دہلی انتخابات اور ہماری ذمے داریاں

مظاہر حسین عماد قاسمی

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو متحد ہوکر دہلی کا اسمبلی الیکشن لڑنا چاہیے تھا مگر دونوں پارٹیوں میں سے کسی نے بھی نہ دو ہزار انیس کے رزلٹ سے کوئی سبق لیا، اور نہ اتحاد کی بات کی ،

عام آدمی پارٹی دوہزار پندرہ کے اسمبلی انتخابات کے سنہرے نتائج کو یاد کر کے خوش ہے ،اور اسے امید ہے کہ اس بار بھی اسے ساڑھے چون (54.30٪)فیصد اور کل ستر سیٹوں میں سے سڑسٹھ( 67) سیٹیں مل سکتی ہیں ،
وہ یہ بات شاید بھول رہی ہے کہ عام آدمی پارٹی کو اتنے ووٹ اور اتنی سیٹیں ملنے کے کئی عوامل تھے،

اسی طرح کانگریس بھی اس خوش فہمی میں ہے کہ اسے 1993- 2013 کی طرح باون (52) تاتینتالیس (43) سیٹیں مل سکتی ہیں ،

جس طرح جھارکھنڈ کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے جے ایم ایم کو
اہمیت دی ہے اور اسے اکیاسی (81) میں سے تینتالیس (43) سیٹیں دیں تھیں اور خود اکتیس (31) سیٹیں لیں تھیں ، اسی طرح دہلی میں عام آدمی پارٹی کو زیادہ سیٹیں دینی تھیں ، اور عام آدمی پارٹی کو بھی کانگریس کی اہمیت سمجھنی چاہیے تھی ، عام آدمی پارٹی کو اپنی حد سے بڑھی خود اعتمادی خود اسے بھی نقصان پہونچا سکتی ہے ،اور کانگریس کو بھی ،اور مجموعی طور پر ہندوستان کے سیکولر زم اور گنگا جمنی تہذیب کو،

*دہلی کی سیاسی تاریخ*

لوک سبھا انتخابات کے نتائج

1952 کا انتخاب

کل سیٹیں : چار (4)
انڈین نیشنل کانگریس : تین (3)
کسان مزدور پرجا پارٹی: ایک (1)

1957 کا انتخاب
کل سیٹیں پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس : پانچ(5)

1962 کا انتخاب
کل سیٹیں پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس: پانچ (5)

1967کا انتخاب
کل سیٹیں : سات (7)
بھارتیہ جن سنگھ : چھ (6)
انڈین نیشنل کانگریس: ایک (1)

1971 کا انتخاب
کل سیٹیں : سات (7)
انڈین نیشنل کانگریس: سات (7)

1977 کا انتخاب
کل سیٹیں سات (7)
جنتاپارٹی : چھ (6)
بھارتیہ لوک دل : ایک (1)
1977 میں بھارتیہ جن سنگھ جنتاپارٹی میں ضم ہوگئی تھی ،پھر 1980 میں جن سنگھیوں نے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی بنائی تھی ، جناب مرارجی ڈیسائی سابق وزیر اعظم ،(1977-9180 ، ڈھائی سال جنتا پارٹی کی حکومت میں ) جناب چرن سنگھ سابق وزیراعظم ( 1980 میں چھ ماہ جنتا پارٹی کی حکومت میں ) اور جناب جے پرکاش نارائن وغیرہ محترمہ اندرا گاندھی سے ناراض پرانے کانگریسی لیڈروں اور سوشلسٹ قائدین کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ انہوں نے اندراگاندھی اور کانگریس دشمنی میں فسطائ طاقتوں سے ہاتھ ملالیا اور انہیں 1967 سے پھولنے اور پھلنے کا موقع دیا اور 1977 میں انہیں اپنی پارٹی میں شامل کرلیا ، فسطائیت لیڈران اٹل بہاری واجپئی اور ایل کے اڈوانی وغیرہ نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھایا،

1980 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
انڈین نیشنل کانگریس : سات (7)

1984 کا انتخاب

کل سیٹیں سات ( 7)
انڈین نیشنل کانگریس : سات (7)

1989 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : چار (4)
انڈین نیشنل کانگریس: دو (2)
جنتادل : ایک (1)

1991 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس: دو (2)

1996 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : پانچ (5)
انڈین نیشنل کانگریس: دو (2)

