تعمیرانسانیت، ہمارا سماج اور ملک کے موجود ہ حالات

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی
پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشعبہ دینیات سنی،علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
ہندوستان سیکولر اقدار کا شاندار مرکز و محور ہے۔ یہاں کی مٹی سے تعدد و تکثیریت ،تنوع اور رنگا رنگی کی خوشبو آ تی ہے۔ ہندوستان کی اسی عظمت و جلالت اور تہذیب و تمدن کو بچانے کے لئے آ ج ملک گیر احتجاج ہورہے ہیں ۔ ملک کی عوام میں بے چینی ہے۔ ہر سماج کے لوگوں کا، رواں حکومت سے بس یہی مطالبہ ہے کہ حکومت نے جو قانون مرتب کیا ہے اسے واپس لیا جائے۔ کیونکہ یہ قانون ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیب اور سماجی رکھ رکھاؤ اور یہاں کے حسن کو پامال کر تا ہے۔ نیز یہ آ ئین و دستور کی روح کے بھی خلاف ہے۔ جو لوگ ہندوستان کی تاریخ سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہاں ادیان،افکار و نظریات اور سماجی ہم آہنگی کے ہمیشہ سے پھول کھلتے رہے ہیں۔ ہندوستان کی گود میں ہندو ،مسلم سکھ ،عیسائی ،جین اور دیگر تہذیب و ثقافت کے حاملین نے نشو و نما پائی ہے۔ یہی خوبصورتی ، رواداری ، تہذیب وکردار ، تمدن و معاشرت و ثقافت دنیا کی تمام تہذیبوں سے ممتاز و جدا گانہ ہے۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ فرقہ پرست اور سماج دشمن عناصر نے بڑی سنجیدگی ،خوش اسلوبی اور منصوبہ بند طریقے سے یہاں کی بھولی بھالی عوام کے مابین منافرت،تشدد اور باہم بد امنی و بدعنوانی کا زہر گھول دیا ہے ۔ دو سماج و طبقہ کے لوگ اور دو مذہب کے فرد ایک دوسرے کو نفرت بھری نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ملک کی اکثریت کو مسلسل یہ درس دینے کی سعی ہورہی ہے کہ تمہارے لیے یہاں خطرہ ہے ،وہیں مسلم اقلیت اور محنت کش و مزدور طبقات کو خوف و ہراس میں رکھنےکے لئےالگ طرح کی منطق اپنائی جارہی ہے۔ یقینا یہ ماحول ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے لئے کسی بھی ناسور سے کم نہیں ہے ۔ موجودہ حالات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب اس ماحول اور پر تکدر فضا کو محبت و امن اور باہم تعاون و اعتماد و ہمدردی کی آ غوش میں جلدی سے نہیں لایا جاسکتا ہے۔ مگر نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اس کے لئے سماج کے تمام درد مند افراد اور اہل بصیرت و بصارت کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ جو افراد ملک کے شفاف ،پر سکون و پر امن ماحول کو اپنے فعل و عمل یا زبان و بیان سے مسخ کررہے ہیں ۔ عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کی پشت پناہی اور سر پرستی کون کررہا ہے۔ تبھی جا کر ایسے سماج دشمن عناصر پر قد غن لگ سکتی ہے۔ جو طاقتیں آج حب الوطنی کو صرف اپنی جاگیرسمجھتی ہیں ان کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ملک کو انگریزوں کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کے لئے مسلم کمیونٹی کی قربانیوں اور ان کی جانفشانی کو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ سے قطعی محو نہیں کیا جاسکتا ہے۔
