این آر سی نے دعوت کے راستے کھول دیئے

ٓڈاکٹرعلیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی۔ حیدر آباد
امت مسلمہ کو اس سے زیادہ شاندار موقع تاریخ نے کھبی نہیں دیا۔ اگر چیکہ انہیں مہلت بہت ملی تھی۔ سنا ہے کہ اورنگ زیب قرآن کریم لکھ کر اپنی کمائی کرتے تھے کھبی سرکاری خزانے سے کچھ نہیں لیتے تھے، خلجی ، تغلق، بہادر شاہ ظفر سے لے کرآخری نواب میر عثمان علی خان تک جتنے لوگ گزرے، تمام نے یقینا بہت کارنامے کیئے، ہندو مسلم یکجہتی اور ان کے درمیان انصاف کی بہترین مثالیں قائم کیں لیکن کھبی کسی نے یہ ذمہ داری محسوس نہیں کی کہ اکثریت جو اصل دین سے ناآشنا تھی بلکہ پیاسی تھی ان تک قرآن کی صحیح تعلیمات پہنچاتے، نتیجہ یہ ہوا کہ ملک پر بادشاہت تو مسلمانوں کی رہی لیکن عقیدوں، دلوں اور دماغوں پر برہمنیت کی بادشاہی صدیوں قائم رہی ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صدیوں میں کروڑوں لوگ ذہنی طور پر نہ صرف شودر بن گئے بلکہ اپنی شودریت کی بھی پوجا کرنے لگے۔ جب جب فاشسٹوں نے مسلمانوں پر حملے کیئے سارے شودروں نے فاشسٹوں کا ساتھ دیا، خوش ہوئے کیونکہ انہیں لگا کہ برہمن ہی ان کا قائد، محافظ، اور ان کے دھرم کا رکھوالا ہے ۔ این آر سی نے اب جاکر انہیں نیند سے بیدار کیا ہے ۔ اب انہیں تھوڑا تھوڑاکر کے امبیڈکر ، پھولے، وامن میشرم ، چندر شیکھرآزاد ، وی ٹی راج شیکھر کیا کہہ رہے ہیں سمجھ میں آرہا ہے ۔ اگر چیکہ این آر سی کے خلاف احتجاج میں وہ مسلمانوں کے ساتھ کہیں بھی شامل نہیں ہوئے سوائے ان کے صحافیوں اور لیڈروں کے ، لیکن اتنا کیا کم ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس بار وہ فاشسٹوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ فاشسٹوں نے ہندوستان بھر میں این آر سی کی تائید میں جہاں جہاں جلسے جلوس نکالنے کی کوشش کی کسی بھی شودر ذات نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور ان کے جلسے جلوسوں کو ناکام بنادیا، اگرچیکہ فاشسٹوں نے شرکت کرنے والوں کو خوب پیسہ دینے کی کوشش کی۔ اب بھی کئی دلت ، ایس سی ، ایس ٹی سی ، او بی سی، کے لیڈر کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں اور برہمن واد کو نہیں مانتے اور نہ مورتی پوجا کو مانتے ہیں، لیکن ان کا پہلا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہیں بھی متحد نہیں ہیں ۔ ان کی ہر ذات کے اندر ہزاروں ذاتیں ہیں ۔ ہر ذات اپنی ذات کو ایک الگ مذہب تصور کرتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی گوار ا نہیں کرتی، اسی کا فائدہ سیاسی پارٹیوں نے اٹھایا ۔ ان کے لوکل لیڈروں کا یہ پیشہ بن گیا کہ اپنی ذات کے جتنے ووٹ ہیں ان کو اکھٹا کرکے ان کی قیمت وصول کی جائے۔ ظاہر ہے انہیں مسلمانوں کی حمایت کرنے سے کچھ ملنے والا نہیں تھا۔ مسلمانوں میں اگر کوئی سمجھدار لیڈر ہوتا اور حالات کا رخ سمجھتا تو انہیں پیسہ دے کر اپنے قریب کرسکتا تھا لیکن مسلمانوں کا پیسہ تو شادیوں، عرسوں ، تقریبات ، اجتماعات یا پھر الکشن کیلئے تھا۔ دینی جماعتیں اگرچیکہ ان میں دعوت کا کام کررہی تھیں لیکن ان کا زیادہ زور اسلام پہنچانے سے زیادہ اپنے مسلک اور حلیوں کو پہنچانا تھا نہ کہ اسلامی اوصاف کو۔ جتنا لٹریچر ان لوگوں میں بانٹا گیا اس کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے خشک موضوعات پر جنہیں خود ہمارے گھروں کے بچے نہیں پڑ ھ سکتے غیر مسلم کیا خاک پڑھیں گے۔ نتیجہ یہ کہ جس قسم کے لوگ اسلام مین داخل ہونے کے البم دکھا کر چندے وصول کیئے جاتے ہیں وہ سارے ان پڑھ اور معمولی پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔ جس اعلی تعلیم یافتہ طبقے کو اسلام پہنچانا تھا وہ تو دور دور تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ ہم لوگ اپنی شکلوں اور لباس کے معاملے میں سمجھوتہ کرنے تیار ہی نہیں۔ دعوت مارکیٹنگ کو کہتے ہیں ۔ جب تک سیلز مین شکل ، صورت اور پریزینٹیشن سے مہذب اور تعلیم یافتہ نہ لگے اس کو کوئی اندر آنے نہیں دیتا ۔ ہاں، باہر یہ لوگ کلرکوں ، ڈرائیوروں یا واچ مینوں کو ضرور دعوت پہنچا سکتے ہیں۔ ان شودروں کو ذاتوں سے باہر نکالنے کیلئے امبیڈکر کی طرح بے شمار لوگوں نے اپنی عمریں لگادیں، اب اس کے اثرات رفتہ رفتہ ظاہر ہونے لگے ہیں۔ اب ان کی سمجھ میں آرہا ہے کہ خود مسلمان بھی انہی کی طرح کھبی ہندو ہی تھے لیکن وہ پہلی قوم تھے جنہوں نے منو واد کو رد کردیا اور اسلام قبول کرلیا کیونکہ اسلام نے انہیںمساوات، حقوق انسانی اور حقوق نسواں دیئے تھے۔ منو واد کیلئے یہ بغاوت قابل قبول نہیں تھی اس لئے اس نے مسلمانوں سے وہی شدید نفرت شودروں کے دماغ میں بٹھائی جو کسی بھی مذہب چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرلینے والے کیلئے فطری طور پر پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اب شودریہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جنگ اصل میں دھرم کی جنگ ہے ۔ قرآن اور منو سمرتی کی جنگ ہے ۔ لیکن چونکہ ہزاروں سال سے وہ غلام ابن غلام رہے ہیں ، ان کا کوئی دھرم اپنا نہیں ہے جو بھی ہے وہ منو واد کے لوگوں نے ان کے ذہنوں میں راسخ کیا ہے ، نہ ان کے آبائو اجداد نے کھبی کوئی مذہب کی کتاب پڑھی ہے اور نہ انہیں مذہب کی کتاب پڑھنے کا حق دیا گیا ، اور نہ انہیں ہر مندر میں داخلے کی اجازت دی گئی، اور نہ ان کے پاس کوئی ایسا ہیرو ہے جو بادشاہ یا جنگجو سپہ سالا ر یہ بڑا مفکر یا فلسفی یا قائد رہا ہو، ہر بار انہیں چاہے آزادی کی جنگ ہو، چاہے کس سے پہلے بادشاہوں کی جنگیں ہوں، چاہے فسادات کروانا ہو، چاہے ووٹ ڈالنا ہو ، ہر بار وہ استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا اپنا کام سوائے کسی نہ کسی کے پیچھے چلنے کے کچھ نہیں رہا۔ اب وہ چاہتے تو ہیںکہ اس شودریت سے باہر نکلیں لیکن مر د ذہنی طور ر تیار ہیں، عورتیں نہیں، کیونکہ عورتوں کے دماغ میں اوہام پرستی، خرافات پر عقیدہ اور کسی نہ کسی خدا یا بڑے انسان کے آگے جھکنا فطرتا بسا ہوا ہے ۔ یہ بہترین وقت ہے کہ مسلمان ان کی طرف بڑھیں ، ان کے ساتھ جو ظلم ہورہے ہیں اس کا شعور ان میں پیدا کریں۔ این آر سی کی تحریک نے اب ہر ذات کو یہ پیغام تو دے دیا ہے کہ مسلمان ظلم کے خلاف نہ صرف اٹھ سکتے ہیں بلکہ قیادت بھی صرف مسلمان ہی کرسکتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر مسلمان محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیر و نہ ہوجاتے تو آج وہ بھی شودر ہی رہتے ۔ انہیں رسول اللہ کی صحیح تعلیمات بتاتے ہوئے انہیں ان کے حقوق حاصل کرنے ، شودریت سے بغاوت کرنے کی سوچ دینی ہوگی۔ ان کو ہزاروں ذاتوں میں سے باہر نکال کر صرف ایک قوم بننے کی طاقت سوائے اسلام کے کوئی اور نہیں دے سکتا ۔ ورنہ برہمن انہیں اسی طرح بانت کر قیامت تک غلام بنا کر رکھے گا۔ اور آخری بات ، اگر مسلمانوں نے یہ کام فور ی نہ کیا تو وہ شودروں سے زیاد ہ ابتر حالت میں کردیئے جائیں گے۔ لیکن اس کیلئے ہمیں یہ بھی طئے کرنے ہوگا کہ دعوت کیا دیں، کس طرح دیں، اس کا نصاب کیا ہو، یہ بھی طئے کریں کہ اس کام کو مخصوص جماعتوں، مسلکوں، پہناووں اور خود ساختہ عقیدوں سے باہر نکل کر کس طرح کریں۔ کافروں کو اسلام میں لانے پہلے ،خو د مسلمانوں کو اسلام سے خارج کرنے والے فرقے اور علمائوں کے شکنجوں سے باہر نکلیں۔ ورنہ تاریخ میں اس سے زیادہ سنہری موقع پھر شودروں کو قریب لانے کیلئے نہیں آئے گا۔
Comments are closed.