یہ احتجاج نہیں ہے ۔۔۔ تاریخ لکھی جارہی ہے

نور اللہ نور
متنازعہ اور انتہائی مضحکہ خیز قانون نے جو آگ لگائی ہے اس کے شراروں نے پورے چمن کا احاطہ کر رکھا ہے ہر جگہ لگنے والے نعروں سے فلک کے سینے چاک ہو رہے ہیں خون مظلوماں سے گلشن تر بتر ہے حکمران وقت قوت بازو کے زعم میں۔ بستیاں ویران کر نے کے در پر ہیں ظلم قہقہ لگا رہا ہے تو مدافعت بھی اس سے کہیں زیادہ دوگنی ہے
یقیناً ایسی فضا میں لگنے والے نعروں ؛ قربان ہونے والی جانوں کو صرف احتجاج نہیں کہ سکتے بلکہ صدیوں بعد پھر سے تاریخ رقم ہو رہی ہے عرصہ دراز کے بعد زمانے نے پھر کروٹ لی ہے اور ایک انقلاب کا طالب ہے
شاہراہوں پر بھنے والے خون تاریخ کے اوراق میں درج ہورہے ہیں نذرانہ قربانی تاریخ کی ورق گردانی کر رہا ہے "شاہین باغ” ہمیں ماضی کا سبق یاد دلا رہا ہے اور مستقبل کی راہیں پختہ اور ہموار کر رہا ہے ۔ ہمیں حوصلہ دے رہا ہے کہ تم ” جھانسی” کی رانی کے سپوت ہو ” رضیہ سلطانہ” کی اولاد ہو تمہیں دشمنوں کی آنکھوں میں آ نکھ ڈال کر بات کرنی ہے
اس آزادی و انقلاب کے بعد مؤرخ ” جامعہ ” اے ایم یو ” بی ایچ یو ” کے ذکر کے بغیر اپنی ہسٹری کو ناقص سمجھے گا جب مؤرخ عزم وحوصلہ کی تمثیل کا طالب ہوگا تو وہ گھنٹہ گھر پر بیٹھی شاہینوں کا تذکرہ ضرور کرےگا تاریخ کے اوراق میں ہٹلر اور ان کے برادران میں مودی اور انت شاہ کا بھی نام درج ہوگا مجھے لگتا ہے جب آنے والی نسلیں اس تاریخ کو پڑھیں گی کہ چند ان پڑھ گنوار قسم کے لوگ اقتدار کے زعم میں اساتذہ اور طلبہ پر لاٹھیاں چلا ئیں تو وہ موجودہ حکمرانوں پر ضرور تھو کیں گے
یوگی جی آ پ بھی تاریخ کے حصہ بنیں گے کہ ایک وزیر اعلی نے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے قصوروں کو پٹوایا تھا مودی جی سب لوگ بھول جائیں ہوسکتاہے کہ مؤرخ بھی نہ لکھیں لیکن جامعہ کے وہ طلبہ جن کا آپ نے ناحق زدوکوب کروایا ہے جنہوں نے اپنی بینائی سے ہاتھ دھویا وہ ضرور آپ کی کارستانیاں بتلائے ئیں گے اب تاریخ میں کچھ اور بھگت سنگھ ابوالکلام آزاد اشفاق اللہ خان اور مہاتما کا نام درج ہوگا
جس طرح تاریخ نے بھگت سنگھ ابوالکلام آزاد اشفاق اللہ خان اور مہاتما کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے ویسے ہی تاریخ کے پنوں پر” اسد اویسی ” روش کمار ” اور چندر شیکھر آ زاد ” کانام درج ہوگا اور تھوڑا آ گے بڑھوں تو تاریخ نے جس طرح "جھانسی کی رانی” رضیہ سلطانہ ” کو فراموش نہیں کیا ویسے ہی شاہین باغ کی ” دادی ” ہمیشہ عزم وحوصلہ کی مثال رہےگی برسوں قبل جس طرح دہلی سے لاہور تک کے درخت شہیدوں کے شہادت کے شاہد تھے ویسے ہی آج کی ہر شاہراہوں پر جانبازوں کا نام درج ہوگا
مودی جی تاریخ آپ کے کردار کو فراموش نہیں کرے گی ایک نئی تاریخ مکتوب ہوگی کہ وقت کے وزیراعظم نے اپنی ماں کو لائن میں لا کھڑا کیا تھا آج کا تاریخ کل کو اگر پھر ہٹلر لکھے تو اپنے قول میں صادق ہوگا غرض کہ یہ جوش و جذبہ تاریخ دہرا رہا ہے ہم نے آزاد کو نہیں دیکھا "مہاتما ” سے "بھگت سنگھ” کو نہیں دیکھا۔ لیکن شکریہ اے گردشِ دوراں سو بار شکریہ تو نے ان سب کے عکس سے روبرو کروایا قصہ مختصر شاہراہوں پر گونجنے والوں نعروں دی جانے والی قربانیاں یہ صرف احتجاج نہیں بلکہ تاریخ ایک نئے اسلوب میں رقم ہورہی ہے
Comments are closed.