1998 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : چھ (6)
انڈین نیشنل کانگریس: ایک (1)

1999 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : سات(7)

2004 کا انتخاب
کل سیٹیں سات (7)

انڈین نیشنل کانگریس: چھ (6)
بھارتیہ جنتا پارٹی : ایک (1)

2009کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
انڈین نیشنل کانگریس: سات (7)

2014 کا انتخاب

کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : سات(7)

2019 کا انتخاب
کل سیٹیں سات (7)
بھارتیہ جنتا پارٹی : سات(7)

انیس سو سڑسٹھ (1967) سے دہلی میں فسطائی طاقتوں کا بول بالا ہے ،انیس سو سڑسٹھ سے دوہزار انیس تک جن سنگھ اور بی جے پی ماں بیٹی کے کل اڑتالیس ممبران اور 1977میں کامیاب ہوئے جنتاپارٹی کے چھ اور بھارتیہ لوک دل کے ایک ممبر کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ پچپن ہوجاتے ہیں ,
انیس سو سڑسٹھ تا دوہزار انیس کانگریس کے کل ممبران کی صرف بیالیس ہے،
دوہزار چودہ اور دوہزار انیس میں عام آدمی پارٹی کی وجہ سے کانگریس سات میں ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی ہے ، عام آدمی پارٹی بھی دونوں انتخابات میں ایک بھی سیٹ حاصل نہیں کرپائی ہے ،

دوہزارچودہ کے لوک سبھا کا ووٹ شیر
بی جے پی : 46.40٪
کانگریس۔ : 15.10٪
عام آدمی پارٹی : 32.90

دوہزار انیس کے لوک سبھا کا ووٹ شیر
بی جے پی : 56.58
کانگریس۔ : 22.36
عام آدمی پارٹی : 18.00

دوہزار چودہ (2014)کے مقابلے دوہزار انیس(2019) میں
دوہزار انیس(2019) کے لوک سبھا الیکشن میں دہلی میں بی جے پی کو ساتوں لوک سبھا سیٹوں پر دوہزار چودہ (2019)کی بہ نسبت آٹھ تا گیارہ فیصد ووٹ بڑھے ہیں ، نہیں معلوم کہ یہ عوامی مقبولیت کا کمال ہے یا ای وی ایم سے چھیڑ چھاڑ کا کرشمہ،

دوہزار چودہ (2014)کے مقابلے دوہزار انیس (2019)میں کانگریس کو دہلی میں تقریبا ساڑھے سات (7.36٪) فیصد ووٹ بڑھے، اس کو ہر سیٹ پر دو تا بارہ فیصد ووٹ بڑھے ،اس کو سب سے زیادہ چاندنی چوک میں تقریبا تیس فیصد (29.67٪) ووٹ اور سب سے کم ساؤتھ دہلی میں تقریبا ساڑھے تیرہ (13.56٪) ووٹ ملے ہیں ۔

عام آدمی پارٹی کی حالت سب سے خراب

دوہزارچودہ (2014) کے لوک سبھا انتخاب میں عام آدمی پارٹی تقریبا تینتیس (32.90٪) فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور کانگریس پندرہ(15.10٪) ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی، دوہزار نو (2009)کے مقابلے کانگریس کو پچیس فیصد ووٹ کا نقصان ہوا تھا، دوہزار پندرہ(2015) کے اسمبلی انتخابات میں کل ستر (70) اسمبلی سیٹوں میں سے سڑسٹھ(67) سیٹوں پر زبردست کامیابی اور کیجریوال صاحب کے پانی اور بجلی کی قیمتوں میں بہت زیادہ رعایت دینے ، اسکولوں کو ماڈرن اور اسمارٹ بنانے اور اسپتالوں میں کافی سہولیات فراہم کرنے کے باوجود دوہزار انیس( 2019)کے پارلیمانی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو دہلی سے ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوسکی ،بلکہ ہر سیٹ پر سات (7)تا اکیس(21) فیصد ووٹ کم ہوئے ،
دہلی کی کل سات(7) لوک سبھاسیٹوں میں سے پانچ (5) پر کا نگریس دوسرے نمبر اور دو (2)سیٹوں پر عام آدمی پارٹی دوسرے نمبر رہی،

*دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج*

1952 کا انتخاب
کل سیٹیں : 48
انڈین نیشنل کانگریس : 39 ووٹ 52.09٪
بھارتیہ جن سنگھ۔ : 5 ووٹ 21.89٪
دیگر : 4
انیس سو باون (1952) کے بعد دہلی اسمبلی کا دوسرا انتخاب انیس سو ترانوے (1993)میں ہواتھا،

1993 کا انتخاب
کل سیٹیں :70
بی جے پی : 49 ووٹ 47.82٪
انڈین نیشنل کانگریس: 14۔ ووٹ 34.48٪
دیگر۔ : 7

1998کا انتخاب
کل سیٹیں :70
انڈین نیشنل کانگریس: 52 ووٹ 47.76٪
بی جے پی : 15 ووٹ 34.02٪
دیگر۔ : 3

2003کا انتخاب
کل سیٹیں :70
انڈین نیشنل کانگریس: 47 ووٹ 48.13٪
بی جے پی : 20 ووٹ 35.22٪
دیگر :3

2008کا انتخاب
کل سیٹیں :70

انڈین نیشنل کانگریس: 43 ووٹ 40.31٪
بی جے پی : 23 ووٹ 36.34٪
دیگر۔ : 4

2013 کا انتخاب
کل سیٹیں: 70
بی جے پی : 33 ووٹ 30.00٪
عام آدمی پارٹی : 28 ووٹ 29.50٪
انڈین نیشنل کانگریس : 8 ووٹ 24.59 ٪
دیگر : 1

2015 کا انتخاب
کل سیٹیں : 70
عام آدمی پارٹی : 67 ووٹ 54.30٪
بی جے پی : 3 ووٹ 32.30٪
انڈین نیشنل کانگریس : 0 ووٹ 9.70٪

محترمہ آنجہانی شیلا دکشت نے پندرہ سالوں میں دہلی کی بہت خدمت کی مگر 2013 کے مخصوص حالات کی وجہ سے وہ ہارگئیں، اور عام آدمی پارٹی کو حکومت کرنے کا موقعہ ملا،

عام آدمی پارٹی کو دوہزار تیرہ(2013) کے اسمبلی انتخابات میں 29.30٪ ،دوہزار چودہ (2014)کے لوک سبھا انتخابات میں 32.90٪، دوہزارپندرہ(2015) کے اسمبلی انتخابات میں سب سے زیادہ 54.30٪ اور دوہزارانیس(2019) کے لوک سبھا انتخابات میں صرف اٹھارہ فیصد (18٪) ووٹ ملے ہیں ، چارسال میں ہی چھتیس(36) فیصد سے زائد ووٹ کا کم ہوجانا بہت خطرناک ہے،

*اب ہم کیا کریں،*

کا نگریس اور عام آدمی پارٹی نے اپنی اپنی امیدوں اور مصلحتوں کے پیش نظر اس اسمبلی الیکشن میں اتحاد نہیں کیا ہے ، اب سیکولر ووٹروں کو تین کام کرنا ضروری ہے
1- بی جے پی کی ناکامیوں اور دیش دشمن پالیسیوں کو خوب واضح کریں ، تاکہ ہر دیش کے ہر باشندے پر بی جے پی کی ناکارگی اور بدنیتی روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے،

2- کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو ووٹ نہ دیں ،
3-انگریس اور عام آدمی پارٹی کے ہر امیدوار کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں اور ان دونوں پارٹیوں میں جس پارٹی کا امیدوار بہتر ہو اس کو متحد ہوکر ووٹ دیں ،

*میری نظر میں بعض حلقوں کےبہتر امیدوار*

1- حلقہ 9 کیراری( kirari)
محمد ریاض الدین خان ، راشٹریہ جنتا دل
کانگریس نے کل چھیاسٹھ پر اپنے امیدوار اتارے ہیں ،اور چار سیٹیں آر جے ڈی کو دی ہیں ،

2- حلقہ 20 چاندنی چوک
الکا لامبا ( Alka lamba) انڈین نیشنل کانگریس

یہ جوان خاتون لیڈر بہت ہی اچھا بولتی ہیں ، اور یہ صحیح معنوں میں آنجہانی شیلا دکشت کا کردار ادا کرسکتی ہیں، دوہزار پندرہ میں عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ سے چاندنی چوک سے کا میاب ہوئی تھیں ، یہاں صورت حال عجیب ہے ،الکا دوہزار پندرہ میں عاپ کی امیدوار تھیں اور آج دوہزار بیس میں وہ کانگریس کی امیدوار ہیں اور دوہزار پندرہ میں ان سے ہارنے والے کانگریس کے امیدوار آج دوہزار بیس میں عاپ کے امیدوار ہیں ،

