شہریت قانون پر مسلمانوں کی بیداری اورفرقہ وارانہ اتحاد رنگ لائے گا

جاویدجمال الدین
ملک میں شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے )،قومی رجسٹربرائے شہری (این آرسی )اور قومی آبادی رجسٹر(این پی آر)پرعمل آوری کے لیے مرکزی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی )کی ضد نے ملک گیر سطح پر احتجاج اور مظاہروں کے سلسلہ میں نہیں روح پھونک دی ہے۔جبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور علی گرھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)میں پولیس کی بے رحمانہ کارروائی اورجواہرلال نہرویونیورسٹی(جے این یو)نئی دہلی میں مبینہ طورپراے بی وی پی کے شرپسندوںکے حملے کے بعد ان مظاہروںاوراحتجاج میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور قابل غوربات یہ ہے کہ ان کارروائیوں نے ہندوستان کے مسلمانوں میں جیسے جسم مردہ میں جیسے جان ڈال دی ہے۔ اور ایک طرح سے ان میںایسی بیداری پیدا ہوئی ہے کہ ارباب اقتدار کے ہوش اڑادیئے اور طرہ یہ کہ بڑی تعداد میں معززین ،دانشوروں،تعلیمی ماہرین ،عدلیہ وقانون سے وابستہ افراداور غیرمسلموں کی حمایت نے اس تحریک کو مزید تقویت بخشی ہے،جس کی توقع کسی نے نہیں کی تھی ،بلکہ مودی اینڈشاہ بھی دنگ رہ گئے ہیں۔کیونکہ سی اے اے میں مسلمانوں کی شمولیت نہ ہونے سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی جمہوریت اور سیکولرکے امیج پر بُرا اثر پڑا ہے ۔ہمیں اس لڑکی کو سلام کرنا چاہئیے جس نے بلاہچکچاہٹ ممبئی کے گیٹ وے آف انڈیا پر کشمیری عوام کے حقوق کے لیے نعرہ حق بلند کیا ،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک عام ہندوستانی کشمیرجنت نشان میں عائد پابندیوں کے سلسلے میں اپنے سینے میں درد رکھتے ہیںاور یہی دردابل کرآہستہ آہستہ باہرآرہا ہے۔
حال میں نافذ کیے گئے شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے ) کی وجہ سے جو بے چینی پائی جاتی ہے ،اس کے سلسلہ میںمودی۔شاہ اینڈ کمپنی جو بھی جواز پیش کریں ،وہ بہتر انداز میں اسے عوام کے ذہن نشین کرنے میں ناکام رہے ہیں اور حزب اختلاف اور دوسرے عناصر پر غلط فہمی پھیلانے کا الزام لگارہے ہیںجوکہ سراسرغلط اور بے بنیاد ہے۔وزیرداخلہ امت شاہ ہی نہیں بلکہ وزیراعظم نریندرمودی بھی بلند بانگ دعوے اور اوچھی باتیں کرنے سے احتراز نہیں کرتے ہیں ،اور مبینہ طورپرایسی زبان استعمال کرتے ہیں جوکہ ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز شخص کو زیب نہیں دیتی ہے۔سی اے اے یعنی شہریت ترمیمی قانون کا جائزہ لیا جائے توپتہ چلے گاکہ دراصل آئین ہند میں موجودشہریت قانون میں ترمیم کا نتیجہ ہے اور دستورکے آرٹیکل 5سے آرٹیکل 11تک شہریت کے بارے میں تفصیل پیش کی گئی ہے۔ان میں سے آرٹیکل پانچ اور دس میں واضح طورپر وضاحت کی گئی ہے کہ ایک شخص جوکہ مذکورہ دستورکے نفاذجنوری 1950 کے دن یا اُس سے قبل ملک میں پیدا ہوا ہے ،یا پھر اُس کے والدین یہاں پیدا ہوئے ہوں ،وہ پیدائشی طورپرہندوستان کا شہری ہے۔