علمائےکرام انبیا علیہم السلام کے وارث ہیں —ان کی قدر کیجیے، تنقید مت کیجیے!

از : مفتی محمد زاہد ناصری القاسمی
الحمد للّٰہ این آر سی وغیرہ کے فتنے سے اپنے محبوب وطن ہندوستان، یہاں کے سنویدھان اور باشندگان کی حفاظت کے لیے ہرجگہ نہ تھمنے والے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں بلا تفریق دین و دھرم خواص سے زیادہ عوام پیش پیش ہیں اور اس کے لیے ان کی جتنی بھی تعریفیں کی جائیں وہ کم ہیں، خواص میں اگر بات کی جائے علمائے کرام کی تو وہ اب تک دھرنے میں بیٹھنے یا احتجاجی جلوس وغیرہ نکال کر منظر عام پر آنے سے گریز کرتے نظر آرہے ہیں، کریلا نیم چڑھا یہ کہ الیکٹرانک میڈیا کی خبر کے مطابق دوچار ضمیر فروش علماء مو جودہ کالے قانون کی حمایت بھی کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے فطری طور ایمانی اور انسانی غیرت و حمیت کی وجہ سے بعض نادان و نا تجربہ کار بھائیوں اور بہنوں کو اعتراض ہے، ایک بھائی نے تو اپنے ایک ویڈیو کلپ میں علماء کے خلاف ایسی ایسی باتیں کی ہیں، جو ناقابلِ بیان ہیں، ان کی گفتگو سے ایسا لگ رہا تھا جیسے تمام علماء کی کفالت وہ خود کرتے ہیں یا ان کے اشارے پر ہوتا ہے، اور ان کا تعاون بند ہونے کی وجہ سے علماء فقر و فاقہ میں مبتلا اور قرآن وسنت کے تعلیمی ادارے بند ہو جائیں گے؛ اس لیے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اپنے اس مضمون میں علماء کی قسمیں، علمائے کرام کے فضائل اور موجودہ نازک حالات میں ان کی اس غیر متوقع پالیسی کی وضاحت کر دوں؛ تاکہ عوام کا طبقہ علماء کرام سے بدگمانی میں مبتلا نہ ہو جائے، ور نہ تو ایک نیافتنہ جنم لےگا، جو ’’فتنہ این آر سی‘‘ سے کم نہ ہوگا اور جس کی وجہ سےخود عوام کا اور دین کا بہت بڑا نقصان ہو گا؛ لہٰذا میں قارئین کی خدمت میں چند باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں :
(1) پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن وسنت کے علوم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے، مدارس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں، جو لوگ علمائے کرام سے بدگمانی میں مبتلا ہیں ان کے پاس ابھی بھی وقت ہے، وہ حصول علم کے لیے دینی مدارس میں آئیں، کوشش کریں اور خود عالمِ دین بن جائیں؛ تاکہ انھیں معلوم ہو کہ اگر علمائے کرام انعام خداوندی کی وجہ سے تعریف و تحسین کی فضا میں جیتے ہیں اور ہمہ اقسام کی نعمتوں کےدسترخوان پر، سامانِ خورد و نوش سے لطف اندوز ہوتے رہتےہیں، تو وہی اپنے اور پرائے کی تنقیدوں اور بدزبانیوں کو برداشت بھی کرتے ہیں اورحوصلہ شکن ماحول میں بھی بڑے ہی عزم و حوصلہ کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں اور قوم وملت کے نو نہالوں کو قرآن وسنت کی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں جو لوگ مصروف ہیں انھیں اس بات کا بخوبی تجربہ ہے کہ محض آٹھ دس گھنٹے کی محنت کی بنیاد پر ان کا جسم تھکان کی وجہ سے اس قدر چور ہوجاتا ہے کہ معمول کی عبادت کے علاوہ دوسرے دینی کاموں میں شرکت کرنا ان کے لیے مشکل اور دشوار ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عموماً علمائے کرام اپنی شب و روز کی زندگی کو رضائے الٰہی کے حصول میں وقف کیے رہتے ہیں، مدارس و مساجد اور دیگر دینی خدمات