3- حلقہ 21 مٹیامحل
شعیب اقبال ، عام آدمی پارٹی،

یہ دلی کے بہت ہی مقبول اور بے باک لیڈر ہیں ، اور اپنی بے باکی اور سیمابی طبیعت کی وجہ سے کسی پارٹی میں زیادہ دنوں تک رہ نہیں پاتے، وہ 1993 اور 1998 میں جنتا دل کے،2003 میں جنتادل سیکولر کے،2008 میں لوک جن شکتی پارٹی کے اور 2013 میں جنتادل یونائیٹیڈ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے
یہ 1993 سے دوہزار پندرہ تک مسلسل بائیس سال مٹیا محل کے ممبر اسمبلی تھے ،دوہزار پندرہ میں عام آدمی پارٹی کے عاصم خان سے ہار گئے تھے ،اس بار کیجریوال صاحب نے نوجوان لیڈر عاصم خان پر بھروسہ نہیں کیا ہے اور شعیب اقبال صاحب پر بھروسہ کیا ہے ,

4- حلقہ 22 ،بلی ماران( Balli Maran)
عمران حسین عام آدمی پارٹی ، یہ کیجریوال حکومت میں اکلوتے مسلم وزیر ہیں،
دہلی میں صرف سات وزراء ہوسکتے ہیں ،

5- حلقہ 40 نیو دہلی
وزیر اعلی دہلی اروند کیجریوال، عام آدمی پارٹی

6-حلقہ 51 کالکاجی
آتشی مرلینا ( Atishi Marlena)، عام آدمی پارٹی

7- حلقہ 54 اوکھلا
پرویز ہاشمی ، انڈین نیشنل کانگریس،
،
یہ کانگریس کے پرانے وفادار اور مہذب لیڈر ہیں چھیاسٹھ سالہ پرویز ہاشمی نے ،1993سے 2009 تک اوکھلا حلقے کی نمائندگی کی ،اور مسلسل چار بار کامیاب ہوئے ،2009 میں ایک ضمنی انتخاب میں راجیہ سبھا کے ممبر چنے گئے ،اور 2012 میں دوبارہ راجیہ سبھا ممبر منتخب ہوئے،اور 2018 تک راجیہ سبھا کے ممبر رہے ،

8- حلقہ 57,پڑپر گنج،
نائب وزیر اعلی دہلی منیش سسودیا ،عام آدمی پارٹی

9- حلقہ 65, سیلم پور
چودھری متین احمد انڈین نیشنل کانگریس

اکسٹھ سالہ چودھری متین احمد نے 1993 سے 2015 تک سیلم پور کی نمائندگی کی ہے ، وہ 1993 میں جنتا دل کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ، 1998 میں آزاد امیدوار کے طور پر کامیاب ہوئے ،اور 2003 سے وہ کانگریس میں ہیں ،2015 میں عام آدمی پارٹی کے محمد اشراق سے ہار گئے تھے ، اس بار محمد اشراق کو عام آدمی پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملا ہے,

10- حلقہ 67, بابرپور
گوپال رائے ،عام آدمی پارٹی

11- حلقہ 69,مصطفی آباد
حاجی محمد یونس

یہ حلقہ 2008میں نئی حد بندی کے بعد وجود میں آیا تھا اور یہاں سے 2008اور 2013میں کانگریس کے حسن احمد کامیاب ہوئے تھے ،2015میں بی جے پی کے جگدیش پردھان کامیاب ہوئے تھے، بی جے پی کو 35.33%,
کانگریس کے حسن احمد کو 31.68%,اور عام آدمی پارٹی محمد یونس کو 30.13%ووٹ ملے تھے,

دہلی کے ووٹروں سے اپیل ہے کہ ووٹ صرف کانگریس یا عام آدمی کو دیجیے ،ان دونوں کے علاوہ کسی اور کو ووٹ دے کر نہ اپنا ووٹ برباد کریں اور نہ ہی فاشسٹوں کو ملک برباد کرنے کا موقع دیں ،
اللہ ہمارے ملک عزیز کا نگہبان ہو.

23/1/2029

Comments are closed.