بس نام رہے گا اللہ کا!!!

مدثراحمد
ایڈیٹر :روزنامہ آج کاانقلاب، شیموگہ۔ 9986437327
پچھلے تین مہینوں سے ہندوستان میں بہت بڑے پیمانے پر تبدیلی دیکھی گئی ہے اور یہ تبدیلی خاص طور سے مسلم سماج میں دیکھی گئی ہے ۔جو قوم اپنی شریعت پر براہ راست حملہ ہونے کے باوجود خاموش رہی وہ قوم جب دستور پر آنچ آتے دیکھا اور اس ملک میں اپنے وجود کو خطرے میں جاتے ہوئے دیکھا تو وہ قوم فاشسٹ حکومت کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر آئی اور دستور بچائو ملک بچاؤ نعروں کے ساتھ حکومت کو پریشان کررکھی ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں اندراگاندھی کے دور میں اسٹوڈنٹ مومنٹ کے دوران ہندوستانی مسلمانوں نے جئے پرکاش نارائن جیسے سماجوادی سوچ کے لیڈروں کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ پلٹ رکھا تھا اب دوبارہ بھارتی مسلمان حکومت کے خلاف صف آراء ہوکر سی اے اے اور ین آر سی کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں ۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ لیکن دوسری طرف جسے ہم پردے کی پیچھے کی بات کہہ سکتے ہیں اور عوام سطح پر اس پر بحث و مباحثے نہیں کرسکتے اس پر بات کریں تو ملک میں بدترین حالات کے باوجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اب بھی خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی ہے اور وہ پہلے کی طرح ہی گھروں میں بیٹھے رہنے کو ہی اپنی شان سمجھ رہے ہیں، سڑکوں پر اترنا انکے لئے عیب بن چکا ہے جبکہ تنظیمیں وادارے اپنے اپنے جھنڈوں کو اونچا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ بعض لوگوں کے لئے یہ احتجاج، دھرنے اور ریالیاں آمدنی کا ذریعۂ بن چکے تو کچھ لوگوں کے لئے یہ حالات سستی شہرت حاصل کرنے کا سبب بن چکے ہیں۔ کچھ لوگ احتجاجات کے بعد ان احتجاجات کی کامیابی پر گل پوشی و شال پوشی کروانے کو فرض سمجھ رہے ہیں توکچھ لوگ اسٹیجوں پر حصہ داری قائم کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں ۔ کل تک گل پوشی، شال پوشی اور تاج پوشی لیڈروں کا شیوہ تھااب مائک کے بغیر انکی سانسیں چلنا مشکل ہے ۔ ملک کے حالات کیا ہیں اور ملک کیا چاہ رہا ہے؟ملک کے دستور کو بچانے کےلئے کیا کرنا ہے اور کس طرح سے کام کرنا ہے؟، ہم اپنی جانب سے کیا کرسکتے ہیں یہ سب سوچنے سمجھنے کے بجائے اپنے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ زیر قیادت اور زیر صدارت کا جنون ایسا چھایا ہوا ہے کہ تنظیمیں اس معاملے میں تھوڑی سی لاپرواہی کو برداشت نہیں کرسکتے۔ جیلوں میں جانے کے وقت میں بھی اقتدار اور واہ واہی کا جنون جس طرح سے چھایا ہوا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ملک کی بقاء سے بڑھ کر نام کمانا اہم رہ گیاہے ۔ احتجاجات میں سنجیدگی کم ماڈلنگ زیادہ ہوگئی ہے۔ تصویریں یادگاریا پیغام دینے کے لئے نکالنے کے بجائے فوٹو سیشن کے لئے ہی احتجاجات میں شرکت کی جارہی ہے۔ دشمن کے خلاف نعرے بازی کرنے سے زیادہ اپنوں کو نیچا دکھانے کے لئے نعرے بازی کے کرتب دکھا رہے ہیں۔ ان حالات میں ملک کیسے بدلے گا؟، حالات کیسے بدلینگے؟؟. جمہوریت کیسے بچے گی؟، دستور کیسے بچے گا؟… ملک میں جاری موجودہ احتجاجات قربانی مانگتے ہیں، ملک کی حکومت کے خلاف ہمیں احتجاج کرنے کی ضرورت ہےنہ کہ حکومت کو خوش کرنے کے لئے، انکے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔ ہمارے احتجاجی خیموں کو تتر بتر کرنے کے اپنوں میں سے ہی اپنوں کو مخبر بنایا جارہاہے، کچھ لوگوں کو احتجاجی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کی ذمہ داری دی جارہی ہے ایسے میں ہمیں پوری تیاریوں کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔اخلاص کے ساتھ اللہ کو رضامند کرنا ہمارا مقصد ہے کیونکہ بس نام اللہ کاہی رہنے والاہے جبکہ باقی سب فانی ہے ۔ جب اللہ کے پاس ہمارا اکاؤنٹ کھل جائے تو کسی اور سے توقعات باقی رکھنا درست نہیں ہے ۔ یہی آج کا پیغام ہے۔
Comments are closed.