فری کشمیر‘ پوسٹر: مہک اور شیوسینا مبارک بادکے مستحق

اتواریہ: شکیل رشید
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے لاکھ اختلافات کے باوجود دل چاہتا ہے کہ انہیں اس بات کےلیے مبارک باد دی جائے کہ ان کی پارٹی شیوسینا نے اس لڑکی کی حمایت میں آواز اُٹھائی ہے جو گیٹ وے آف انڈیا پر ’فری کشمیر‘ کا پوسٹر اُٹھائے کھڑی تھی۔ مہک مرزا پربھو کا پیشہ کہانیاں سنانا ہے، لیکن گیٹ وے آف انڈیا پر جے این یو کے طلبا پر یرقانیوں کے کھلے حملے کے خلاف ہونے والے احتجاج میں وہ کوئی کہانی سنانے نہیں آئی تھی بلکہ اپنے ہاتھوں میں ’فری کشمیر‘ کا پوسٹر اُٹھائے وہ خاموش کھڑی تھی۔ ہاں اس کی خاموشی ضرور ایک کہانی سنارہی تھی، کشمیر میں عام لوگوں پر کیے جارہے جبر کی کہانی۔ اس نے ’فری کشمیر‘ کا پوسٹر اُٹھاکر صرف ہندوستانی حکمرانوں اور عام لوگوں کو ہی نہیں ساری دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ ’گزشتہ پانچ مہینوں سے کشمیری جس جبر سے گزر رہے ہیں، اب انہیں اس جبر سے ’فری‘ کردیاجائے‘۔ یہ پوسٹر نہ ملک کے خلاف تھا او رنہ ہی اس پوسٹر کا مقصد یہ مطالبہ کرنا تھا کہ کشمیر کو ملک سے ’آزاد‘ کردیاجائے، لیکن پولس کا کیا کیا جائے کہ ایک بے ضرر سے پوسٹر میں اسےملک سے بغاوت کی بو آگئی اور اس نے مہک مرزا پربھو کے خلاف غداری کا معاملہ درج کرلیا۔ پولس آزاد ہے، وہ جب چاہے اور جس بیان پر چاہے ملک کے شہریوں پر غداری کے معاملے درج کرسکتی ہے لیکن اس ملک کے شہری قطعی آزاد نہیں کہ وہ اپنی آراء، اپنے خیالات اور اپنی بات کھل کر کہیں خصوصاً حکومت کی پالیسیوں کے خلاف۔ حالانکہ اس ملک کے آئین نے عوام کو اظہار رائے کی گفتار کی پوری پوری آزادی دی ہے۔ پر یہ آزادی صلب کی جارہی ہے۔ خیر، بات مہک مرزا پربھو کی ہورہی ہے۔ شاید مہک مرزا نام سے بی جے پی اور پولس دھوکہ کھاگئی ہے ! بی جے پی نے’ سیڈیشن‘ کا معاملہ درج کرانے کےلیے سارا زور لگادیا، اور پولس نے معاملہ بھی درج کرلیا۔ بتادیں کہ مہک مرزا مہاراشٹرین ہے۔ شاعرہ بھی ہے، کہانی سنانے والی بھی اور ’جھمری تلیّا‘ کے نام سے اسکول چلانے اور پڑھانے والی بھی۔ مرزا غالب سے اسے عشق ہے اس لیے اس نے اپنے نام کے ساتھ ’مرزا‘ ملالیا اور ’مہک‘ بطور تخلص اپنے نام کے ساتھ لگالیا ہے۔ پربھو اس کا سرنیم ہے۔ پربھو کا مقصد پوسٹر کے ذریعے کشمیریوں پر ہورہے ’جبر‘ کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول کراناتھا۔ اور یہ سچ ہے کہ گزشتہ پانچ مہینوں سے کشمیری جس جہنم سے گزر رہے ہیں اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ انٹرنیٹ بند ہے، بے شمار نوجوان اور بچے گرفتار ہیں، روزگار ٹھپ ہے، تعلیمی نظام درہم برہم ہے۔ طبی سہولیات ملنے کا نام نہیں لیتیں، عورتیں بچے اور بوڑھے کس بے کسی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں اس کا بس اندازہ کیاجاسکتا ہے۔ اب سپریم کورٹ کو ہوش آیا ہے اور اس نے انٹرنیٹ پر پابندی پر سخت اعتراض کیا ہے۔ مہک مرزا پربھو مبارک باد کی مستحق ہے کہ ایسے میں جب بے کس اور مجبور کشمیریوں کے لیے کوئی کسی گیٹ پر آف انڈیا پر مظاہرہ نہیں کرتا تب اس نے ’فری کشمیر‘ کا پوسٹر اُٹھایا۔ اور شیوسینا مبارک باد کی مستحق ہے کہ اس نے کھل کر کہا کہ ’پربھو‘ نے کوئی غداری والا کام نہیں کیا ہے۔

Comments are closed.