کے علاوہ دوسرے کاموں کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی اور اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کے ذریعے ان کے معاشی مسائل کو بھی حل فرماتے رہتے ہیں، ورنہ تو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے، تلاش معاش کے وسائل اور بھی ہیں، علماء کرام بھی لیبر اڈوں پر کھڑے ہوکر روزگار حاصل کرسکتے ہیں اور دوسرے مزدوروں کی طرح محنت و مشقت کرکے بھی آزادی کے ساتھ اپنا، اپنے اہلِ خانہ اور مدارسِ اسلامیہ کا معاشی نظام سنبھال سکتے ہیں؛ لیکن ان شاءاللہ دینی خدمات سے سبکدوش ہو کر مدارس ومساجد کی ویرانی کو دیکھنا کبھی گوارہ نہیں کریں گے؛ کیونکہ ان کے پیشِ نظر دین کی اشاعت، ملت کی سرخروئی اور نجاتِ اخروی ہو تی ہے۔
(3) تیسری بات یہ ہے کہ تقریباً ہر زمانے میں علماء دو طرح کے رہے ہیں :(١) وہ علماء جو قرآن وسنت کے علوم سے بھی واقف ہوں اور با عمل بھی ہوں، ان اوصاف کے حامل علماء، خیار العلماء، علمائے حق اور علمائے کرام کہلاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بہترین خیر قرار دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد فرمایا : ألا ! إن خيرالخير خيار العلماء.(سنن دارمي، مقدمة، حديث نمبر : 370 ) ’’بہترین خیر اچھے علماء ہیں۔‘‘(٢) وہ علماء جو قرآن وسنت کے علوم سے واقف ہوں، یا واقف تو نہ ہوں، مگر انہوں نے علماء کی وضع اختیار کر رکھی ہو اور بہر صورت وہ باعمل نہ ہوں، اس طرح کے علماء، شرار العلماء اور علمائے سوء کہلاتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بدترین فتنہ قرار دیا ہے؛ چنانچہ ارشاد فرمایا : ألا ! إن شرالشر شرارالعلماء. (سنن دارمي، مقدمة، حديث نمبر : 370 ) ’’بدترین شر برے علماء ہیں۔‘‘اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ’’مجھے اس امت کے بارے میں سب سے زیادہ منافق عالم کا ڈر ہے، دریافت کیا گیا کہ منافق عالم کیسا ہوگا ؟ تو فرمایا :’’ عالم اللسان، جاهل القلب و العمل‘‘ نام کا عالم ہوگا، مگر اس کا دل علم کے نور سے اور اس کی زندگی عمل کی روح سے خالی ہوگی۔(ألأ حاديث المختارة، علامة ضياءالدين المقدسي)
جو علماء اچھے اور نیک ہیں وہ بھی معصوم نہیں ہیں؛ کیونکہ معصوم تو انبیائے کرام علیہم السلام کی ذوات مقدسہ ہیں؛ لہذا علمائے کرام سے بھی خطا ہو سکتی ہے، مگر ہاں! اتنی بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ جس طرح ایک ڈاکٹر جب کسی جسمانی مرض میں مبتلا ہو تا ہے تو اس کا علاج ڈاکٹر ہی کرتے ہیں، اسی طرح جب کوئی عالم کسی روحانی بیماری میں مبتلا ہوں گے تو ان کا علاج بھی علماء کرام ہی کریں گے؛ اس لیے عوام الناس کی ذمہ داری ہےکہ اگر کسی عالم میں کوئی خامی نظر آئےتو اس کا تذکرہ ان سے یا کسی اور سے کرنے کی بجائے دوسرے علمائے کرام ہی سے کریں، وہی صحیح نتیجہ تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں کہ کیا واقعی عالم کی غلطی ہے، یا عوام کو سمجھنے میں غلطی ہوگئی ہے اور پھر وہ اصلاح فرمائیں گے، رہ گئی بات علمائے سوء کی، تو وہ ہمارے یہاں کسی صف و قطار ہی میں نہیں ہیں، تاہم ان کا علاج بھی علمائے کرام ہی کریں تو بہتر ہوگا۔
