مشرقِ وسطیٰ میں کشیدہ حالات اور لاکھوں ہندوستانی ملازمین کا مستقبل

تحریر: ڈاکٹر محمد جاوید ، نئی دہلی
مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی جانب سے کئے گئے فوجی کاروائی میں ایرانی فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی کی موت اور ایران کی طرف سے جوابی کاروائی اس طرف اشارہ کررہی ہے کہ حالات بہت کشیدہ ہیں اور اس جانب بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ فوراً دونوں ملکوں سے صبر و تحمل کی اپیل کرے اور ضروری مداخلت بھی کرے ۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو ہوسکتا ہے کہ پوری دنیا تیسر ی عالمی جنگ کی زد میں آجائے ، جیسا کہ کچھ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے ۔ خطہ کی موجودہ صورتحال جو اس وقت پیدا ہوئی ہے ، جو اس جانب اشارہ کررہی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس کے سنگین اثرات سے اپنے آپ کو دور نہیں رکھ پائے گا ۔ وجہ چوں کہ بالکل صاف ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو پورا مشرقِ وسطیٰ زد میں آئے گا ، جس کی وجہ سے خام تیل کی پیداوار میں کمی آئے گی ، اور بین الاقوامی بازار میں اس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اس خطہ میں آنے والے ممالک میں خصوصی طور پر سعودی عربیہ ، جو کہ ایک رپورٹ کے مطابق 583میٹرک ٹن ، عراق283میٹرک ٹن ، ایران 214میٹرک ٹن ، متحدہ عرب امارات 181میٹرک ٹن اور کویت 150میٹر ک ٹن خام تیل کی پیداوار کرتا ہے جو کہ بین الاقوامی سطح پر ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ لہٰذا اس پس منظر میںاگر جنگ کے حالات بنے توممکن ہے کہ اس کا شدید اثر پڑے گا ۔
مگر دوسری جانب اس جنگ کی بابت ایک اور طبقہ جو سب سے زیادہ متأثر ہوگاوہ ہے ،وہاں پر کام کرنے والے بین الاقوامی ورکر س جو ایک رپورٹ کے مطابق 17ملین کے قریب ہیں ۔ ان ورکرس میں ہمارے ملک سے گئے لوگ بھی شامل ہیں ، جن کی کل تعدادوزارتِ خارجہ کی سالانہ رپورٹ 2018-19کے مطابق لگ بھگ نو ملین(90لاکھ ) ہے؛لہٰذا اگر جنگ کے حالات زیادہ شدید ہوئے تو انہیں واپس اپنے وطن لوٹنے پڑیں گے ، جس سے ملک کے سامنے ایک نئی پریشانی در پیش ہوگی ۔ 2018-19میں ورلڈبینک کے رپورٹ کے مطابق ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ یعنی 70بلین امریکی ڈالرغیرملکی ترسیلات زر(foreign remittnaces )حاصل کرنے والاملک تھا ، جن میں ریزور بینک آف انڈیا کے سالانہ رپورٹ 2018-19کے مطابق پچاس فیصد غیر ملکی ترسیلات ِ زر ان ہی خلیجی ممالک سے حاصل ہوئے تھے ۔ لہٰذا اگر جنگ کی صورت شدید ہوئی تو مجبوراً وہاں سے اُن ورکرس کو واپس ملک لایا جائے گا ، جس سے کہ سیدھا اثر ہماری معیشت پر بھی ہوگا اور ساتھ ساتھ بے روزگاری کا بھی خدشہ ہے ۔ یاد رہے کہ 1991-92کی خلیجی جنگ کے دوران بھی حالات بہت سنگین ہوگئے تھے ، جس کی وجہ سے وہاں پر کام کرنے والے لگ بھگ چار سے پانچ ملین ہندوستانی ورکرس سیدھے سیدھے متأثر ہوئے تھے اور اس کی وجہ سے غیرملکی ترسیلاتِ زر میں بھی بھاری گرواٹ دیکھی گئی تھی ۔ ریاست کیرالہ کی معیشت تو بری طرح اس کی چپیٹ میں بھی آئی تھی جو کہ بہت حد تک خلیجی ترسیلات ِ زر پر منحصر ہے ۔ آربی آئی کے 2018-19کے سالانہ رپورٹ کے مطابق 22فیصد غیر ملکی ترسیلاتِ زر اکیلے ریاست کیرالہ میں آیا جو کہ آج بھی وہاں کی معیشت میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے ۔ وہیں دوسری جانب وزارت خارجہ کے سالانہ رپورٹ 2018-19کے مطابق صوبہ ٔ یوپی جہاں سے 78069اور بہار سے 56210ورکرس سب سے زیادہ خلیجی ممالک میںملازمت کے لئے گئے ، اگر جنگ کی صورت بنی تو لازم ہے کہ یہ ورکرس اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے جس کے سبب ان کے معاشی حالات پر بھی سنگین نتائج مرتب ہوں گے ۔
emeil:[email protected]
Comments are closed.