جے این یو، اے بی وی پی، پولس، سی اے اے، مسلمان اور نوجوان

شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
دہلی کی پولس نے کمال کردکھایا!
اس نے ، جے این یو میں ہوئے تشدد کی تفتیش کی اپنی ابتدائی رپورٹ میں ان ہی طلباء کو تشدد کا قصوروار قرار دے دیا جو خود تشدد میں زخمی ہوئے تھے! اب اگر دہلی پولس کی مانیں تو جے این یو طلباء یونین کی صدر آئشی گھوش تشدد کرنے والی بھیڑ کی قیادت کررہی تھیں ۔ سب جانتے ہیں کہ آئشی گھوش زخمی ہیں ، ان کے سرپر لوہے کی راڈ سے حملہ کیا گیا ہے ۔ جوتصویر دہلی پولس نے ’ثبوت‘ کے طور پر پیش کی ہے اس میں نہ ہی تو آئشی گھوش کے ہاتھ میں کسی قسم کا ہتھیار ہے اور نہ ہی ان کے ساتھی طلباء کے ہاتھوں میں ۔۔ لہٰذا یہ سوال اٹھ سکتا ہے بلکہ اٹھ رہا ہے کہ یہ طلباء کی کیسی جماعت تھی جو بغیر کسی لاٹھی ڈنڈے اور لوہے کی سلاخ کے تشدد کررہی تھی؟ ایک سوال یہ بھی اٹھا ہے کہ تو کیا آئشی گھوش نے اور دیگر دودرجن سے زائد خمی طلبا نے اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں سے زخمی کرلیا تھا؟؟ دو اہم سوالات اور ہیں جن کے جواب پولس نہیں دے سکی ہے ۔ نقاب پوش حملہ آور، جن کے ہاتھوں میں لاٹھی ڈنڈے ،لوہے کی سلاخیں اور ہتھوڑے وغیرہ تھے کون تھے؟ کیا ان میں سے کسی کا بھی ، بی جے پی کی طلباء تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد ( اے بی وی پی) سے تعلق نہیں تھا؟ دہلی پولس نے جن حملہ آوروں کی شناخت کی ہے ان میں سے دو کا تعلق لیفٹ کی چار طلباء جماعتوں میں سے کسی ایک سے بھی نہیں ہے ۔ یوگیندر بھاردواج اور وکاس پٹیل پولس نے یہ دونام لئے ضرور ہیں اوریہ بھی کہا ہے کہ یہ نام ’ واٹس ایپ‘ کے اس گروپ میں شامل ہیں جو ’ لیفٹ‘ کے خلاف سرگرم ہے لیکن پولس اس سوال پر خاموش رہی کہ ان دونوں کا تعلق طلباء کی کس جماعت سے ہے ، جبکہ یہ حقیقت پہلے ہی سامنے آچکی ہے کہ یوگیندر بھاردواج اور وکاس یہ دونوں ’ اے بی وی پی‘ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ بھلا پولس نے ان دونوں کے ناموں کے ساتھ اسی طرح سے کیوں طلباء تنظیم کا نام نہیں لیا جیسے باقی کے سات ’شناخت‘ کئے گئے طلباء کے ناموں کے ساتھ ان طلباء تنظیموںکا نام بھی لیاگیا جن سے ان کا تعلق ہے ؟
دہلی پولس نے جو ’ منظرنامہ‘ تیار کیا ہے ۔۔۔ دہلی پولس منظر نامے تیار کرنے کے لئے مشہور ہے ۔۔۔ اس سے ایک بات تو پوری طرح سے واضح ہوکرسامنے آجاتی ہے کہ یہ ’ اے بی وی پی‘ کا نام یا تو دانستہ نہیں لے رہی ہے یا اس پر کوئی دباؤ ہے یا با الفاظ دیگر وہ ’ اے بی وی پی‘ کانام لیتے ہوئے ڈررہی ہے ۔۔۔ یا آئشی گھوش کے الفاظ میں ’ پولس اصلی مجرموں کو بچارہی ہے ۔‘
جے این یو پر نقاب پوشوں کا حملہ ساری دنیا نے دیکھا ہے ، کئی نقاب پوش شناخت بھی کرلئے گئے ہیں ، جیسے کہ ’الٹ نیوز‘ نے نقاب پوش لڑکی کی شناخت کومل شرما کے طور پر کی ہے جو ’ اے بی وی پی‘ کی رکن ہے ۔۔ ایک طالب علم پر حملہ کرنے والے
ایک طالب علم کو ’ یرقانی ٹولے‘ نے یہ کہہ کر پیش کیا تھا کہ یہ دیکھیں لیفٹ کا طالب علم ایک دوسرے طالب علم پر حملہ کررہا ہے جبکہ ’ الٹ نیوز‘ نے اس کی چھان بین کی تو حملہ آور طالب علم کی شناخت ’ اے بی وی پی ‘ کے رکن شرویندر کے طور پر اور مار کھانے والے طالب علم کی شناخت وویک کے طو رپر ہوئی ، یہ لیفٹ کی طلباء تنظیم سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔ تو گویا یہ کہ سارے اشارے’ اے بی وی پی‘ کی طرف جارہے ہیں لیکن دہلی پولس اس پورے معاملے کو ’ لیفٹ‘ کی طرف موڑنے کے لئے بے قرار ہے ۔۔۔۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ دہلی پولس ایسا کیوں کرنا چاہتی ہے ؟ اس کی ایک وجہ تو جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا ہے ممکن ہے کہ دباؤ ہو ، اور دوسری وجہ ’ جیسا کہ طلباء کا الزام ہے ، انتظامیہ ، پولس اور جے این یو کے وائس چانسلر جگدیش کمار کی ملی بھکت ہو ۔۔۔۔ دہلی پولس اپنی جے این یو تفتیش کے لئے ہی سوالوں کے گھیرے میں نہیں ہے، جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں اس نے جو غیر آئینی تشدد کیا اس کے لئے بھی وہ سوالوں کے گھیرے میں ہے ۔۔۔ اس نے بار بار کے انکار کے بعد جامعہ میں فائرنگ کرنے کا اعتراف کیا ہے لیکن یہ اعتراف کافی نہیں ہے ابھی اسے اس سوال کا جواب دینا ہے کہ وہ جامعہ کے اندر کس کے کہنے پر یا کس کے اشارے پر گھسی تھی اور کیوں اس نے غنڈوں کی طرح طلباء پر جن میں لڑکیاں بھی شامل تھیں ، حملہ کیا تھا؟؟ دہلی پولس سے آگے بڑھ کر یہ سوال علی گڑھ پولس سے بھی کیا جارہا ہے کہ اس نے طلباء کو تشدد کا نشانہ کیوں بنایا؟ اگر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور نے اسے کیمپس میں بلایا بھی تھا تو کیا اس کا مقصد طلباء کی پٹائی تھا؟؟
حالانکہ جے این یو کے تشدد کا این آرسی ، این پی آر اور سی اے اے کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے بظاہر کوئی تعلق نہیں نظر آتا ۔۔۔ جے این یو کے طلباء فیس میں اضافے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں لیکن بباطن تشدد کی اس کارروائی کا اسی طرح سے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی واین پی آر سےتعلق ہے جس طرح جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تشدد کا ہے ۔ جے این یو کے طلباء نے نہ صرف شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر حملے کی مذمت میں بھی پیش پیش رہے اور خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ سی اے اے مخالف احتجاجات میں بھی حصہ لیا ۔ ویسے بھی جے این یو ایک ایسی یونیورسٹی ہے جو کھل کر’فرقہ پرستی‘ کے خلاف ہمیشہ کھڑی ہوتی آئی ہے ۔۔۔ کانگریس کی طلباء تنظیم وہاں متحرک ہے مگر بایاں محاذ کی طلباء تنظیموں کا وہاں زور ہے ۔ اور وہاں سے تعلیم حاصل کرکے نکلنے والے بچے عموماً کٹر قوم پرستوں ، کے خلاف میدان میں ڈٹے نظر آتے ہیں ۔۔۔ یہ نوجوان آر ایس ایس اور بی جے پی کے ’ ہندوراشٹر‘ کے قیام کے ایجنڈے میں زبردست روڑہ ہیں اور یہ جو پرتشدد ہنگامے ہورہے ہیں اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ جے این یو اور اس جیسی دوسری یونیورسٹیوں کی ایسی ’ کایاپلٹ‘ کی جائے کہ وہاں سے جو بھی نکلے وہ ’ کٹر قوم پرست‘ باالفاظ دیگر ’ ہندوتوا‘ کا پرچارک ہو اور یہ نوجوان نسل سنگھی ایجنڈوں کو پورا کرنے کے آڑے نہ آئے بلکہ انہیں پورا کرنے میں مکمل تعاون کرے ۔ معروف ادیبہ اور سماجی کارکن اروندھتی رائے اس تعلق سے لکھتی ہیں ’’آر ایس ایس کو اندازہ ہوچکا ہے کہ جے این یو میں جو چل رہا ہے اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو وہ ایک دن بنیاد پرستانہ اصولوں اور ہندوتوا کی سیاست کے سامنے ایک دانشورانہ اور وجودی خطرہ بن جائے گا ۔ کیوں؟ اس لئے کہ ایسا اتحاد ، بھلے ہی تصوراتی کیوں نہ ہو ، ہندوتوا کے منصوبے کے سامنے ایک طرح کی ممکنہ دیوار بن سکتا ہے ، اس پیچھے ڈھکیل سکتا ہے ۔‘‘