(4) چوتھی بات یہ ہے کہ قرآن وسنت میں علماء کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں، ان کے بارے میں بعض احباب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دینی اور عصری تمام علوم کے جاننے والوں کے لیے ہیں، ان کی اس غلط فہمی کو بھی دور کر دینا ضروری ہے، دیکھیے کسی بھی لفظ کا ایک لغوی معنی ہوتا ہے، جس کو انگریزی میں "ڈکشنری ڈیفینیشن” یا "ڈکشنری میننگ” کہتے ہیں اور ایک اصطلاحی معنی ہوتا ہے، جس کو انگریزی میں "ٹرمینو لوجیکل میننگ” کہا جاتا ہے، لغوی معنی کے لحاظ سے تو ہر وہ شخص جو دینی یا دنیوی فنون میں سے کسی بھی فن کا تھوڑا بہت بھی علم رکھتا ہو وہ عالم کہلائے گا، مگر اصطلاحی معنی کے اعتبار سے وہ آدمی جس نے قرآن وسنت اور ان کے متعلقات کا علم کسی استاد سے حاصل کیا ہو، یعنی سند یافتہ ہو وہ عالم کہلائے گا، آپ اپنے "الیکٹرانک محسن گوگل” میں”ڈاکٹر کی میننگ ان اردو”بول کر یا لکھ کر سرچ کریں گے تو ڈاکٹر کے کئی معانی آپ کو ملیں گے، ان میں ایک معنی تو وہی ہے جو مشہور ہے، یعنی مریض کا علاج کرنے والا، دوسرا معنی عالم اور تیسرا معنی فاضل ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ کیا کسی عالم یا فاضل کو جس نے باضابطہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل نہ کی ہو، اسے لغوی معنی کا اعتبار کرتے ہوئے ڈاکٹر کہہ سکتے ہیں اور کیا انھیں بھی مریض کے علاج کا حق حاصل ہوسکتاہے ؟؟ ہمارے پاس تو اس کا جواب نفی میں ہے اور ظاہر ہے کہ یہاں لغوی معنی کا اعتبار نہیں ہوگا، ، اسی طرح لفظ عالم میں بھی اصطلاحی معنی ہی مراد ہوگا، لغوی معنی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بعض احادیث مبارکہ میں تو سیاق و سباق سے اس کی وضاحت بھی ہوجاتی ہے۔
اب میں مناسب سمجھتا ہوں کہ وارثینِ انبیاء، یعنی علمائے کرام کی فضیلت سے متعلق، عاشقان رسول کی خدمت میں، امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی دو احادیثِ مبارکہ پیش کردوں؛ تاکہ ان کے دلوں میں موجود حضرات علماء کی عقیدت و محبت میں اضافہ ہو جائے اور وہ آئندہ خود کو اور لوگوں کو ان سے بدگمان ہونے سے بچاسکیں:(١) صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :….. ’’إِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ ..”(ابوداؤد شریف،حدیث نمبر: 3641) ترجمہ : ’’بلاشبہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات، حتیٰ کہ مچھلیاں(بھی)پانی کی تہ میں عالم کے لیے دعاءِمغفرت کرتی ہیں، یقینا ایک عالم کو تمام عابدوں پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے، جس طرح چودھویں کے چاند کو تمام ستاروں پر اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ علماء انبیائے کرام علیھم السلام کے وارث ہیں۔‘‘(٢) درج ذیل حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے اسلامی تشخص اور مذہبی شناخت و پہچان کی بقاء کے لیے قرآن وسنت کے علوم اور علمائے کرام کے وجود کو ضروری قرار دیا ہے اور یہ پیشنگوئی بھی فرمائی ہےکہ لوگ علمائے کرام کے ناپید ہوجانے کی وجہ سے ان علوم سے محروم ہو کر گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے؛چنانچہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناہے کہ: ’’إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِم اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ‘‘(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 