خاموش انخلاء

سمیع اللہ ملک
ٹرمپ نے یہ بات کئی باربرملاکہی ہے کہ امریکاکودورافتادہ خطوں میں لاحاصل جنگوں میں ملوث نہیں ہوناچاہیے۔امریکی حکام افغانستان سے فوجیوں کوخاموشی سے نکال رہے ہیں ۔ایک امریکی عہدیدارنے بتایاہے کہ امریکا نے ایک سال کے دوران افغانستان سے دوہزارفوجیوں کوخاموشی نکال لیاہے۔یہ خاموش انخلاکابل حکومت کے علم میں ہے اوراس حوالے سے باضابطہ دستاویزی کاروائی بھی کی گئی ہے۔یہ انخلااس اعتبارسے حیرت انگیزہے کہ طالبان سے کسی باضابطہ معاہدے کی منزل کوقریب کرنے کیلئے انخلا عمل میں لایاگیا ہے۔افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے اعلی کمانڈرجنرل آسٹن ایس ملرنے ایک پریس کانفرنس میں بتایاکہ ایک سال کے دوران دوہزارامریکی فوجیوں کووطن واپس بھیجا گیاہے جس کے نتیجے میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد اب بارہ ہزاررہ گئی ہے۔امریکانے طالبان سے مذاکرات کے دوران اس بات پررضا مندی ظاہرکی تھی کہ امریکی فوجیوں کی تعداد آٹھ ہزارتک لائی جائے گی۔افغان اورامریکی حکام نے اس کی تصدیق کردی ہے۔
امریکی وزیردفاع مارک ایسپرنے افغانستان کے حالیہ دورے میں یہ بات کہی تھی کہ اگر وہاں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد8 ہزارتک لائی جائے تب بھی انسدادِ دہشتگردی کے آپریشنزکی کارکردگی پرکچھ زیادہ منفی اثرمرتب نہیں ہوگا۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ امریکادنیابھرمیں عسکری مہمات سے کنارہ کش ہوجائے۔اس حوالے سے ان کی بے تابی کوسمجھناکچھ زیادہ مشکل نہیں۔امریکا میں آئندہ برس صدارتی انتخاب ہوناہے۔ایسے میں اگرکہیں لڑائی زورپکڑگئی اورامریکی فوجیوں کی ہلاکتیں واقع ہوئیں توٹرمپ کادوبارہ منتخب ہوناانتہائی دشوارہوگا۔ٹرمپ کی بے تابی دیکھتے ہوئے امریکی حکام نے افغانستان سے زیادہ سے زیادہ امریکی فوجیوں کوواپس بلانے کی تیاریاں شروع کیں۔طالبان سے مذاکرات کے دوران امریکی حکام نے چاہاکہ کسی ایسے معاہدے پردستخط ہو جائیں جس کے تحت افغان سرزمین پرایک خاص تعدادمیں امریکی فوجی تعینات رکھنا ممکن ہوسکے جبکہ طالبان تمام فوجیوں کاانخلا کا مطالبہ کررہے ہیں۔
بھارت اورافغان حکام کوخدشہ ہے کہ طالبان سے کسی باضابطہ معاہدے کے طے پانے سے قبل ہی افغانستان سے امریکی فوجیوں کے خاموش انخلاکاایک واضح مطلب یہ ہے کہ امریکا مذاکرات کی میزپراپنی پوزیشن کمزورکررہاہے۔اگر افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعدادغیرمعمولی حدتک کم ہوگئی توطالبان پردباوڈالنا،ان سے کوئی بڑی بات منواناانتہائی دشوارہوگا۔ساتھ ہی ساتھ امریکاکیلئیافغان فورسزکوانسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے خصوصی تربیت دینابھی ممکن نہیں رہے گا۔امریکی اورافغان حکام نے بتایا ہے کہ افغان سیکورٹی فورسزکوپورے ملک کی سلامتی کے حوالے سے ذمہ داری سنبھالنے کے قابل بناناامریکی فوج کا ایک بنیادی مقصدرہاہے۔خاموش انخلاکامطلب یہ بھی لیا جائے گاکہ امریکا اب اس بنیادی مقصد کے حوالے سے کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں۔
فاکس نیوزسے ایک انٹرویومیں ٹرمپ کی زبان لڑکھڑاگئی اورانہوں نے یہ کہاکہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد 12ہزارنہیں بلکہ9ہزارہے۔اس سے طالبان نے یہ مفہوم اخذکیاکہ اب امریکاکسی باضابطہ معاہدے کاانتظارکرنے کی بجائے افغانستان سے چپ چاپ نکلنے کوترجیح دے رہاہے۔قطرمیں مذاکرات کے کئی ادوارہوئے۔امریکی مذاکرات کاروں کی کوشش رہی کہ طالبان کسی نہ کسی طوراس بات پررضامند ہوجائیں کہ افغانستان میں امریکی فوجی ایک خاص حد تک ضرور تعینات رہیں گے ۔وہ طالبان کویہ یقین بھی دلاناچاہتے تھے کہ وہ افغانستان کی بہبود کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ امریکی مذاکرات کاروں نے طالبان سے مذاکرات کی بنیادپرمعاہدے کاایک مسودہ تیارکیاتھا،جس میں اس بات کی ضمانت فراہم کی گئی تھی کہ پانچ ماہ کے اندرکم وبیش ساڑھے پانچ ہزارامریکی فوجی افغانستان چھوڑدیں گے۔اس کے جواب میں طالبان سے صرف اس بات کی ضمانت مانگی جارہی تھی کہ وہ(طالبان)تشددترک کردیں گے۔
