سبھاش چندر بوس: ایک عظیم سپاہی!!

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
غلامی اگر فطرت بن جائے، آزاد فضا کی لذت چھوٹ جائے تو پھر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، ایسے میں انسان کی زندگی شب و روز گزارنے اور کسی طرح مدت قلیل کاٹ لینے پر ہی اکتفا کرتا ہے، اور اسی گوشہ عافیت کو خیر و کامیابی سمجھنے لگتا ہے؛ لیکن اس کی زنجیروں کو توڑ کر اور غلامی کے طوق کو اپنے گلے سے اتار کر آزاد فضا میں سانس لینے کیلئے جہد مسلسل کرنا اور اس میں خود کو تھکا دینا بڑی بلکہ ضرورت پڑنے پر جان لٹا دینا بڑی بات ہوتی ہے، اس کیلئے طاقت و قوت کے ساتھ قیادت کی اشوک صلاحیت اور پرزور بازو کی حاجت ہوتی یے، یہ کھیل تماشہ نہیں، کوئی ہنسی ٹھٹھولا نہیں؛ کیونکہ اگر تحریک کامیاب ہوجائے تو انقلاب سے سرخروئی نصیب ہوتی ہے، جبکہ اگر انقلاب ناکام ہوجائے تو وہ خود سری اور بغارت سے تعبیر کی جاتی ہے، جس کی پاداش میں دار و رسن اور تختہ دار کو چومنا پڑتا ہے، یا سینہ پر بندوق کی گولیاں کھا کر شہادت کا جام پینا پڑتا ہے، اور اکثر و بیشتر حکومت کے ساتھ ساتھ انہیں کے اشارے پر لوگ بھی اسے باغی کہہ کر پکارتے ہیں، مگر یہ اصحاب اولوالعزم ہوتے ہیں، ان کے تذکرے تاریخ میں کئے جاتے ہیں، انہیں نسلیں یاد کرتی ہیں، اور وہ صفحات کے ساتھ ساتھ تذکروں میں جام ابد نوش کرجاتے ہیں، ہندوستان کی آزادی ہند کی کہانی بھی کچھ ایسی ہے، آزادی کے وقت بہت تحریکوں نے سر اٹھایا، یہ ایک طویل ترین جنگ تھی جس کا دائرہ دو سال تک وسیع ہے، ایسے میں جن لوگوں کا انقلاب ناکامی کے ہتھے چڑھ ہوگیا وہ رند ٹھہرے، اور اب تک انہیں خاطر خواہ مقام نصیب نہ ہوسکا، انہیں بد نصیب شخصیت میں سے ایک شبھاس چندر باس ہیں جو نیتا جی کے لقب سے مشہور ہیں۔
نیتاجی کی پیدائش 23 جنوری 1897میں ہوئی، آپ کا شمار ہندوستان کی جنگ آزادی کے صف اولین کے ہیرو میں ہوتا ہے، جنہوں نے انگریزوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا، استعماری طاقت کی نیند اڑا دی تھی، اور پورے ملک میں آزادی کی ایک ایسی لہر بنا دی تھی؛ کہ یر جگہ سے بغاوت کی آواز بلند ہونے لگے، انہوں نے ملک کی آزادی کے لیے سیاسی جد جہد چھوڑ کر طاقت کا استعمال کیا اور جاپان سے مل کر برطانوی سامراج کا تختہ الٹ دینا چاہا اسی مقصد کے تحت Indian National Army نام کی ایک فوجی دستہ کی بنیاد رکھی، جس کے ایک اہم ذمہ دار جنرل شاہنواز خان بھی تھے۔ اس مختصر سی فوج نے بڑی جلدی امپھال، کوہیما وغیرہ علاقہ میں خونریز جھڑپوں کے بعد قبضہ کر لیا، ان کا مستقبل روشن نظر آتا تھا، ایسا بھی لگتا تھا کہ اب بس کامیابی قدم چومنے کو ہے؛ لیکن جنگ عظیم دوم میں برطانیہ کو زبردست فتح نصیب ہوئی اور آزاد ہند فوج کا ہندوستان کو آزاد کرانے کا خواب چکنا چور ہوگیا، برطانیہ نے مزید جارحیت سے کام لیا تو وہیں ایک حادثہ فاجعہ بھی پیش آگئی، نیتا جی جاپان جاتے ہوئے ہوائی سفر کے دوران پلین کریش ہو گیا اور نیتاجی 18/اگست 1945 کو فوت ہوگئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیتاجی کی تحریک اور زندگی کے مطالعہ سے ایک نوجوان کے اندر آمریت سے لڑنے نیز ظالم و جابر اور غیر منصف حکومت کے سامنے اپنے حق کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن جانے کا حوصلہ ملتا یے، ” تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دونگا” ، ” آزادی مانگی نہیں جاتی بلکہ چھینی جاتی یے”، ” عظیم تبدیلیاں، مکالموں سے نہیں ہوا کرتیں”، جیسے جملے آپ کی زندگی کی تصویر ہیں اور ایک نوجوان کیلئے آئیڈیل بھی ہیں، تو وہیں ان سے ہ دو مسلم ایکتا کا بھی سبق ملتا ہے، جنرل شاہنواز پر ان کا اعتماد ہندوستان کی اسی خوبصورتی کو بتلاتا ہے جسے موجودہ حکومت CAA. NRC کے ذریعے ختم کرنا چاہتی ہے، آپ کی زندگی ہمیں آواز دیتی ہے کہ اس ملک کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ حفاظت اصل ہے، فموہ خواہ اندرونی طاقت ہی کیوں نہ ہو، وہ فسطائیت کے متوالے ہی کیوں نہ ہو، ہندو مسلم کی سیاست میں ملک کو توڑنے کا خواب رکھنے والے ہی کیوں نہ ہو….. ہر ایک کے خلاف محاذ آرا ہوجانا ہے، اور اس کیلئے اگر خون کا ایک ایک قطرہ بھی بہا دینے کی نوبت آجائے تو پیچھے نہیں ہٹنا ہے، وقت پڑنے پر ظالموں سے اپنا حق چھیننا سیکھو، اپنی آزادی کو جینا سیکھو، صبح بے نور کو مت مانو! کالے قانون کو تسلیم مت کروا– اٹھو! کمر بستہ ہوجاؤ! دیکھو تاریک ترین افق سے نیا سورج طلوع ہونے کو ہے، قدم بڑھاؤ! اپنے بازوؤں کو پھیلاؤ اور صبح نو کا استقبال کرو__!
23/01/2020
Comments are closed.