جبکہ آرٹیکل 11میں یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ ملک کی حکومت شہریت پر قانون بناسکتی ہے ۔جس کے تحت حکومت نے 1955میںشہریت قا نون تشکیل دیاگیا ،جس کے تحت چار طرح سے شہریت کا حق دیا گیا، پہلے پیدائشی طورپر ،دوسرا نسلی طورپر،تیسرا فطری طورپراور چوتھااندراج سے شہریت حاصل ہوگی ۔بی جے پی حکومت اس بات کا اظہار کررہی ہے کہ مذکورہ شہریت ترمیمی قانون کا مقصد شہریت دینا ہے ،لینا نہیں ۔جبکہ دفعہ4سے 6میں فراہمی کا اختیار دیا گیاہے۔گزشتہ 70سال میں اسی قانون کے تحت شہریت دینے کا عمل جاری رہا ہے ۔پھر قانون میں ترمیم کی ضرورت کیوں آئی ۔
دراصل موجودہ حکومت کا منشااور نیت میں کھوٹ پائی جاتی ہے۔اسی بی جے پی نے 2003میں واجپئی حکومت کے دورمیں سٹی زن شپ ایکٹ 2003کی تشکیل کی ،اس میں دفعہ تین کے مطابق کہا گیا ہے کہ جب این آرسی تیار کیا جائے گاتو اس کا’ اسٹیسس ‘برقراررکھنے کے لیے اسے نافذ کیا جائیگا۔جبکہ اسی دفعہ میں رول دوسے چار تک واضح طورپر اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ این آرسی کے تحت ہرایک کی انفرادی طورپرتفصیل حاصل کرکے اسے این پی آر میں شامل کیا جائیگا اور اس میں تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا اور کمی زیادتی کابھی جائزہ لیا جاسکے گا۔کمی واقع ہونے پر اس فردکو مشتبہ شہری کے درجہ کی فہرست میں شامل کرلیا جائے گا۔ہندوستانی شہری کے لیے تین آپشن پیش کیے گئے جن میں پہلے درجے میں مسلمان اور دوسرے میں ہندوآتے ہیں،ہندؤں میں چار فرقے جنہیں ہندوستان کا اصلی شہری قراردیا گیا ہے،ان میں پہلے آدی واسی،دوسرے دلت ،اوبی سی اور جنوبی ہند کے دراوڑہیں جبکہ بقیہ آریائی نسل ہیں جوکہ وسط ایشیاءسے ہندوستان آئے تھے۔
سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل مبین اختر کا کہنا ہے کہ ان چاروں کو اس بات کا یقین دلایا جائے گا کہ وہ اس سلسلہ میں گھبرائیں نہیں کیونکہ وہ اس ملک کے اصل باشندے ہیں اور انہیں سے درخواست دینے کی ہدایت دی جائے گی ،لیکن اس درخواست دینے کے عمل سے وہ پناہ گزین کے درجہ میں آجائیں گے،بلکہ درخواست ہی اس بات کا ثبوت بن جائے گا کہ وہ Migrateہیں۔اس کی وجہ سے وہ صرف رہائشی شہری بن جائیں گے ،اس طرح سے وہ ملک میں رہ ضرور سکتے ہیں ،لیکن انہیں دستوری اختیارات نہیں ہوں گے۔رہائشی شہری ہونے کے پیش نظران کے آئینی حقوق سلب ہوجائیں گے۔ان میں ووٹ کا حق،سرکاری ملازمت کا حق،سرکاری تعلیمی اداروںمیں داخلہ کے اختیارات وغیرہ سے انہیںمحروم کردیا جائیگااورجائیداد بھی نہیں خریدسکیں گے۔مذکورہ چاروں فرقوں پر یہی قانون نافذ ہوتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے ،اس قانون کے مطلب یہ ہے کہ کسی کو قانونی طورپردباؤ ڈالاجائے کہ وہ خودکو مہاجریا پناہ گزین قراردیں۔جبکہ شہری کو اپنی شہریت کا ثبوت پیش کرنے کے لیے کہا جارہا ہے ،جبکہ قانونی طورپر حکومت کو چاہیئے کہ اگر اسے کسی کی شہریت پر شک ہے تو اس کے خلاف مقدمہ دائر کیا جانا چاہئیے اور پھر وہ اسے جواب دے گا۔