طالبان سے امریکی حکام کے مذاکرات ستمبرمیں اس وقت اچانک ختم ہوگئے جب ٹرمپ نے پلگ کھینچ لیا۔معاہدے کامسودہ تیار ہو چکاتھا۔تب سے اب تک امریکی حکام یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے کہ طالبان سے رابطے مکمل طورپرختم نہیں ہوئے اور کسی نہ کسی شکل میں بات چیت جاری ہے۔اکتوبرکے وسط میں افغانستان کیلئے امریکاکے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زادنے اسلام آبادمیں طالبان کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ افغان حکومت کی ایک شکایت یہ تھی کہ امریکاکوفوجیوں کی تعدادگھٹانے کی بات طالبان کی بجائے اس سے کرنی چاہیے تھی۔ گزشتہ برس جنوری میں اشرف غنی نے افغانستان میں اخراجات کم کرنے کی ٹرمپ کی شدید خواہش کے پیش نظرکہاتھاکہ اگر امریکی حکام فوجیوں کی تعدادکم کرنے کے حوالے سے طالبان سے کوئی اچھی ڈیل نہ کرپائیں توافغان حکومت براہِ راست بات چیت کیلئے تیارہے۔
جنرل آسٹن ملرنے بہت پہلے افغانستان میں تعینات رکھے جانے والے امریکی فوجیوں کی تعداد8600مقررکی تھی۔یہ فوجی افغان فورسزکی بھرپورمعاونت کی پوزیشن میں بھی ہوں گے۔
جنرل ملراسپیشل آپریشنزآفیسرہیں۔ان کی شہرت ملٹری یونٹس کوکم حجم کے ساتھ متوازن رکھنے اورمشن ہرحال میں کامیابی سے مکمل کرنے کے حوالے سے ہے۔جنرل ملرنے ایک سال کے دوران افغان مشن کی قیادت کی ہے۔اس دوران امریکی فوجیوں نے افغان فوج کیلئے عمل نواز رویے کی حامل قیادت یقینی بنانے پرتوجہ دی ہے تاکہ جنگ کابوجھ افغان فوج اٹھائے اورافغانستان میں امریکی فوج کی قیادت اپنے وسائل بہ طریق احسن بروئے کارلانے پرمتوجہ رہے اورضرورت پڑنے پرافغان فوج کوفضائی قوت سے معاونت حاصل رہے گی۔
2010اور2011میں جب افغان جنگ نقطہ عروج پرتھی تب افغان سرزمین پرتعینات امریکی فوجیوں کی تعدادایک لاکھ سے زائد تھی۔امریکی فوجیوں کی معاونت کیلئے نیٹو اتحادیوں کے ہزاروں فوجی بھی تعینات تھے۔ان سب نے مل کرایک بڑاعالمی فوجی اتحادتشکیل دیا۔اب امریکی فوجیوں کی تعدادمیں مزیدکمی کامطلب یہ ہے کہ افغان فورسزکی تربیت کابوجھ وہاں تعینات ساڑھے آٹھ ہزارنیٹوفوجیوں اوردیگراتحادیوں کواٹھاناپڑے گا۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکاکی طرح نیٹواتحادیوں نے بھی اپنے فوجیوں کے انخلاکاپروگرام بنایاہے یانہیں۔نیو یارک ٹائمز سے ایک حالیہ انٹرویومیں نیٹوسیکریٹری جنرل جینزاسٹالٹن برگ نے فوجیوں کی تعدادگھٹانے کے حوالے سے توکچھ نہیں کہاتھا،مگر ہاں اتناضرورکہاتھاکہ نیٹوافغانستان میں اپنے مشن کے حوالے سے پرعزم ہے۔ان کاکہناتھاکہ ہم نے کئی باراپنی فورسزکی ایڈجسٹمنٹ کی ہے اورآئندہ بھی اپنی فورسزکی تشکیل اورطریقِ کارپرمتوجہ رہیں گے۔
افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعدادگھٹانے کامعاملہ ایسے وقت سامنے آیاہے جب امریکانے ترک فوج کی پیش قدمی دیکھتے ہوئے شام سے بھی اپنے فوجی واپس بلائے ہیں۔ شام اور فغانستان میں رونماہونے والی تبدیلیاں کئی پہلووں سے باہم مربوط ہیں۔ دسمبر2019میں ٹرمپ نے پہلی باراعلان کیاکہ شام سے امریکی فوجی واپس بلالیے جائیں گے۔ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیاکہ افغانستان سے7ہزارامریکی فوجی واپس بلائے جائیں۔ٹرمپ کاحکم نامہ محکمہ دفاع(پنٹاگون)اورمشرق وسطی سے متعلق امریکی کمان کوگیا،کوشش کی گئی کہ ٹرمپ رائے تبدیل کرلیں۔
شام کی بدلتی ہوئی صورتِ حال پرطالبان نے بھی نظررکھی ہوئی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے ترکی کوکردجنگجووں کے خلاف جانے کی اجازت دی جبکہ یہ جنگجوایک طویل مدت سے امریکی فوج سے جڑکرلڑتے رہے تھے۔ طالبان کے سینئرمذاکرات کارخیراللہ خیرخواہ نے ایک انٹرویومیں کہاہے کہامریکادنیابھرمیں اپنے مفادات کی نگرانی کرتا رہتا ہے اورجہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں سے وہ نکل جاتاہے۔ شام میں کردجنگجووں کوچھوڑدینااِس کی ایک واضح مثال ہے۔ اب یہ واضح ہے کہ کابل انتظامیہ کابھی یہی مقدرہوگا۔
Comments are closed.