اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

کامران غنی صبا، مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان
جامعہ ملیہ اسلامیہ سے شروع ہونے والی تحریک پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے. اس تحریک کا سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس میں عورتوں اور طلبہ و طالبات کی نمائندگی سب سے زیادہ ہے. اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ اس تحریک کو مضبوطی عطا کرنے میں عورتوں اور نوجوانوں کا سب سے نمایاں کردار رہا ہے. خدا ملک و قوم کے تئیں ان کے جذبوں کے قبول فرمائے اور خدا کرے کہ یہ تحریک ہندوستان کے روشن مستقبل کا اشاریہ ثابت ہو.
تاہم اس تحریک کا ایک دوسرا اور قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس تحریک کے لیے خود کو اس قدر "ڈیڈیکیٹ” کر دیا ہے کہ وہ اپنے مستقبل اور کیریئر سے یا تو بالکل بے پروا ہو گئے ہیں یا نہیں تو جزوی طور پر ہی سہی ان کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں. میرے پاس کئی طالب علموں کے والدین کے فون آئے کہ میرا بچہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں پر توجہ نہیں دے پا رہا ہے اس کی دلچسپی سیاست میں بڑھنے لگی ہے. سیاست میں دلچسپی لینا کوئی بری بات نہیں لیکن کسی ایک چیز کو خود پر اس طرح مسلط کر لینا کہ دوسری چیزیں متاثر ہونے لگ جائیں، کسی بھی طرح درست نہیں. ایک خاتون نے فون کیا تو ان کی آواز سے ان کا درد ظاہر ہو رہا تھا. انہوں نے واٹس ایپ پر مجھے اپنے بھائی کا نمبر دیا. اور مجھ سے گزارش کی کہ میں ان کے بھائی کو سمجھاؤں. ان کے بھائی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم ہیں. میڈیکل کی تیاری کر رہے ہیں. خاتون نے بتایا کہ میرا بھائی کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں. وہ دن رات احتجاج میں شامل رہتا ہے. اس کی تعلیمی سرگرمیاں بالکل ٹھپ ہو چکی ہیں. ہمیں ڈر ہے کہ اگر یہ تحریک لمبی چلی تو بھائی کو ڈاکٹر دیکھنے کا ہمارا خواب ادھورا رہ جائے گا.
خود میرا چھوٹا بھائی جو ابھی آئی آئی ٹی کی تیاری کر رہا ہے، حالیہ چند دنوں میں غیر متوقع اور غیر معمولی طور پر سیاست میں اس کی دلچسپی بڑھ گئی ہے. کل میں اس کی کوچنگ گیا تو وہاں مجھے بتایا گیا کہ دسمبر کے بعد سے اس کی کلاس پرفارمنس کا گراف نیچے گرا ہے.
بچوں کے کیرئیر کے تعلق سے والدین کی فکرمندی فطری ہے. ہم والدین اور بڑوں کا اعتماد کھو کر پوری دنیا بھی حاصل کرلیں تو "لاحاصل” ہے. حکومت تو چاہتی ہی یہی ہے کہ ملک میں بے روزگاری اور جہالت عام ہو تاکہ سماج میں سنجیدہ اور صحت مند گفتگو کا ماحول ہی تیار نہ ہو. نوجوان لائبریریوں کی جگہ سڑکوں پر رہیں. نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب کی جگہ لاٹھی ڈنڈا ہو.
یقیناً ہمیں اپنے ملک، یہاں کی جمہوریت، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب، امن و آشتی اور ثقافت کی حفاظت بھی کرنی ہے… فرقہ پرست طاقتوں کو شکست بھی دینی ہے… ان کے خونی پنجوں کو مروڑنا بھی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے اور اپنی نسلوں کے روشن مستقبل کے لیے پوری یکسوئی اور مشن کے ساتھ جدوجہد بھی جاری رکھنی ہے. کیوں کہ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے مضبوط ہوئے بغیر ہم نہ تو اپنا بھلا کر سکتے ہیں اور نہ قوم و ملت کا۔
Comments are closed.