آہ___ استاذ محترم حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی صاحب مرحوم!!!

محمد صابر حسین ندوی
سنجیدہ مزاج، لطیف مذاق، نکتہ شناس، خوش وضع، خوش خصال، علم کا خادم، قرآن کا شیدائی، مزاج نبوت کا شناسا، فقہ و فتاوی کا ماہر، تحریر وتحقيق کا بلند نام، عصری مسائل کا محقق، ادب کا ماہر، ساتھ ہی حسن اخلاق، حسن ادب اور حسن مزاج کا امتزاج، نفیس طبیعت، نستعلیقی کی پہچان، قدیم صالح و جدید نافع کا چلتا پھرتا ثبوت، کشادہ سینہ، سر پر دوپلی ٹوپی، قدیم طرز کی شلوار، کرتا اور شیروانی، خوبصورت رنگ، گول چہرہ، وہیل چیر پر بیٹھے ہوئے ندوہ کے گیٹ سے دفتر ہوتے ہوئے درجوں کی طرف آتے جاتے اور دوریہ طلبہ کی صف کا سلام و تہنیت قبول کرتے ہوئے گزرنے والے، اپنی بولی سے محبت بکھیرنے اور علم سے رعب بٹھا دینے والے استاذ گرامی شیخ التفسير ندوۃ العلماء لکھنؤ حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی رحمہ اللہ (١٩٣٧ء_ ٢٠٢٠ء) نے جوار رحمت میں پناہ لی، اور اس حال میں گئے، جس حال کو میر صاحب نے بھی بیان کیا ہے:
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا
کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا۔
اس حادثہ فاجعہ کی خبر دل و جگر پر بجلی بن کر گری، ١٦/٠١/٢٠٢٠ کو بروز جمعہ وقت تقریباً چار بجے شام کو اس خبر نے شوشل میڈیا پر گردش کی اور نگاہوں کے سامنے طالب علمی کا دور اور حضرت والا کی جیتی جاگتی تصاویر کا عکس پردہ سمیں پر چل پڑا، آپ ندوہ کے موقر، جلیل القدر اور مشفق ترین استاد تھے۔
حضرت مولانا سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے محبوب تھے، آپ ہی کی درخواست پر ١٩٧٠ سے ندوہ میں قدم رنجا ہوئے، ناظم تحقیقات شرعیہ بنے، استاذ حدیث بھی ہوئے، اس سے پہلے آپ دہلی میں تفسیر قرآن کی خدمت پر مامور تھے، قرآن کریم کے مطالب و تفاسیر پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے، آپ کے تدریسی نکات کو جمع کرکے حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی مدظلہ نے شائع بھی کیا ہے، آپ کی اسی مہارت کی وجہ سے مولانا اویس نگرامی ندوی کے بعد ندوہ کے شیخ التفسير ہوئے تھے، آپ دیوبند کے لائق و فائق فضلاء میں سے تھے، ١٩٥٧ میں دارالعلوم دیوبند سے ممتاز نمبرات کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے، آپ متعدد کتابوں کے مصنف تھے، بالخصوص معاشرتی مسائل اور ان کا حل نیز رویت ہلال کا مسئلہ _ عصر حاضر کے وسائل اور ترقیاتی کی روشنی میں __ یہ دونوں کتابیں عوام و خواص میں خوب پائی جاتی ہیں، مولانا کے قلم سے نہ جانے کتنے مضامین اور مقالات نکلے ان سب میں مولانا کا خاص علمی ذوق پایا جاتا ہے، آپ نے علم کی ایک طویل عرصے تک خدمت کی ہے، چنانچہ صدر جمہوریہ ایوارڈ سے بھی نوازے گئے تھے، اسلامک فقہ اکیڈمی کے رکن تاسیسی کی حیثیت رکھتے تھے، ان کی عظمت کا یہ عالم تھا کہ سمینار کے موقع پر اکثر دیکھا ہے کہ استادِ گرامی فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم آپ کا استقبال بڑی گرم جوشی کے ساتھ کرتے، خود آگے بڑھتے اور آپ کی پیشانی کو چومتے، دست مبارک پر بوسہ دیتے، بغل گیر بھی ہوتے، اہل علم کی یہ تعظیم اور دو علمی سمندر کا یہ سنگم قابل دید ہوتا تھا، گویا وہ منظر اس شعر کی عکاس ہو:
اے عشق! مل سکیں گے نہ ہم جیسے سر پھرے
برسوں چراغ لے کے زمانہ اگر پھرے