یہی وہ سر زمین ہے کہ یہاں امن و امان کے داعی مہاتما گاندھی کے افکار کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ہر مذہب کا متبع آپ کی شخصیت و کردار کی عظمت و بلندی کی قدر کرتا ہے۔ اسی سر زمین پر مہاتما بدھ کا جنم ہوا اور انہوں نے فلسفہ امن کو عام کیا۔ چنانچہ بقائے باہم کی خوشنما اور پائدار روایت کے فروغ و ارتقاء میں ہر سماج کی ترقی کا راز پنہا ں ہے۔ آ ج جو عناصر ملک کی سالمیت اور یہاں کے رسم و رواج کو ختم کردینا چاہتے ہیں انہیں ماضی کے روشن و تابناک اوراق کو بھی دیکھنا اور پڑھنا چاہیے کہ جنہوں نے ملک کی حفاظت اور سماجی تانے بانے کو مستحکم کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا تھا۔ لہذا ہندوستان کی تاریخ میں ایسی با عظمت اور با صلاحیت افراد کی قربانیوں کا تذکرہ بھرا پڑا ہے جنہوں نے ملک کی سلامتی اور یہاں کی شان و شوکت کو بلند معیار تک پہنچا یا ہے۔ آ ج کی سب بڑی اور بنیادی ضرورت ہے انسان دوستی اور تعمیر انسانیت کے جتن کرنے کی ۔ کیونکہ جو ں جوں ہمارے سماج و معاشرہ نے ترقی کی منازل طے کی ہیں وہیں انسان انسان کے عرفا ن سے بالکل عاری ہوچکا ہے۔ اور ایک دوسرے کا حریف و دشمن بن چکا ہے۔ جب تک باہم ایک دوسرے کے اندر معاشرتی طور پر محبت کا چراغ روشن نہیں ہوگا اس وقت تک اس معاشرہ کا وقار و معیار بلند نہیں ہوگا۔ کیونکہ
دنیا کی قدیم تہذیبوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ سماج ہمیشہ سے کم از کم دو بڑے حصوں میں تقسیم رہا ہے۔ ایک طبقہ طاقت ور اور اشرافیہ کا جب کہ دوسرا طبقہ محکوم اور مجبور یا ایسے افراد پر مشتمل ہے جو طاقت یا ذرائع پیداوار پر دسترس نہیں رکھتے تھے۔ نتیجتاً ایک طبقہ اپنی طاقت اور’’ اشرافیائی‘‘ رکھ رکھاؤ کو قائم رکھنے کی کوشش میں رہتا جب کہ دوسرا طبقہ اپنی موجودہ حیثیت کو تبدیل کر کے اشرافیائی اقدار تک پہنچنے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے۔ گویا دونوں طبقے بلواسطہ یا بلا واسطہ اپنی اپنی حیثیتوں کو بدلنے یا قائم رکھنے کی کوشش حیران و سرگرداں نظر آ تے ہیں۔ یہود خود کو خدا کی سب سے بہتر مخلوق سمجھتے تھے؛ ان کی کتاب ’’تلمود‘‘ کے مطابق اہلِ یہود زمین کی سب سے بہتر مخلوق ہیں اور ان جیسا کوئی اور انسان یہاں موجود نہیں لہٰذا ان کی برابری کا کسی کو حق نہیں۔ اسی تفریق کی بنیاد پر وہ دوسروں کو حقارت سے دیکھتے۔ رومن ایمپائر نے بھی سماج کو مختلف طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا؛ ایک طبقہ طاقت ور یا اشرافیہ کا تھا جسے جرائم کی سزا بھی ممنوع تھی، جب کہ دوسرے طبقے کو معمولی جرائم میں سزائیں دی جاتی تھیں۔ ہندو سماج میں بھی طبقات موجود ہیں ۔ ہندو سماج کی مذہبی کتاب’ منوا سمرتی‘ کے مطابق ،ہندو سماج کو چار مشہور و معروف طبقات میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ’برہمن‘‘ برہما یعنی خدا کے سر سے پیدا ہوئے ہیں، اس لیے یہ طبقہ خدا کا خاص طبقہ ہے ، ان کو مذہبی رہبری کا فطری حق موجود ہے۔ اس کے بعد ’’چھتریوں‘‘ کا طبقہ آتا ہے جو برہما(خدا) کے سینے سے پیدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ چھتری کا کام جنگی مہمات ہے ، یہ طبقہ لڑنے میں مہارت رکھتا اور اپنے دوسرے کمزور طبقات کو قتل کرنے کا فطری حق رکھتا۔ ہندو سماج میں’’ ویش‘‘ کاطبقہ بھی موجود ہے جو برہما کی کمر سے پیدا ہوئے تھے۔ ان کا کام کھیتی باڑی کرنا اور تجارت ہے ۔ یہ طبقہ بھی کسی نہ کسی طرح سماج کی ضرورت بنا رہتا۔ سب سے گھٹیا طبقہ ’’ شودر‘‘جو برہما کے پاؤں سے پیدا ہوئے ۔ اس طبقے کا کام مذکورہ بالا تمام طبقات کی خدمت گزاری کرنا یا محکومی ہے۔
بنیادی طور پر سماج میں طبقوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ سماج میں بہت سی تبدیلیاں آتی رہیں مگر سب سے خوف ناک تبدیلی ذہنی اشرافیائی طاقت کے حصول کی تبدیلی تھی، انسان نے خود کو کسی طبقے کے حصار میں لپیٹنے کی بجائے، ذہنی طور پر دوسروں کو غلام یا محکوم بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ ’تبدیلی‘ جدید انسان کا المیہ تھا۔ مذاہب اور جدید انسان کے قوانین نے طبقوں کو ختم کرنے میں اہم کردار کیا مگر انسان کی لاکھوں برسوں کی تربیت نے اسے جنگلی سماج سے مہذب سماج میں منتقل ہونے سے روکے رکھا ہے۔ ابھی تک ہم ذہنی طور پر طاقت اور اشرافیائی اقدار کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔
نئے انسان نے سب سے پہلے یہ نتائج اخذ کیے ہیں کہ انسان سماج میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے ، ایک دوسرے کے ساتھ کام کرتا ہے؛ اس لیے کوئی بہتر ، طاقت ور یا ایک دوسرے کاحاکم یا آقا نہیں اور نہ ہی کوئی شخص ، قوم یا گروہ رذیل، گھٹیا یا کم تر ہے۔ انسانی صلاحیتوں یا ذرائع پیدوار کی دسترس رکھنے سے ایک طبقہ یا شخص دوسرے شخص یا طبقے سے بہتر یا اعلیٰ تصور نہیں ہوگا۔ بلکہ سماج میں گھٹیا یا کم تر اور اعلیٰ یا طاقت ور کا تصور ہی غلط تصور ہے۔ نئے انسان نے یہ تصور دیا ہے کہ ہم سب سماج میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرتے ہیں، کسی کے ساتھ کام کرنا اور کسی کے لیے کام کرنے میں فرق ہے۔ عموماً سماج میں ایک طبقہ یاشخص (پیداواری نقطۂ نظر سے) جب کسی دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے تو کسی ایک طبقے یا کسی ایک شخص کی حیثیت برتر اور دوسرے کی ماتحت ہوسکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک طبقہ یا شخص، دوسرے طبقے یا شخص کا آقا یا طاقت رکھنے کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔ چوں کہ ہم صدیوں سے اس تربیت سے گزرتے آئے ہیں اس لیے ہماری تاریخ کا ناگزیر حصہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم ’’برہما اور شودر‘‘ کی تقسیم کو قائم رکھیں۔ چناں چہ اس طرح فورا ً سماج میں طبقاتی تقسیم در آتی ہے۔ ایک طبقہ دوسرے کو گھٹیا سمجھنا شروع کر دیتا ہے، یا ایک شخص دوسرے کے لیے طاقت ور اور حاکم کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور وہ تمام وقوع پذیر ہونا شروع ہو جاتا ہے جو ایک طاقت ور کمزور کے ساتھ کر سکتا ہے۔
