کلکتہ کا "شاہین باغ” خدا محفوظ رکھے عقابوں کو سیاسی گدھوں سے

 

نور اللہ جاوید

”شہریت ترمیمی ایکٹ“ کے خلاف شاہین باغ(دہلی)میں خواتین کی قیادت میں شروع ہونے والے احتجاج کی شہریت عالم گیر ہوچکی ہے۔گزشتہ 25دنوں سے جاری اس احتجاج کو عالمی میڈیا میں جگہ مل رہی ہے۔گرچہ حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ اس احتجاج سے اسے کوئی فرق نہیں پڑرہا۔ مگر حقیقت یہ ہیکہ حکومت پریشان ہے۔ کیوں کہ”دہلی کا شاہین“ ظلم و زیادتی، ناانصافی، تعصب اور نفرت کے خلاف احتجاج کا استعارہ بن گیا ہے“۔ان خواتین نے احتجاج کی ایک نئی روایت کی بنیاد ڈالی ہے۔کل تک مسلم خواتین کو مظلوم اور ابلا ناری قرار دیا جاتا تھا۔ مگر آبلا ناریوں نے حکمرانوں کی نیند حرام کردی ہے۔

کلکتہ جسے ایک مدت تک”احتجاج کا شہر“ کہا جاتا تھا۔سب سے پہلے استعماریت اورفاشزم کے خلاف آواز یہاں سے بلند ہوتی تھی مگر کلکتہ کی فضائیں اس قدر سیاست کی شکار ہوئی کہ کلکتہ اپنی شناخت سے ہی محروم ہوگیا۔اب یہ مقولہ بھی غلط سا معلوم ہونے لگا کہ ”بنگال جوآج سوچتا ہے کل پورا ہندوستان عمل پیرہوجاتا ہے“۔ایسا نہیں ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف یہاں آوازیں بلند نہیں ہوئی ہیں۔جادو پور یونیورسٹی کے طلباء نے فر ض کفایہ ادا کیا۔انہوں نے اپنے کیئرئیر کو داؤ پر لگاکر احتجاج بھی کیا۔بہادر بچوں نے گورنر کا گھیراؤ کیا اور ایک بچی نے تو کنووکیشن میں انعا م حاصل کرتے ہوئے شہریت ترمیمی ایکٹ کے دستاویز کو پھاڑتے ہوئے کہا کہ ”ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے“۔ممتا بنرجی بھی مسلسل اس کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔کانگریس اور بایاں محاذ نے بھی احتجاج کیا مگر سیاسی احتجاج کے اثرات کا ایک اپنا دائرہ ہوتا ہے۔چوں کہ یہ قانون ہندوستان کے دستور اور بنیادی ڈھانچے پر ہے اس لیے سماج کے ہر طبقے سے اس کے خلاف آواز بلند ہونی چاہیے ظاہر ہے کہ اس معاملے میں کلکتہ پیچھے رہ گیا۔

تاہم دیر سے ہی سہی کلکتہ شہر کے پارک سرکس میدان میں چند خواتین جس میں اکثریت مسلم خواتین کی ہے مگر ایک بڑی تعدادیونیورسٹیوں اور کالجوں کی طالبات بھی ہیں نے ”ایک اور شاہین باغ“ کو آباد کیا ہے۔کلکتہ شاہین باغ کی خوش نصیبی یہ ہے کہ اسے پہلے ہی دن سے میڈیا کوریج بھی مل رہا ہے۔سیاسی لیڈران کی بھی اخلاقی حمایت حاصل ہے۔تاہم سیاست زدگی کے شکار کلکتہ کے ماحول نے یہ سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے کہ کلکتہ کاشاہین باغ ریکارڈ قائم کرسکے گا؟گزشتہ دونوں تک متعدد بار مظاہرے کے مقام پر پہنچنے کے بعد پس پردہ ہونے والی گفتگو، حکومت کے رویےے اور لوگوں کی زبانی بہت ساری باتیں معلوم ہونے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی گدھیں اس نشیمن کو اجاڑنے کے فراق میں ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ جب ریاست کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس، اپوزیشن جماعتیں کانگریس اور بایاں محاذ اس معاملے میں ایک صفحے پر ہے تو پھر اسے سبوتاژ کرنے کا سوال کیوں پیدا ہوگیا ہے؟حکومت اس کی اجازت دینے سے لیت و لعل سے کام کیوں لے رہی ہے۔ان سوالوں کا جواب جاننے کیلئے ”بنگال ماڈل کے سیاسی ماڈل“ کو سمجھنا ہوگا۔

