ہم پھر بھی نئے سال کا استقبال کرتے ہیں

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
نئے سال کی آمد پر غالب نے ایک خوبصورت شعر کہا ہے:
دیکھئے عشاق کو ملتا ہے بتوں سے کیا فیض
ایک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
لیکن فیض احمد فیض اسے محض ایک ہندسہ کی تبدیلی مانتے ہیں اور نئے سال سے سوال کرتے ہیں : اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟ ان کے خیال میں نہ تو دن کی روشنی میں کوئی فرق آیا نہ تاروں بھری رات میں کوئی بدلاؤ آیا ہے، آسمان اور زمین کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس لیے ان کی رائے میں :
بے سبب دیتے ہی کیوں لوگ مبارک بادیں
غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
اس وقت سن 2020جب ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ایک طویل بھیانک رات وقت کی طنابیں توڑ کر حد امکاں تک پھیل گئی ہے اور دور دور تک اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرہا ہے۔ داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر اس طرح منصہ شہود پر چھا جائے گی، ایسا تو کسی نے گمان بھی نہیں کیا تھا۔ مگر کیا کیجیے حادثے اسی طرح اچانک ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے میں اپنے حواس کو درست رکھنا اور اپنے حوصلوں کو بلند رکھنا یہی ہماری مردانگی ہے اور ہمیں اسی جذبے سے بدلتے ہندسے یعنی نئے سال کا استقبال کرنا ہے۔
1947میں دو قومی نظریہ کے تحت آزادی کے بعد ملک جس طرح دو پھاڑ ہوگیا تھا اور سرحد کی دونوں جانب انسان نما بھیڑیوں نے جس شقی القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی خون اور گوشت کو اپنے اوپر حلال کرلیا تھا جس کی وجہ سے تقسیم ہند کا المیہ بقول پروفیسر مشیر الحسن سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ دہلی دنیا کے دس بڑے المیوں میں شمار ہوتا ہے، جس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ لوگ بے گھر ہوئے اور ساٹھ ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے، ہزاروں عورتوں کی عزت لوٹی گئی، ہزاروں بچے یتیم ہوئے اور اربوں کی املاک تباہ ہوئیں۔ یہ وحشت ناک سلسلہ کم و بیش ایک سال تک جاری رہا اور گاندھی جی کے قتل کے بعد جاکر تھما۔
اس کے بعد ہر دو جانب کوشش ہوئی کہ وہ دورِوحشت ختم ہو اور لوگ پھر سے امن و آشتی کے ساتھ رہنا سیکھ لیں۔ تقسیم کے بعد ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ مسلمانوں میں جو لوگ دو قومی نظریہ کے حاملین تھے وہ سب کے سب پاکستان چلے گئے اور جو نہیں جاسکے انھوں نے اپنا قبلہ درست کرلیا اور اپنی غلط رائے سے رجوع کرکے متحدہ قومیت کے علم بردار بن گئے اور بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کی آبیاری کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا۔ اس طرح بھارت میں رہنے والے مسلمان متحدہ قومیت کے حامل اور وکیل بن گئے کیونکہ اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔ مسلمانوں میں جو لوگ دو قومی نظریہ کے حامل تھے ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی لیکن چونکہ یہ بہت پاور فل لوگ تھے اور ان کو انگریزوں کی مضبوط پشت پناہی حاصل تھی اور ان کی ہی تشہیر کی جاتی تھی اس لیے انھوں نے تمام اجتماعی اسٹیج کو ہائی جیک کرکے یہ تاثر پیدا کیا کہ پورے مسلمان دو قومی نظریہ کے حامل ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے خلاف تھی۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت متحدہ قومیت کی حامی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سخت دباؤ کے باوجود تمام تر خطرات مول لے کر بھی وہ اس ملک میں ڈٹے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ملک کی قومی دھارا میں تیزی سے شامل ہونے لگے۔ بلکہ مسلمانوں کو وقت کی حکومت اور اسی کے اداروں سے یہ شکایت رہی کہ وہ اپنی مشترکہ قومی دھارے میں شریک ہونے میں رخنہ ڈالتے ہیں اور جان بوجھ کر ان کو جاہل پس ماندہ، کمزور اور الگ تھلگ رکھنا چاہتے ہی۔بہرحال ملک کا دستور ان کے سامنے ایک ایسا ’سُرکچھا کَوَچْ‘ تھا جس سے امیدتھی کہ ان کے خلاف کی جارہی نا انصافی ایک نہ ایک دن دور ہوگی اور وہ تمام شہری حقوق کے ساتھ ملک کی تعمیر اور ترقی میں اپنی پوری ذمہ داری نبھاسکیں گے۔
لیکن ہندوؤں میں جو لوگ دو قومی نظریہ کے حامل تھے اور جن کے بے لچک رویہ کی وجہ سے ہمارا سماج دو پھاڑ ہوگیا تھا انھوں نے اپنی رائے سے رجوع نہیں کیا بلکہ دیش بھکتی کا لبادہ اوڑھ کر دوبارہ سماج کو نئے سرے سے بانٹنے اور توڑنے کی مہم میں لگ گئے۔ شروع میں تو لوگوں نے ان پر زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن وہ پوری دلجمعی سے اور بڑے منظم انداز میں کام کرتے رہے۔ ملک کی بدلتی سیاست کے ساتھ انھوں نے تال میل بٹھا کر اپنی پوزیشن مضبوط کرنی شروع کی۔ اس طرح سماجی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی سطح پر ایک پاور فل قوت بن کے ابھرے۔
اس وقت یہی فکر اور یہی قوت ملک کی سیاست و اقتدار ار اس کی سماجی اور ثقافتی درو بست پر حاوی ہے۔ اب چونکہ اس کو زبردست اکثریت حاصل ہوگئی ہے اس لیے وہ اپنے تمام ایجنڈے ایک ایک کرکے نافذ کررہی ہے۔ اگرچہ اس کا یہ ایجنڈا ملک کے دستور اور قانون، اس کی روح اور روایت سے ٹکراتا ہے پھر بھی وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس کو نافذ کرتے جارہے ہیں۔ پریس، عدلیہ اور رائے عام سب کو دھتا دکھاتے ہوئے وہ پورے زور وقوت کے ساتھ بلکہ بے شرمی اور جبر کے ساتھ دستور اور مصدقہ روایتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے نافذ کررہے ہیں۔ 2019کا دسمبر کا سرد مہینہ خونی مہینہ ثابت ہوا ہے۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف پورے ملک میں اور تمام بڑی یونیورسٹیوں میں زبردست احتجاج ہورہا ہے۔ پولیس کی بربریت نازی جرمنی کی مثال پیش کررہی ہے۔ حکومت کے ذمہ داران نہ صرف پولیس بربریت کو جائزٹھہراتے ہیں بلکہ اس کی حمایت کررہے ہیں۔ گویا ہم 2019کو کم و بیش 24لاشوں اور ہزاروں زخمیوں اور کروڑوں کی املاک کی تباہی کے ساتھ رخصت کررہے ہیں اور نوحوں اور زخموں سے چور جسموں کے ساتھ سال 2020کا استقبال کرتے ہیں اور اس نئے ہندسہ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ابھی ہمارے حوصلے ٹوٹے نہیں ہیں۔ نیال سال مبارک ہو!
Comments are closed.