عدلیہ کے فیصلے سے مظاہرین مایوس لیکن حوصلے بلند

ڈاکٹر حلیمہ سعدیہ
8527118529
ہندوستان کی مذہبی رواداری اور اس کے تانے بانے کو متشرکرنے والے قانون(سی اے اے،این آرسی) کے خلاف 40روز سے زیادہ سے جاری ملک بھرمیں مظاہرے اور زبردست احتجاج کے دوران سپریم کورٹ نے جہاں معاملہ کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے آئندہ سماعت کیلئے5ججوں کی بنچ بنانے کا اشارہ دیاوہیں فوری طوری پر مودی کے سی اے اے پر اسٹے لگانے سے صاف انکار کردیاہے،جس سے عدلیہ پر انصاف کی نظریں جمائے ہوئے احتجاجیوں کو کافی مایوسی ہوئی ہے۔کیوں کہ مذہب کی بنیاد پر بننے والے قانون کو ہندوستان جیسے جمہوری ملک کسی بھی طرح نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ہندوستانی آئین اس کی اجازت قطعی نہیں دیتا تو پھر کیوں عدالت کے ذریعہ اسے کلعدم قراردینے میں تاخیر کی جارہی ہے؟۔اب اگر عدالت نے 5ہفتہ کے بعد سماعت کی ہدایت دے بھی دی ہے تو مزید تاخیر اور تاریخ پہ تاریخ نہ ہو۔کیوں کہ اس کی آڑ میں مجرموں کے حوصلے بہت بلند ہوجاتے ہیں اور وہ اسی ایام میں اپنے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش اور گواہوں کی خریدوفروخت تو آج کے دور کی عادت سی بن گئی ہے ۔اسی لئے عدالت میں تاریخ پہ تاریخ کی روایت بڑھتی جارہی ہے۔مودی حکومت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔اس کے کارندے اس میں بہت ماہر ہیں۔ایسے میں ضروری ہے کہ عدلیہ معاملہ کو طول دینے کی بجائے جلد از جلد فیصلہ کرنے کو ترجیح دے۔ مرکزی حکومت کے اڑیل رویہ اور غیر آئینی قانون کے خلاف سڑکوں پر اترے لوگوں کو صرف عدلیہ پر ہی بھروسہ ہے ،ایسے میں اگر عدالت سے بھی مثبت نتیجہ نہ آئے تو جمہوریت کے استحکام کیلئے لڑنے والے لوگوں کے حوصلے پست ہوجائیں گے ۔سپریم کورٹ کے اس رخ سے بظاہر مودی حکومت کو راحت ملتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن احتجاجوں میں شامل افرادخصوصاًخواتین کا مانناہے کہ اس سے ہمارے حوصلے مزید مضبوط ہوں گے اور مظاہرے میںمزید شدت پیداہوگی،کیوں کہ ملک بھر میں ہندتوا نظریہ کو فروغ دینے والے قانون کے خلاف تحریکیں بھڑک اٹھی ہیں،یہ اسی وقت ٹھنڈی ہوں گی جب مودی حکومت اپنے قانون کو واپس لے گی یا اس میں ترمیم کرے گی۔مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہوتا تو وہ کب نہ کب ختم ہوگیاہوتا لیکن چونکہ معاملہ ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کے تحفظ کاہے، اس لئے ان تحریکوں کو کامیاب ہونا بہت ضروری ہے۔ملک کے حالات دن بہ دن خراب ہوتے جارہے ہیں۔عوام اور ملک مخالف قانون بناکر جمہوریت کا خون کیا جارہاہے۔اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ رہنے والے ہندوستانیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی بیج بوکر اس کی وقتافوقتا آبیاری کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں آج ہنگامی صورت حال ہے، ملک کساد بازاری کا شکار ہے اور نوجوان بے روزگار گھوم رہے ہیں لیکن مود ی حکومت آر ایس ایس کے انتہاپسندانہ نظریات کو تمام ہندوستانیوں پر مسلط کرنے میں اپنی پوری کوششیں صرف کررہی ہے۔ملک کے لوگوں نے مودی حکومت کی اس سازش اور اس چال کو سمجھ لیاہے۔اس لئے مہنگائی کا مار جھیلتے ہوئے آئندہ کی نسلوں کووہ تحفظ فراہم کرنے کیلئے آج پورا ہندوستان سراپا احتجاج ہے۔تمام مذاہب کے ماننے والوں کا اتحاد خود کے ساتھ ساتھ اپنے دیگردلت اور غریب بھائیوں کو بچانے کا ہے۔ بہت سے غریب ہیں جن کے پاس ان کی پیدائش کے کوئی ثبوت نہیں ہیں، این آر سی آنے پر ان کو لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھاری پریشانی اٹھانی پڑے گی۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار آئین کے برخلاف مذہب کی بنیاد پر کوئی قانون بنایاگیاہے ،اسی لئے 72برسوں میں پہلی بار آئین کی حفاظت کیلئے تمام مذاہب کے لوگ حکومت کے فیصلہ کے خلاف برسرپیکار ہیں۔چاروں طرف سڑکوں پر مظاہرے ہورہے ہیں۔آزادی کے نعروں سے ملک گونج رہاہے ۔ جلوس کے دوران، ’ہم لے کر رہیں گے آزادی‘، ’ہندوستان زندہ باد، انقلاب زندہ باد‘، ’سی اے اے قانون واپس لو‘ جیسے فلک شگاف نعرے گونج رہے ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے مسط کیا گیاشہریتی ترمیمی قانون ’مخصوص طبقہ‘ کے ساتھ دوغلا سلوک ہے۔ شہریت ترمیمی قانون ،ان تینوں ممالک سے آنے والے تمام افراد کیلئے نہیں ہے بلکہ اس میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اس قانون سے ان تینوں ممالک کے صرف وہ افراد فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی یا کرسچن ہوں۔ غور کیا جائے تو اس قانون میں اسلام کا نام نہیں لیا گیا لیکن در حقیقت اسکا مقصد صرف مسلمانوں کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے لحاظ سے بھی یہ قانون درست نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر کچھ لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہا ہے۔ کسی بھی ملک کا کوئی بھی قانون کسی بھی انسان سے مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیںکرسکتا۔ اب ہندوستان نے ایسا قانون بنا لیا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ آگے چل کر ہندوستان مزید ایسے قوانین بھی بنائے گا جن میں مذہب کی بنیاد پر انصاف کے پیمانے ہندو اور غیر ہندو کیلئے الگ الگ ہونگے۔ یہ سب اصل مذہبی انتہا پسندی نہیں تو کیاہے؟اس لئے ضروری ہے کہ عدلیہ کے فیصلہ کا انتظارکرتے ہوئے آئین کے تحفظ کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو بلندکیاجائے۔کیوں کہ آئین کا تحفظ ملک اور عوام کا تحفظ ہے۔
Comments are closed.