مسلمانوں پر قانون کے ذریعہ دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ اپنی شہریت ثابت کریں جبکہ یہ کام حکومت کا ہے کہ وہ کہہ کہ فلاں شخص شہری نہیں ہے اوروہ اس الزام کو عدالت میں چیلنج کرے گا۔غورکیا جائے تو مرکز کی بی جے پی حکومت کو 2019کے لوک سبھا الیکشن میں محض 33فیصد ووٹ ملے ہیں اور جس ووٹر شناختی کارڈ کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے ہیں ،انہیں شہریت کے ثبوت کے طورپر تسلیم نہیں کیا جارہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رائے دہندگان غیر قانونی ہوگئے اور اسی بنیاد پرمرکزمیں برسراقتدار آنے والی حکومت بھی غیر قانونی ہوجاتی ہے۔اسے عدلیہ میں چیلنج کیاجائے گاتو اس کے مثبت نتائج آئیں گے ،لیکن فی الحال جو طورطریقے استعمال کیے جارہے ہیں ،وہ انتہائی خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔
قانونی اور دستور کے ماہرین کا خیال ہے کہ دستوری زبان میں ایسے قانون کے بارے میں یہ کہاجاسکتا ہے کہ ”ہاتھی دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔جوکہ غیر دستوری ہے۔جبکہ اسے ایک ایسا قانون تسلیم جاتا ہے کہ کسی پر قانونی طورپردباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی شہریت ثابت کرے ۔دراصل چند فیصد کوہی اقتدار میں رکھنے کا ان کا مقصد ہے ڈجبکہ حکومت کے ذریعے کنفیوژن پیدا کیاجارہا ہے کہ سی اے اے شہریت دینے کے لیے ہے ،نہ کہ شہریت چھیننے کے لیے ہے۔ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ سی اے اے کالم میں مسلم کا کالم نہیں ہے۔مطلب یہ ہے کہ اصل نشانہ مسلمانوں کو ہی بنایا جارہا ہے۔کیونکہ سی اے اے میں تین مسلم ملکوں پاکستان،افغانستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتوں کو شامل کیا گیا ہے اور سری لنکا،نیپال ،بھوٹان وغیرہ کوشامل نہیں کیا گیا ہے۔اس طرح یہ ظاہرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان صرف ان ہی تینوںملکوں سے آسکتے ہیںاور اس لیے انہیں سی اے اے میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کی تفصیلات کو جب این آرسی اور این پی آرسے ملایا جائے گا تو مسلمانوں کو خطرناک صورتحال کاسامنا کرناپڑسکتا ہے۔فی الحال مسلمانوں کے ساتھ دیگر مذاہب اور قوموںکے شہری تحریک میں شامل ہیں ،لیکن خودمسلمانوںمیں ایک طبقہ ان احتجاج،مظاہروںاور دھرنوں میں مسلم شناخت کو چھپانے اور نعروںپر اعتراض پیش کررہا ہے جوکہ ایک نامناسب مطالبہ ہے کیونکہ مسلمانوں کو ان کی شناخت کی بنیاد پر ہی سی اے اے سے علیحدہ رکھا گیا ہے ،جوکہ حکومت کاایک انتہائی قدم ہے ،اس لیے تشددسے دوررہتے ہوئے اور دوسرے فرقوںکو اپنے ساتھ شامل کرتے ہوئے مزید موثربنانا ہوگا ،شاہین باغ اور جامعہ ملیہ کے احتجاج میں شامل ان خواتین نے ثابت کردیا ہے کہ ظلم وناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے میں کسی سے ڈرنہیں لگتا ہے ،حق بات زبان پر آنے کے بعد حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔مسلمانوں کی اس بیداری کے مثبت نتائج ضرورسامنے آئیں گے۔جبکہ ہندومسلم اتحاد بھی جلد رنگ لائے گا۔

Comments are closed.