سی اے اے ،این پی آر اور این آرسی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
سی اے اے (سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ ) یعنی شہریت ترمیمی قانون ،شہریت پر حملہ آور قانون ہے،اس لیے حقیقتاًیہ ’’سٹیزن شپ اٹیک ایکٹ‘‘ ہے ،جس میں بڑی تعداد میں مختلف مذاہب کے لوگوں سے شہریت چھین لینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، وزیر داخلہ بار بار اس بات کو دہراتے رہے ہیں کہ یہ شہریت دینے والا قانون ہے ،لینے والا نہیں ،ہمیں دینے لینے کے لفظی الٹ پھیر سے مطلب نہیں ،ہماری مخالفت کی بنیاد اس قانون کا دستور ہند کے دفعہ ۱۴، ۱۵ میں بنیادی اصول کے خلاف ہونا ہے ،جس میں ہندوستا ن کے تمام لوگوں کو مساوی حقوق دینے اور ذات پات ،علاقہ نسب اور زبان کی بنیادی پر تفریق نہ کرنے کی بات کہی گئی ہے ،اب صور ت حال یہ ہے کہ سی اے اے کے ذریعہ افغانستان ،پاکستان،بنگلہ دیش سے آئے پناہ گزینوں کو اگر وہ ۳۱؍دسمبر ۲۰۱۴ء؁ کے پہلے سے یہاں رہ رہے ہوں تو ان کو شہریت دیدی جائے گی ،اس قانون سے فائدہ یہاں کے چھ مذہبی باشندوں کو ملے گا ،ہندو،سکھ ،عیسائی ،جین،بودھ،اور پارسی ،حالانکہ ان کو بھی ان تین ملکوں میں سے کسی سے آنے اور ۲۰۱۴ء؁ کے پہلے سے یہاں زندگی گذارنے کا ثبوت پیش کرنا ہوگا،لیکن انہیں مذاہب کے وہ لوگ جو تبت ،سری لنکا، نیپال،میانمارسے آئے ان کو اس قانون کی رو سے شہریت نہیں دی جاسکے گی ،اسی طرح آسام کے وہ لوگ جو این،آرسی سے باہر رہ گئے ہیں، ان کے لیے بھی اس قانون سے فائدہ اٹھاناآسان نہیں ہوگا،کیونکہ وہ دونوں مرتبہ این آرسی کے موقع سے دستاویزات ہندوستانی شہری ہونے کا پیش کر چکے ہیں،ناموں میں معمولی غلطی یا الٹ پھیر کی وجہ سے پریشان کرنے کے لئے ان کو این آرسی سے باہر رکھاگیا ہے ،سرکار کے یہاں دستاویز اور وثیقہ جو انہوں نے حلفیہ بیان کے ساتھ داخل کیا ہے اس سے مکر نا ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہوگا ،او ر اگر دوسرے دستاویز ات انہوں نے مہیا کرائے اور یہ کہا کہ ہم پاکستان ،افغانستان یا بنگلہ دیش سے آئے ہیں تو پہلے والے بیان کے خلاف ہونے کی وجہ سے ان پر چار سو بیس کا مقدمہ بھی چل سکتا ہے ،خلاصہ یہ ہے کہ ان کے لیے بھی شہریت کا ثبوت پیش کرپانا مشکل ہوگا،’’بہت مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی ‘‘۔
موجودہصورت حال یہ ہے کہ ان تینوں ممالک سے آئے بہت سارے لوگ پہلے ہی طویل مدتی ویزا پر ہندوستان میں زندگی گذار رہے ہیں ،اور انہوں نے لمبی مدت سے رہائش اختیار کرنے کی بدولت آدھار کارڈ ،پین کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس وغیرہ بنا رکھا ہے،۲۰۱۱ء؁ سے ۲۰۱۴ء؁ تک ایسے پناہ گزینوں کی تعداد ۱۴۷۲۶ تھی ۲۰۱۶ء؁ میں انٹلی جینٹ بیورو (I.B )نے اراکین پارلیامنٹ کو طویل مدتی ویزا والوں کی تعداد ۳۱۳۱۳؍بتایاتھا،۲۰۱۶ء؁ سے ۲۰۱۹؁ تک ایسے کتنے ویزے اور جاری کیے گئے، اس کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں ،جن لوگوں کو طویل مدتی ویزے دیئے گئے ہیں وہ انہیں اصول کے تحت ہیں ،جنہیں اب سی اے اے کا حصہ بنایا دیا گیا ہے ،ستمبر ۲۰۱۵ء؁ کے گزٹ میں اس بات کی صراحت کی گئی تھی کہ ۳۱؍دسمبر ۲۰۱۴ء؁ سے پہلے ہندوستان آئے ایسے پناہ گزینوں کے لیے ایک طویل مدتی ویزافراہم کرانا ہے ،خواہ ایسے پناہ گزینوں کے پاس پھٹے پرانے،صحیح یا غیر صحیح جیسے بھی کاغذات ہوں ، اس گزٹ کی روشنی میں ووٹ دینے کے علاوہ انہیں ساری سہولیات بشمول جائداد کی خریداری ان کو حاصل ہے ،پھر مرکزی حکومت اس کالے قانون کونافذ کرنے کے لیے کیوں مصر ہے ؟