دراصل بنگال کا سیاسی ماڈل ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ اس طرح کے احتجا ج کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔اس روایات کا آغاز ایسے تو بایاں محاذ کے دور حکومت میں ہی ہوگیا تھاچوں کہ بایاں محاذ کے خود کا ماڈل ہی احتجاج اور دھرنے پر مشتمل تھا اس لیے کسی حد تک جمہوریت باقی تھا۔مگر گزشتہ 8سالوں میں اس سیاسی ماڈل کو سختی سے اس قدر نافذ کیا گیا ہے کہ سماجی سطح لیڈر شپ منہدم ہوکر رہ گئی ہے۔اب ہرکچھ سیاسی لیڈرشپ کی قیادت میں ہی ہوسکتا ہے۔اس فارموے سے سختی سے نافذ کیا گیا ہے۔چناں چہ گزشتہ 8سالوں میں مسلم لیڈرشپ نام کی کوئی چیز بنگال میں باقی نہیں رہ سکی ہے۔مسلم تنظیمیں ختم سی ہوچکی ہے۔جولوگ ہمت ور تھے انہیں توڑ کر رکھ دیا گیا ہے۔چناں چہ گزشتہ دو مہینے میں ایم آئی اے ایم کے سیکڑوں کارکنان کو جیل میں بند کردیا گیاہے۔ان کا قصور کیا ہے۔مرشدآباد اور مالدہ میں اس فارمولے کو سختی سے نافذ کیا جارہا ہے۔مگر اس کے خلاف احتجاج نہیں ہورہا ہے۔

اس سیاسی ماڈل پر یقین رکھنے والوں کو کلکتہ کا شاہین باغ کیسے برداشت ہوسکتا تھا۔چناں چہ اندرون خانہ سے خبر آرہی ہے کہ جلد ہی اس احتجاج کو ختم کردیا جائے گا اور یہ کام پولس کے ذریعہ نہیں بلکہ خود مسلم نوجوانوں کے ذریعہ ہوگا۔اس کو سبوتاژ کرنے کیلئے جگہ مسلم نوجوانوں کو دھرنے پر بیٹھادیا جائے گا۔اس کا آغاز پارک سرکس میدان کے قریب لیڈی برمن کالج کے پاس سے ہوچکاہے۔ترنمول کانگریس نے بھی اچانک دھرنے کا آغاز کردیا ہے۔دوہفتے قبل ہی 19دسمبر کو مسلمانان کلکتہ اپنی ریلی نکالنے کی کوشش کررہے تھے تو اچانک ’شیکسپئر سرانی تھانے پولس کے اہلکار میٹنگ کے شرکاھ کو حراست میں لے لیا اور گھنٹوں تھانے میں بند رکھا۔جوائنٹ کمشنرسطح کے افسر یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ الگ سے احتجاج کرنے کی ضرورت کیا ہے جب ممتا بنرجی کررہی ہیں تو پھر ان کے ساتھ کیوں نہیں شامل ہوجاتے ہیں؟۔

ان حالات میں خدشہ ہے کہ کلکتہ کا شاہین باغ سیاسی گدھوں کے نظر نہ ہوجائے۔اللہ محفوظ رکھے۔دیکھتے ہیں پھر ہوتا ہے کیا

Comments are closed.