ستم کی یہ تلوارضرور ٹوےگی

وصیل خان ( ممبئی اردو نیوز )
کسی بھی ملک کی تشکیل یا انتخاباتی نظام کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس میں رہنے والی رعایا خواہ وہ کسی مذہب و مسلک یا جماعت سے تعلق رکھتی ہو سب کو یکساں انصاف فراہم کیا جائے اور ان کی روزہ مرہ زندگی کے سامان کے حصول کو آسان اور ارزاں بنایا جائے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقو ں اور بستیوں میں ایک پرسکون اور محفوظ زندگی گزارسکیں۔ان کے تنازعات کے حل کیلئے بہترین نظام عدل کا قیام اورتجارتی نقل و حمل کی آسانی کیلئے مضبوط انفرانسٹرکچرکا معقول انتظام ہو تاکہ عوام کی معاشی اور اقتصادی حالت بہتر سے بہترہوسکے اور وہ عالمی برادری کے سامنے سر اٹھاکے چل سکے۔ لیکن ملک کی موجودہ صورتحال صاف طور پر یہ بتارہی ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے ۔سیاسی پالیسیاں ملک کی بہتری اور ترقی کیلئے نہیں بنائی جارہی ہیں ۔آرایس ایس کے رام راجیہ والے تصور کو عملی روپ دینے کی ہر ممکن کوشس کی جارہی ہے ۔حالانکہ عوام کی اکثریت ملک میں وہ سب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی جو فرقہ پرست پارٹیاں کررہی ہیں ۔رام مندر؍بابری مسجد ، تین طلاق ، گئوکشی ،ایک طبقہ کو خوش کرنے کیلئے اقلیتی طبقات خصوصا ً مسلمانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک اور ان کی بے دریغ پٹائی ،قومی شہری رجسٹر ( این آر سی ) میں اندراج کی پرفریب اور جارحانہ حکمت عملی ، کشمیر اور آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ ، بینک گھوٹالوں کے نتیجے میں متعدد بینکوں کا دیوالیہ ، جی ایس ٹی کی کمرتوڑ شرحیں اور عقل و فطرت سے پرے نظام ،اشیائے ضروریہ اورخوردونوش کے سامانوں کی شدید قلت،ہوش ربا گرانی ،پٹرول اور ڈیزل کی آسمان چھوتی قیمتیں ،جس سے پورا ملک شدید قسم کی پریشانیوں سے دوچار ہے ۔سرحدوں پر اضطراب بڑھتا جارہا ہے ۔این آر سی کے نام پر مسلمانوں اور دیگر صوبوں کے لوگوں کو ستانے کا لامتناہی سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ،پورے ملک میں ہاہاکار مچا ہوا ہے اور جگہ جگہ اضطراب پھیلا ہوا ہے ۔ برسوں سے اپنی جگہوں پر رہنے والوں سے ایسے کاغذا ت مانگے جارہے ہیں جن کا کبھی انہوں نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔ موجودہ حکومت کی نا اہلی سے ملک کے معاشی و اقتصادی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔سرکاری سیکٹرس کی نہ جانے کتنی کمپنیاں پرائیویٹ سیکٹرس کو فروخت کی جارہی ہیں ۔ نازک وقت میں ملک کی معیشت کے استحکام کیلئے ریزرو بینک میں رکھے ہوئے سونے کو خرچ کرنے کی باتیں کی جانے لگی ہیں ۔سابق وزیراعظم منموہن سنگھ جیسے ماہراقتصادیات نے اپنے دور حکومت میں ایسے متعدد خطرات سے ملک کو تحفظ فراہم کرکےپوری دنیا کو دکھا دیا تھا کہ ایک بالغ نظر حکمراں اور سیاستداں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کتنا اہم ہوتا ہے ۔ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات امرتیہ سین اور ابھی جیت بنرجی جیسے لوگ بھی موجودہ سرکاری پالیسیوں پر سخت اعتراض کررہے ہیں لیکن ہمارے وزیراعظم اور وزیرداخلہ اپنی غلط اور گمراہ کن پالیسیوں کے سچ اور درست ہونے پر اتنا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے کانوں میں جیسے کوئی آواز پہنچ ہی نہیں رہی ہے اور وہ اپنی اسی گمراہ کن اور ملک کو تقسیم کرنے والی پالیسیوں کو رو بہ عمل لانے میں پوری طرح مصروف ہیں ۔
