریجویٹ طلباء ہوگیا ہے، ایسے میں دیر سویر فتح ہوگی اور ضرور ہوگی۔
05/01/2020

Comments are closed.