ندوہ میں فضیلت فی الفقہ (٢٠١١/٢٠١٣) کے زمانے میں خضرت مولانا سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا، آپ کے ذمہ حجۃ اللہ البالغۃ کا درس تھا، یہ حرماں نصیبی کی بات ہے کہ اس وقت تک مولانا پر فالج کا اثر ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے آپ وہیل چیر پر ہی رہتے تھے، آواز بھی پست ہوگئی تھی، علم کے موتی بکھرتے لیکن ہم نادانوں میں چننے کی استطاعت نہ تھی، بحر بیکراں ٹھاٹے مارتا ہوا اٹھتا لیکن ہم سست طلب طالب علم اس کا استیعاب نہ کرپاتے، دہن مبارک سے تاریخی عناوین پر شہ پارے اور مہ پارے نکلتے؛ لیکن افسوس انہیں جمع کرنے میں نالائقی سے کام لیا جاتا، اللہ ہمیں معاف فرمائے __ مولانا تقریباً بارہ سالوں سے فالج زدہ تھے، اور بہت ہی تشویش کی حالت میں رہتے تھے، مگر اس آزمائش کی کیفیت میں بھی چہرے کی بشاشت اور طبیعت کی لطافت دیکھتے ہی بنتی تھی، زبان پر کبھی بھی شکوہ کے الفاظ نہ پائے گئے، ہمیشہ حوصلہ وہمت کی بات کرتے، متانت کے ساتھ ساتھ علمی موشگافیوں میں بذلہ سنجی کا بھی مظاہرہ کرتے، اس عالم میں بھی ان کی نفیس طبیعت قابل ذکر تھی، صفائی ستھرائی کا اہتمام ناقابل یقین حد تک پایا جاتا تھا، کوئی جوان اپنی جوانی میں بھی وہ نفاست کا معیار نہ رکھے، جو آپ کے یہاں اس پیرانہ سالی میں بھی پایا جاتا تھا، اکثر درجہ سے نکلتے ہوئے طلبہ آپ کے ارد گرد ہجوم بنا کے چلتے، ملنے والے ملتے اور یوں ملتے جیسے وہی سب سے زیادہ قریبی ہوں، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ سچ گو اور حق گو تھے، اس سلسلہ میں کوئی رو رعایت نہ کرتے تھے، اکثر دیکھا کہ بلا کسی تمیز و تفریق کے کسی بھی خاطی کو ڈانٹ دیتے، اور اصلاح کی فوری ترغیب دیتے۔
علم اور علمی مشاغل سے آپ کو سب سے زیادہ لگاؤ تھا، اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے، ندوہ سے ریٹائر ہونے اور حد درجہ معذور ہونے کے باوجود پڑھانے کیلئے تشریف لاتے، اور درس و تدریس سے متعلق رہتے، ایسا لگتا تھا کہ آپ نے یہ عقیدہ باندھ لیا ہو:
اب تو اس در سے سر نہ اٹھے گا ان شاءاللہ
جان دے دیں گے یہیں سوچ کے ہم آئے ہیں
علمی سمینار اور سمپوزیم میں بھی شریک ہوتے، اسلامک فقہ اکیڈمی کے اجلاس میں دور دراز مسافت کے باوجود حاضر ہوتے، اکثر آپ کی طبعی کمزوری اور نزاکت کو دیکھ کر معذرت کا احساس ہوتا؛ لیکن آپ استقلال و استقامت اور بلند ہمت کے مالک تھے، ان کے سامنے بیماری اور معذوری نے گھٹنے ٹیک دئیے، یاد پڑتا ہے کہ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں تعلیم کے دوران آپ کے فرزند ارجمند حضرت مولانا نعمان صاحب ندوی دامت برکاتہم سے دارالعلوم حیدر آباد میں چند ساتھیوں کے ہمراہ ملاقات ہوئی، جس میں آپ نے حضرت مولانا کی بہت سی خصوصیات کا تذکرہ فرمایا تھا، اس میں ایک بات یہ تھی کہ مولانا نماز باجماعت کے بے حد پابند تھے، انہیں سجدہ میں لطف آتا تھا___ اس کے بعد فالج کے سلسلہ میں کہنے لگے : "میں سوچتا ہوں کہ ابو جب وہیل چیر پر نماز پڑھتے ہوں گے، اور انہیں سجدہ کرنے کا موقع نہ ملتا ہوگا تو ان پر کیا گزرتی ہوگی”_ مولانا اب ہمارے درمیان نہیں ہیں، ایک طرف مولانا کیلئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں، تو دوسری طرف یہ بھی افسوس ہوتا ہے کہ ندوہ ایک علمی سیارہ سے محروم ہوگیا، ابنائے ندوہ ایک مشفق باپ اور مربی سے دور ہوگئے، یہ حادثہ گھر کا حادثہ ہے، اہل خانہ کے ساتھ ساتھ مادر علمی اور تمام ابناء ندوہ سے تعزیت کرنے کا لمحہ ہے… اللہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل کی توفیق نصیب فرمائے۔
میں کیا سناؤں حال دل اب قابل بیاں نہیں
زخم کدھر کدھر نہیں، درد کہاں کہاں نہیں
17/01/2020
Comments are closed.