کچھ دنوں قبل یورپی یونین کے ممالک سے ۲۷؍ممبران پارلیمنٹ کشمیر کے حالات کا جائز ہ لینے کے لئے آئے تھے،ان میں سے چار افراد کشمیر میں داخلے اور جائزے سے قبل ہی واپس چلے گئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ کشمیری عوام سے براہ راست نہیں مل پائیں گے اور ان سے ان کے مسائل اور وہاں کے حالات پر سوال و جواب نہیں کرسکیں گے تو ان کے کشمیر جانے کا کیا مطلب ہوگا ۔صاف مطلب ہے کہ آپ کشمیر جائیں وہاں کے حالات کا مشاہدہ کریں اور لوگوں سے ملاقات بھی کریںلیکن آپ کی تیار کردہ رپورٹ ہماری مرضی و منشااور پالیسی کے مطابق ہونی چاہیئے ۔ جبکہ ہندوستان کے اپوزیشن پارلیمانی لیڈران کو اس بات کا سخت قلق ہے کہ انہیں کشمیر نہیں جانے دیا جارہا ہےاوروہ اپنے ہی ملک میں اجنبی بنے ہوئے ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ی اس پر ہے کہ کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ اور کچھ دیگر لیڈران ایک طویل عرصے سے محصور رہ کر ابھی حال ہی میں رہا ہوئے ہیں اور یورپین یونین کے ممبران وادی کشمیر کی پرکیف ہوائیں کھارہے ہیں ۔
ایک ایسا ملک جو اپنی گنگا جمنی تہذیب کے سبب پوری دنیا میں ایک مقام رکھتا ہے جہاں ہندومسلم سکھ اور عیسائی جیسے مذاہب کے ماننے والےلوگ ہر ایک کے دکھ سکھ میں شامل رہتے ہیں اورآپس میں کوئی من مٹاؤ یا بھید بھاؤ نہیں رکھتے تھے اور سبھی کو اپنے اپنے مذاہب پر پوری طرح عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے اور اسی تہذیب و ثقافت کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کا آئین ترتیب دیا گیا ۔جہاں سب کچھ ٹھیک ڈھنگ سے چل رہا تھا لیکن کسے پتہ تھا کہ ایک دن کچھ کالی بھیڑیں اس طرح سے پورے ملک پر قبضہ کرلیں گی اور پھر سب کی جان پر بن آئے گی ۔وزیرداخلہ امیت شاہ اپنی تقریروں میں کہہ چکے ہیں اور ابھی بھی کہتے ہیںکہ مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس پر فوری روک لگانا ضروری ہے ،کچھ لیڈراور بھی حد سے زیادہ غیر آئینی بیانات دے کر ماحول کو اشتعال انگیز کررہے ہیں اور طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں سوشل میڈیا پر تو بہتان اور زبان درازیوں کا سیلاب آیا ہوا ہے کوئی کہتا ہے کہ جو لوگ رام مندر ،تین طلاق اور آرٹیکل ۳۷۰ کے فیصلوں اور سی اے اے اور این آر سی کے خلاف بول رہے ہیں اور احتجاج کررہے ہیں انہیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ان کی زبانیں کاٹ دینی چاہئیں یا انہیں پاکستان چلے جانا چاہیئے ،کچھ لیڈران کہتے ہیں کہ ایک ایک ہندو کو دس دس بچے پیدا کرنے چاہئیں ،حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشی بدحالی اورمہنگائی کی مار نےسبھی کے حوصلے پست کردیئے ہیںکسی میں بھی اپنے اخراجات بڑھانے کی ہمت ہی نہیں رہ گئی ہے ۔مسلمانوں میں بھی شرح پیدائش ماضی کے مقابلے بے حد کم ہوگئی ہے اور صرف مسلمان ہی نہیں سبھی فرقوں کے لوگ اس تعلق سے محتاط ہوگئے ہیں ۔ آج اکثریتی پارٹی کے لیڈران کہتے ہیں ایک بھی ہندو،سکھ ، پارسی یا بدھسٹ کو ہندوستان چھوڑکر نہیں جانا پڑے گا کیونکہ ہندو صرف ہندوستان کا ہی ہوسکتا ہےکیونکہ دنیا میںاس کے لئے دوسرا ہندو ملک نہیں ہے لہذا ہندوستان کے لئے ہندو اور ہندو کیلئے ہندوستان ہے ۔ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت بھی یہ شگوفہ چھوڑ چکے ہیں کہ ہندوستان میں رہنے والے سب ہندو ہی ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے یہ باتیں آپ کہاں سے بول رہے ہیں اور آپ کے ذہن میں کیا کھچڑی پک رہی ہےاور کتنے خطرناک منصوبے ہیں اس سے سبھی لوگ اچھی طرح واقف ہیں ۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی حکومت نے مسلمانوں کو این آر سی کی فہرست سے خارج کرنے کے لئے جو عہد کررکھا ہے یہ ایک ایسی گھناؤنی سازش ہے جوملک کو تقسیم کرکے رکھ دے گی ۔حکومت کی ان سازشوں کو اب اپوزیشن جماعتیں بھی اچھی طرح سمجھ چکی ہیں اور ملک کے امن پسند عوام بھی یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں حکومت کی ان گمراہ کن پالیسیوں کے خلاف ایک ایسی بیداری کی لہر پیدا ہوگئی ہے جس کا نظارہ ہر جگہ سے دیکھا جاسکتا ہے ۔اس بیداری کا جھارکھنڈ سے خوشگوار آغاز ہوچکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ لہرمزید پھیلتی جائے گی اور ایک دن ان فاشسٹوں کو بھی بہالے جائے گی ۔

Comments are closed.