100) ترجمہ : ’’اللّٰہ تعالیٰ علم کو بندوں سے جدا نہیں فرمائیں گے؛ لیکن، ہاں ! علمائے کرام کو اٹھانے کے ساتھ ہی علم کو بھی اٹھالیں گے ،پھر جب ایک بھی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ اس وقت قرآن وسنت اور دینی مسائل سے ناواقف لوگوں کو اپنا مقتدا اور پیشوا بنا لیں گے؛ چنانچہ ان سے دینی مسائل پوچھے جائیں گے اور وہ علم کے بغیر فتویٰ دیا کریں گے، جس کی وجہ سے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہی میں مبتلا کریں گے‘‘۔
اس بات کو اچھی طرح ذہن نشیں کرلیں کہ ملت اسلامیہ کےعوام سے زیادہ دشمنان اسلام کےخواص قرآن وسنت کی تعلیمات سے واقف ہیں، دنیا کے مختلف علاقوں میں با قاعدہ ان کے بھی مدارس ہیں، وہ بھی باضابطہ ہمارے دینی علوم کو حاصل کرتے ہیں؛ لیکن ہمارا مقصد پوری انسانیت کو ہدایت اور کامیابی کا راستہ بتانا ہے اور ان کامقصد قرآن و سنت میں ہمارے عروج و زوال کے جو اسباب بیان کیے گئے ہیں، ان سے واقفیت حاصل کرکے ہمیں ترقی و کامیابی کے اسباب سے دور رکھنا اور تنزلی وناکامی کے اسباب میں مبتلا کرنا ہے۔
یہی وجہ ہےکہ مذکورہ بالا روایت کو سامنے رکھ کر ہر زمانے میں دشمنانِ اسلام کی یہ سازش اوریہ کوشش رہی ہے کہ اگر اسلام کو مٹانا ہے تو علمائے کرام کانام و نشان مٹا دیا جائے، مدارس، جو اسلام کے قلعے اور انسان سازی کےکارخانے ہیں، جہاں سے علمائے کرام پوری دنیا میں امپورٹ اور ایکسپورٹ ہوتے ہیں، انھیں بند کردیا جائے، اس کے لیے وہ الگ الگ حربے استعمال کرتے آئے ہیں اور کر رہے ہیں، مثلا علمائے کرام کو دہشت گرد اور دینی مدارس کو دہشت گردوں کا اڈہ قرار دے کر انہیں بدنام کرنا، علمائےکرام اور عوام کے درمیان افادہ اور استفادہ کا جو مضبوط اور مستحکم رشتہ ہے، اسے یا تو ختم یا کمزور کرنا اور ہماری ہی صفوں میں موجود کچھ غدار، بہروپیے مسلمان اور علماءسُو کے ذریعے علمائے کرام پر کیچڑ اچھلوانا وغیرہ؛ اس لیے ہمیشہ کی طرح ہمیں چوکنا اور ان کی سازشوں سے ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا دونوں روایات سے مجموعی طور پر دو اہم باتیں ثابت ہوتی ہیں:(1) ملت کی صلاح و فلاح کے لیے علمائےکرام کا وجود ناگزیر ہے۔(2) علمائےکرام انبیا علیہم السلام کے وارث ہیں، اس لیے اب ہمیں یہ دیکھنا یے کہ آج سے بھی زیادہ مشکل حالات میں، نبی ﷺ کے جاں نثار صحابئہ کرامؓ نے، ہمارے لیے کس طرح کا عملی نمونہ پیش فرمایا ہے، چنانچہ سیرتِ پاک کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ عہدِ رسالت میں دشمنانِ اسلام سے مقابلے کے لیے دو طرح کے اسفار ہوئے، جن کی جملہ تعداد حضرت ابن سعدؒ کی روایت کے مطابق سرسٹھ (67) ہے، جس سفر میں رسول اللہ ﷺ نے شرکت نہیں فرمائی، بلکہ صحابئہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کو بھیجا اس کو ”سَریہ“کہا جاتا ہے، جس کی جمع ”سرایا“ ہے، اس کی تعداد چالیس (40) ہے اور جس سفر میں خود رسول اللہ ﷺ نے بھی شرکت فرمائی، اس کو غزوہ کہا جاتا ہے، جس کی جمع غزوات ہے، اس کی تعداد ستائیس (٢٧) ہے، صرف نو (٩) غزووں میں مقابلہ ہوا، جبکہ اٹھارہ (١٨) غزوات میں مقابلے کی نوبت ہی نہیں آئی، غور فرمائیں تو معلوم ہو گا کہ حضراتِ صحابئہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرمایا کہ چالیس اسفار میں انھیں مدینہ منورہ سے باہر نکلنے کی بھی زحمت نہیں دی اور جن نو غزوات میں دشمنوں سے مقابلے ہوئے، ان میں بھی میدان جنگ میں صحابئہ کرام ہی سینہ سپر ہوتے؛ بلکہ اپنی ایک جماعت کو رسول اللہ ﷺ کی حفاظت پر بھی مامور فرماتے؛ تاکہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم نمازوں اور دعاؤں میں مصروف رہیں اور دشمنان اسلام سے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔( سیرۃُ المصطفیٰ ﷺ ، جلد: 2 اور دیگر کتبِ سیرت کا مطالعہ کیجیے ) گویاانھوں نے اپنے بعد والوں کو یہ پیغام دیا کہ اپنے مقتدیٰ اور پیشوا کی حفاظت ہر حال میں لازم اور ضروری ہے؛ چونکہ علمائے کرام وارثین انبیاء ہونے کی وجہ سے ہمارے مقتدیٰ اور پیشوا ہیں؛ اس لیے ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی حفاظت اور راحت کا خاص خیال رکھیں، ان کی تعظیم تکریم کریں، ان کی ناقدری اور ناراضگی سے بچیں، ان سے مسلسل ربط میں رہیں، ، ہر اہم کام میں ان سے مشورہ کو ضروری سمجھیں اور انھیں جس طرح اپنی تقریبات اور دعوتوں میں یاد رکھتے ہیں، اپنی دعاؤں میں بھی ضرور یاد رکھا کریں، اپنے ٹیوٹ وغیرہ کے ذریعہ ان پر کسی طرح کا دباؤ نہ بنائیں، کیونکہ وہ کوئی بھی کام مشورہ کے بغیر نہیں کرتے، بلکہ ان کے سارے اہم فیصلے اپنی خداداد عقل و فہم کی روشنی میں، باہمی مشورہ اور ملتِ اسلامیہ کے تعلیم یافتہ اور قابل افراد کی رائے عامہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں، وہ ہرکس وناکس کی باتیں سن کر دباؤ میں نہیں آتے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو آدمی اپنی عقل کی بجائے دوسرے کی عقل کے سہارے جیتا ہے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا، میں نے اپنے بعض بزرگوں سے کبھی ایک واقعہ سنا تھا، جو دلچسپی سے خالی نہیں ہے، عبرت کے لیے اسے یہاں نقل کر دینا مناسب سمجھتا ہوں : "دو باپ اور بیٹے کہیں کے لیے عازم سفر تھے، سواری کے لیے ساتھ میں ایک گدھا بھی تھا، بیٹے نے از راہ ادب کہا کہ : ابو جان ! سواری پر آپ سوار ہوجائیں، میں پیدل چلتا ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سفر شروع ہوا، کچھ فاصلے کے بعد ایک راہگیر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ کیسا باپ ہے خود تو سواری پر بیٹھا ہے اور بیٹے کو پیدل چلا رہا ہے، یہ سن کر باپ نے سواری سے اتر کر اپنے بیٹے کو اس پر سوار کردیا اور سفر جاری رکھا، کچھ آگے جانے کے بعد ایک دوسرے راہگیر نے بیٹے کا مذاق اڑایا کہ کیسا نالائق ہے، خود تو سواری پر بیٹھا ہے اور باپ کو پیدل چلا رہا ہے، یہ سن کر بیٹے نے اپنے والد کو بھی سوار کرلیا اور چلتے رہے، آگے ایک تیسرے راہگیر کی نظر پڑی تو اس نے درد بھرے انداز میں کہا کہ بڑے ہی ظالم ہیں یہ لوگ، ایک جانور ہے اور اس پر دونوں سوار ہیں، ذرا بھی تو اس بے زبان کا خیال کیا ہوتا، یہ سن کر دونوں بہت شرمندہ ہوئے اور سواری سے اتر کر پیدل چلنے لگے، آگے ایک چوتھے راہگیر کی ان پر نظر پڑی تو وہ بولنے لگا کہ بڑے ہی بے وقوف ہیں یہ دونوں، سواری اللہ کی بڑی نعمت ہے، انہیں تو اس کے استعمال کا طریقہ ہی نہیں معلوم ہے، تعجب ہے سواری ہوتے ہوئے بھی دونوں پیدل چل رہے ہیں، دونوں نے سوچا کہ کسی بھی حال میں چین نہیں ہے؛ اس لیے مارے غصے کے اپنی مذکورہ سواری سے کسی طرح جان چھڑائی۔‘‘
اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ علمائے کرام اور مدارس کے تو غیروں کے علاوہ کچھ اپنے لوگ بھی مخالف ہیں، ابھی کچھ ہی دنوں پہلے مظفر نگر، یوپی میں ایک مدرسہ کے اساتذہ، طلبہ اور وہاں کے صدر جمہوریہ اوارڈ یافتہ ذمہ دار مولانا اسعد رضا حسینی پر جو قاتلانہ حملے ہوئے، کیا کوئی مظاہرہ ہوا اور کیا کسی قابلِ ذکر شخصیت نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا؟؟ جواب بالکل واضح ہے کہ محض اسلام سے تعلق کی وجہ اتنے بڑے حادثہ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی، دوسری طرف ”جے این یو “ میں اسٹوڈنٹس پر شر پسندوں کے حملے کا واقعہ اور اس پر ہر چہار جانب سے ہونے والے اعتراضات و احتجاجات بھی ہمارے سامنے ہیں۔
چونکہ این آر سی کے پس منظر میں ابھی تک تمام احتجاجی مظاہرے بلا تفریقِ مذہب و ملت صرف اور صرف انسانیت کی بنیاد پر ہو رہے ہیں، اس لیے میری بھی ذاتی رائے یہی ہے کہ فی الحال علمائے کرام تقریر و تحریر کے ذریعہ مذکورہ فتنہ پر اپنے غم وغصے کا اظہار اور اس فتنے سے لوگوں کو آگاہ فرماتے رہیں، نیز مناسب سمجھیں تو احتجاجی مظاہروں میں شرکت بھی کرلیاکریں، ورنہ تو ان کی طرف سے حوصلہ افزائی کے دوچار جملے کہدینا اور دعائے خیر سے نواز دینا ہی قابل قدر مظاہرین کے لیے کافی ہے، ذاتی طور پر دھرنے میں بیٹھکر یا علما و طلبہ کا جلوس نکال کر کھل کر سامنے آنا کسی طرح بھی ان کے حق میں اور ملت کے مفاد میں مناسب نہیں ہے، ورنہ تو قوی اندیشہ ہے کہ مخالفین اسے مذہبی رنگ دے کر فرقہ وارانہ فساد کرا نے میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ علمائے کرام نے اپنی فراستِ ایمانی اور نورِالہٰی سے موجودہ حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہی یہ پالیسی اختیار کی ہے، جسے بلاشبہ "حکیمانہ موقف” کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔
سب سےاہم اور بڑا ’’ایٹمی ہتھیار‘‘ہوتا ہے، جس کو ”نیو کلیر ہتھیار“ بھی کہا جاتا ہے، اس کی حفاظت دوسرے تمام ہتھیاروں سے زیادہ ہوتی ہے، ایٹمی ملک کی بقا کو جب خطرہ ہوتا ہے تو آخری مومنٹ میں اسی کا استعمال کیا جاتا ہے، وہ اپنے ساتھ ساتھ دشمنوں کی ہلاکت و بربادی کا سبب ضرور ہوتا ہے، مگر اپنے ملک کی حفاظت اور سلامتی کا بھی اہم ترین ذریعہ ہوتا ہے، کچھ اسی طرح کا حال علمائےکرام کا بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید رکھیں کہ جس طرح ماضی میں انھوں نے اپنی قربانیوں کے ذریعہ اپنے ملک و ملت کی حفاظت فرمائی ہے، اگر عوام الناس کے پروٹسٹ سے کامیابی نہیں ملی، تو ان شاء اللہ پھر وہی تاریخ دہرائی جائے گی، کیونکہ علمائےکرام محض اپنی یا اپنے اہلِ خانہ کی زندگی کی فکر اور مادیت کے لالچ میں آکر اپنے محبوب وطن اور یہاں کے باشندوں کو فراموش نہیں کر سکتے، ان کے بارے میں تو بزدلی یا خود غرضی وغیرہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایمان پر ثابت قدم رکھے، انسانیت کو نقصان پہنوچانے والے تمام قوانین کا خاتمہ فرمائے، پوری زندگی عافیت اور سلامتی کے ساتھ رکھے اور حسنِ خاتمہ عطا فرمائے، آمین۔
ناظم : مدرسہ صفۃ الصحابہ ،وادئ عمر، شاہین نکر، حیدرآباد۔
واٹس ایپ : 8125869606

Comments are closed.