تو آج یہ جو یونیورسٹیوں پر حملے ہورہے ہیں ان کا مقصد ڈراکر ، دھمکا کر، مارپیٹ اور تشدد کے ذریعے طلباء کو اپنے رنگ ، یرقانی رنگ میں رنگنا ہے ۔ حملوں کے لئے یرقانی طلباء تنظیموں کے گرگوں کو استعمال کیا جارہا ہے اور جیسا کہ ’ مآب لنچنگ‘ کے دوران دیکھا گیا یہ ’ حملہ آور‘ بھی ہرطرح کی ’ جوابدہی‘ سے مبرّا ہیں ۔پولس نہ ہی انہیں پکڑرہی ہے ، نہ ہی جن تنظیموں سے ان کا تعلق ہے ان تنظیموں کا نام لے رہی ہے اور نہ ہی ’ بے قصوروں‘ کو چین لینے دے رہی ہے ، الزامات، مقدمات ، ایف آئی آر وغیرہ سب جسے مارا پیٹا گیا اسی پر درج کررہی ہے ۔۔ جیسا کہ کہا جاتا رہا ہے کہ ’ مآب لنچنگ‘ کرنے والوں کے سر پر حکومت کا ہاتھ ہے اسی طرح یہ جو جے این یو اور دوسرے یونیورسیٹیوں میں تشدد کرنے والے ہیں ۔۔۔۔ جی ہاں پولس کے ساتھ جامعہ اور علی گڑھ میں بیرونی لوگ بھی نظر آئے تھے ۔۔۔ ان کے سروں پر بھی حکومت کا ہاتھ ہے ۔۔۔ یہ جو وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے وزیر داخلہ امیت شاہ کی سرکار ہے اس کا ’ ایجنڈہ‘ بالکل ظاہر ہے ، جمہوری ہندوستان کو ہندوراشٹر میں ڈھالنا ۔ یہ جو بار بار 2024 کی بات کی جاتی ہے دراصل اپنے مذکورہ ’ ایجنڈے‘ کے بنیادی مرحلے کی تکمیل کی ایک ’ نشانی‘ ہے ۔ آر ایس ایس کے قیام کو 27 ستمبر ، 2025 میں پورے سوسال مکمل ہوجائیں گے ، اور اس موقع کے ’جشن‘ پر آر ایس ایس کے ’ معماران‘ کو ایک سیکولر ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ بناکر پیش کرنے سے بہتر اور کیا خراج عقیدت ہوسکتا ہے ! یہ سارا جو کھیل ہے ، سی اے اے کا ، این آرسی اور این پی آر کا اس ’ایجنڈے‘ کی تکمیل کے لئے ہی ہے ۔۔۔ ملک سے مسلمانوں کو باہر نکالنا ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان کی اقلیت کو بھارت میں بسانا، یوں اپنے ’’ووٹ بینک‘ کو اسقدر مضبوط کرلینا کہ دوسری سیاسی پارٹیوں کی دال گلنا تو دور دال گرم ہی نہ ہوسکے ، یہ ہے وہ خطرناک منصوبہ جس کے لئے یونیورسیٹیوں کو نشانے پر لیا جارہا ہے ۔ اپوزیشن تو سارا آر ایس ایس اور مودی وشاہ کے قدموں پر جھک گیا ہے ، چند ہی سیاسی پارٹیاں بی جے پی کا سامنا بے خوف کررہی ہیں ۔۔۔ ملک کے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے ، صنعت کاروں اور تاجروں کی زبان بند کی جارہی ہے ، ایسے میں صرف نوجوان نسل ہی ہے جس سے ایک امید ہے ۔۔۔ آج ملک بھر کی یونیورسیٹیوں اور کالج کے طلباء سڑکوں پر ہیں ’ آزادی‘ کے نعرے لگ رہے ہیں ۔ فیض احمد فیض کی نظم ’ ہم دیکھیں گے ، کی گونج ہے ۔۔۔ یہ ’جبر‘ کہ خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور لاٹھی ڈنڈے کھاکر بھی یہ اپنی آواز بند کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔۔۔ ملک کے حالات بہت تشویشناک ہیں ۔ چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بوبڈے نے تشویش کا اظہار کیا ہے ، ملک کے سوسے زائد سابق نوکر شاہوں نے ایک ’کھلا خط ‘لکھ کر وزیراعظم نریندر مودی سے کہا ہے کہ ’’ ہندوستان کو سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ مہاراشٹر میں سو سے زائد تنظیموں نے بشمول مسلم تنظیموں کے ایک ’ قومی اتحاد‘ کا قیام سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر سے لڑنے کے لئے کیا ہے ، اس ’’قومی اتحاد‘‘ میں نوجوانوں کی 13 تنظیمیں شامل ہیں ۔ فلمی شخصیات جے این یو کی حمایت اور سی اے اے کی مخالفت میں اتر آئی ہیں ، انوراگ کشیپ ، دیپکا پڈوکون ، سورابھاسکر وغیرہ نے کھل کر مودی اور شاہ کو للکارا ہے ۔۔۔ ہمیں بھی گھروں سے باہر نکل کر ان سب کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ، ہمیں یعنی ہم مسلمانوں کو ، مسلم تنظیموں اور جماعتوں کو ، علماء اور مسلم دانشوروں، ادیبوں کو ۔۔۔ کیا ہم آج کے نوجوانوں کے ساتھ اس لڑائی میں کودنے کو تیار ہیں ؟

Comments are closed.