سماج میں رہتے ہوئے ہم اپنے اردگرد اس رویے کو بہت محسوس کر سکتے ہیں۔ ایک طاقت ور جب اپنی طاقت کے دائرے میں آنے والے کسی دوسرے شخص یا طبقے کو اپنی طاقت کا احساس دلاتا ہے تو لامحالہ ایک تقسیم خود بخود قائم ہو جاتی ہے جسے اشرافیائی اختیار کی تقسیم کہیں گے۔ عموماً ہمارے ذہنوں میں ہوتا ہے کہ شاید اختیار یا طاقت چند خاص افراد تک محدود ہے اور باقی پورا سماج اختیار یا طاقت سے محروم ہے۔ لہٰذا طاقت ور یا اختیار رکھنے والا ہی جواب دہ ہے۔ اصل میں سماج میں طبقات کی تعریف بدل گئی ہے۔ اب سماج ان طبقوں پر مشتمل نہیں جو برہمو یا چھتری یا شودرجیسے طبقوں پر مشتمل سماج تھا؛ اب ہر شخص ایک طبقہ بھی اورسماج کاجزو یا فرد بھی۔ ہر شخص کی ایک رعیت ہے جس کا وہ جواب دہ ہے۔ صرف طاقت ور پولیس آفیسر یا طاقت کی حکمرانی کرنے والا طبقہ یا فرد ہی سماج کا طاقت ور یا حاکم طبقہ نہیں مانا جاتا، اب ہر شخص کی ایک ’رعیت‘ کا تصور عام ہو گیا ہے۔
یہ کوئی معمولی فلسفۂ سماج نہیں، اسے لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ طبقوں کی تقسیم کو مکمل ختم کیا جانا چاہیے۔ ہر فرد طاقت رکھتا ہے اور وہ اپنی طاقت کا جواب دہ ہے۔ جس شخص کے پاس ’رعیت‘ کا تصور ’’رعایا‘‘ والا ہے، اس سے طاقت کو چھینا جانا چاہیے، کسی کو بھی کسی دوسرے کی توہین یا اُس پر حاکمیت کا لائسنس حاصل نہیں۔ ہر فرد یا طبقہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ طاقت ور یہ خیال کرتا ہے کہ شاید اُس کا محکوم اس کے لیے کام کررہا ہے۔ حالاں کہ ہر شخص سماج کے لیے کام کر رہا ہوتا ہے اور بلواسطہ وہ اپنے لیے کام کررہا ہوتا ہے۔ ہم کسی دوسرے کے لیے نہیں دوسروں کے ساتھ مل کر اپنے لیے کام کرتے ہیں۔ مذکورہ تمام شواہد و حقائق کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آ ج لوگ ہندوستان جیسے سماج یا معاشرے کی تقسیم ذات پات یا مذہب و دھرم کی بنیاد پر کرنا چاہتے ہیں وہی سماج میں ۔نت نئے قانون و دستور ایجاد کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔لہذا ان افراد کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آ ج کا سماج بہت آ گے جا چکا ہے اب اس کے اندر انسانیت کی تعمیر اوراپنے ملک و قوم کی ترقی زیادہ عزیز ہے ۔ اسی وجہ سے ہندوستان کی عوام میں حکومت کی طرف سے بنائے گئے قانون کے خلاف غم و غصہ دکھ رہا ہے ۔ ان کی ایکتا اور اتحاد نے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی نیدیں اڑادی ہیں ۔ اس وقت ہر انسان یہ فلسفہ بخوبی جانتا ہے کہ ملک کی ترقی اور سماج کی عظمت اسی وقت بحال ہوگی کہ جب اس کے اندر سے اونچ نیچ اور بھید بھاؤ کا فرق ختم ہوگا۔ بناء بریں حکومتوں کو بھی ایسے قوانین مرتب کرنے چاہیے جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بنیں نہ کہ ایسے جو سماج میں تفریق و نفرت اور ایک دوسرے میں بعد پیدا کریں ۔ اسی طرح ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو ایسے افراد کے خلاف بھی سخت کارروائی کرنی ہوگی جو اپنے اشتعال انگیز بیان کے ذریعہ سماج میں نفرت اور دل آ زار کا کام کرتے ہیں اور انسانیت کو کہیں نہ کہیں وہ کمزور کردیتے ہیں۔

Comments are closed.