جس میں نہ ہو انقلاب

فتح محمد ندوی
مجھے حیرت بھی ہے اور تعجب بھی کہ آپ یہ طے کر نے میں آج تک قاصر ہیں کہ اس ملک میں آپ بحیثیت فاتح کے زندگی گزار رہیں یا مفتوح کے۔ اگر آپ یقیناً فاتح بن کر زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کے دل و دماغ میں بھی یہ خیال پختگی کے ساتھ موجود ہے تو یقین کیجئے کہ دنیا کے تمام مسائل آپ کے سامنے ریت کے پہاڑ کی طرح ہیں۔جس طرح ریت کے پہاڑ تیز ہواؤں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اسی طرح فاتح قوموں کے عزم و ثبات کے سامنے زندگی کے تمام مسائل کی حیثیت ہے۔ لیکن فاتح قوموں کے مزاج اور انداز سے تیرا دامن بالکل خالی ہے۔ بلکہ تیرا گمان اور یہ خیال اس سراب کی مانند ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ فاتح قومیں اخلاق اور کردار اور اسی طرح ہمت اور حوصلوں کی پابند ہوتی ہیں۔ البتہ ابن خلدون کے مطابق فاتح قومیں عیش پرست اور آرام طلب ہو جا تی ہیں۔ خیر ہمیں ہندوستان میں اپنی حیثیت کو طے کرنا ہے۔ کسی غلط گمان میں مبتلاء ہونے کے بجائے حوصلے فاتح قوموں رکھنے ہیں لیکن محنت اور جدوجہد مفتوح قوموں کی طرح کرنی ہے۔ یعنی عیش پرستی اورآرام طلبی کے تصور کو ختم کرکے محنت اور لگن سے کام کرنا ہے۔
دیکھیے یہاں اس وقت دوقومیں ہیں ایک ہندو دوسرے مسلمان۔ ہندو قوم اس وقت صاحب اقتدار ہے اور ہر طرح کی مراعات ان کو حاصل ہیں۔اور یہیں فاتح بھی ہیں چونکہ جو صاحب اقتدارقومیں ہوتی ہیں وہی فاتح کہلاتی ہیں۔ ہم مسلمان اپنے آپ کو وقتی طور پر مفتوح مانتے لیتے ہیں۔اور اسی بنیاد پر اب ہم اپنا اور فاتح قوم کا جائزہ لیتے ہیں کہ جو قوم فاتح یعنی صاحب اقتدار قوم ہےاس کا انداز زندگی تو فاتح قوموں جیسا نہیں۔ کیونکہ ہر طرح کی سہولت اور فراوانی ہونے کے باوجود اس قوم کا انداز محنت طلب، جفاکش، وقت کی پابند، فضولیات سے دور اپنے مشن میں جنون کی حدتک کوششیں۔ غرض یہ تمام خوبیاں ان مفتوح کی ہوتی ہیں جو صاحب اقتدار نہیں ہوتی۔بلکہ اقلیت میں یا دوسرے کسی درجہ میں ہوتی ہیں۔اسی درجہ بندی کے اعتبار سے ہم اپنی بات کرتے ہیں کہ ہمیں کس طرح اور کن خطوط پر محنت کرنی چاہیے۔کیونکہ مفتوح قوموں کے پاس اقتدار نہیں ہوتااس لیے انہیں خود جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اب اس کے مطابق انہیں یہ طے کرکے آگے بڑھ نا ہوتا ہے۔ اس لیے انہیں تمام عیش پرستی چھوڑ کر رات دن محنت کرنی چاہیے۔ جفاکش اور محنت طلب ہونے چاہیے۔ وقت اور حالات کی قیمت کو سمجھنا چاہیے۔ لہو لعب اور بے کار کےکاموں سے دور کا واسطہ نہیں ہو نا چاہیے۔لیکن ہر برائی آج مفتوح قوم اندر ہے۔ کوئی خوبی کسی بھی میدان میں ایسی نہیں جو ان کے اندر موجود ہو۔وہ خوبیاں مفتوح قوم کے اندر ہونی چاہیے تھیں یہاں کی فاتح قوم موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے نوجوان کتنے ایسے ہیں جو علی الصبح اٹھ کر ورزش کرتے ہیں۔ کتنے نوجوان ایسے ہیں جو کسی بڑے امتحان کے مقابلے کی تیاری مشن کے تحت کررہے ہیں۔ کتنے نوجوان ایسے ہیں دس دس اور پندرہ پندرہ گھنٹے مطالعے میں گزار رہے ہیں۔کتنے نوجوان ایسے ہیں جو ڈاکٹر یا کوئی بڑا آدمی بننے کا پلان اس کے ذہن میں ہو۔ اب اس قوم کی بات کرتے ہیں جو صاحب اقتدار ہے اور فاتح ہے۔لیکن اس کے نوجوان ہر میدان میں آگے ہیں۔ محنت مشقت اور ورزش سے لیکر تعلیم کے تمام میدانوں کے وہ فاتح ہیں۔میں ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ میرے گاؤں سے لیکر دہلی تک دو سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے اس دوسو کلو میٹر کے درمیان میں جتنے بھی گاؤں مسلمانوں کے ہیں ان میں زیرو پر سنٹیز کے اعتبار سے لوگ صبح وقت میں ایکسر سائز کرتے ہوئے ملے گے باقی بڑی تعداد محو خواب لوگوں کی ہے۔ ہاں اس میں ان کا استثنا ہے جو نماز یا کسی دوسری ضروریات کی وجہ سے جلدی اٹھ جاتےہیں۔ جبکہ غیر قومیں جلدی سے بیدار ہو کر اپنی محنت یا مشن میں لگ جاتی ہیں۔مجھے ایک واقعہ یاد آیا اس کی مکمل تصدیق میرے علم میں نہیں لیکن بات بڑی اہم ہے۔شاعر اسلام ڈاکٹر اقبال مرحوم کا ایک واقعہ کسی نے سنایا تھا، وہ جاپان میں کسی پارک میں گھومنے کے لیے گئے۔ ان ہوں نے پارک میں بہت سے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا۔ جو مختلف قسم کے کھیلوں میں مصروف عمل تھے۔ قریب ہی آپ نے ایک بچہ کو دیکھا جس کے ہاتھ میں کتاب تھی اور وہ اس کتاب کے مطالعے میں منہمک تھا علامہ اقبال نے اس سے قریب جا کر معلوم کیا کہ بچے کھیل رہیں اور آپ کتاب کے مطالعے میں منہک ہیں ۔کیا آپ کو کھیلوں سے دلچسپی نہیں اس نے جواب دیا سر! میری قوم کی کی تعداد دنیا میں بہت کم ہے اگر میں بھی ان بچوں کی طرح کھیل کود میں منہمک ہوگیا تو دنیا سے میری قوم کا نام و نشان مٹ جائے گا اور ہمارا نام لینے والا کوئی باقی نہیں رہے گا اس لیے میں پڑھائی میں دھیان دے رہا ہوں۔ معلوم ہوا وہ بچہ ایک یہودی نسل سے تھا۔
کاش تیرے دل میں بھی اپنی قوم اور ملت کا خیال آجائے، تو بھی کسی مہم جوئی اور ہمت کا خوگر بن جائے۔ کب تک بغیر مقصد کے زندگی گزارتا رہے گا۔کون تجھے تیرا مقصد اور منزل بتائےگا۔ کون تجھے تیری ذمہ داریوں کا احساس دلائے گا۔یہ امت سوچکی ہے اور گہری نیند میں ہے تو اس کی کہن سالگی کو بیدار کردے۔ایسی بھی کیا زندگی ہے جس میں جرا ءت نہ ہو۔جس میں انقلاب نہ ہو۔جس میں آگے بڑھ نے کی اور ٹھوکرے کھاکر اٹھنے ہمت نہ ہو ۔تیری جانبازی کو کس کی نظر لگ گئی۔کیا ہوا تیرے حوصلوں کو۔دیکھ اپنی قوم کی حالت وہ تجھے ہی صلاح الدین اور محمد قاسم سمجھ تی ہےاقبال نے کہا ہے:
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی * رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب

Comments are closed.