اس کا سیدھا سا جو اب یہ ہے کہ بھاجپا آسام اور مغربی بنگال کے ہندؤں ،سکھوں ،بودھوں،جینیوں،عیسائیوں اور پارسیوں کو ووٹ بینک کے طور پر دیکھتی ہے ،صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ ان تمام مذاہب کو شہریت دینے اور مسلمانوں کو مستثنیٰ رکھنے کا مقصد مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر خوف ودہشت میں مبتلا کرنا ہے ،ورنہ ہندوؤں ہی سے ان کی اصل دلچسپی ہے،البتہ سکھوں سے وہ خائف ہیں ،بقیہ مذاہب والوں کی تعداد ہی کتنی ہے، ان کے اس ارادوں کا پتہ بھاجپا نیتا اور آسام کے وزیر خزانہ ہیمنت وشورما کے اس انٹرویوسے چلتا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ شہریت ترمیمی بل ہمیں آسام کی سترہ سیٹوں کو اگلے دس سالوںتک جیتنے میں مدد کرے گا ،اس لیے کہ اگر آپ دس ہزار بنگالی ہندوؤںکے ووٹ نکال دیں تو یہ سترہ سیٹیں بھاجپا کے بجائے ایم،ایف یا یو،ڈی ،ایف کے کھاتہ میں چلی جائیں گی ،اس لیے وزیر داخلہ نے بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ ہم انہیں ووٹ دینے کا بھی حق دیں گے اور وہ وزیر اعظم بھی بن سکیں گے ۔
وزیر داخلہ ایسے تمام پناہ گزینوں اور ہندوباشندوں کی حمایت حاصل کرنے لیے بار بار اس بات کا اعادہ کرتے ہیںکہ پاکستان،بنگلہ دیش اور افغانستان میں اقلیتوں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے، پہلے یہ ۲۳؍فیصد تھی ۲۰۱۱ء؁ میں ۷ء۳؍فیصد رہ گئی ہے،واقعہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر داخلہ اس صفائی سے غلط بیانی کرتے ہیں کہ ہم اس صفائی سے حقیقت بیانی بھی نہیں کر پاتے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی کبھی بھی ۲۳؍فیصد نہیں رہی ،اب تو بنگلہ دیش بن گیا ہے ،غیر منقسم پاکستان کی آبادی ۱۹۵۱ء؁ میں ۲ء۱۴فیصد تھی جب کہ صرف مغربی پاکستان میں غیر مسلموں کی آبادی ۴۴ء۳ فیصد تھی ،اس طرح پناہ گزینوں کی مظلومیت کا پرچار کرکے سی اے اے کو جائز قرار دینے کی مہم غلط اطلاعات پر مبنی ہے ،سرکا رچاہتی ہے کہ غیر قانونی طور پر چھ مذاہب کے تارکین وطن کو شہریت دے دی جائے اور مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا جائے ۔
حکومت کے ذریعہ ۲۰۰۳ء؁ میں ہی اس کام کو شروع کردیا گیا تھا ،اٹل بہاری باجپئی نے ۲۰۰۳ء؁ میں اس کام کی بنیاد رکھ دی تھی، موجودہ حکومت اسی نہج پر کام کو آگے بڑھارہی ہے ،وہ پہلے مرحلہ میںاین،پی آر (قومی آبادی رجسٹر)تیار کرائے گی ،اس رجسٹر میں لوکل رجسٹرار اپنی سمجھ سے کسی کو بھی مشکوک قرار دے گا،اور چونکہ این ،پی آر ،این،آرسی کی طرف پہلا قدم ہے، اس لئے جو لوگ این پی آر میں مشکوک ہوں گے، ان سے این آر سی میں ناموں کے اندراج کے لیے کاغذات مانگے جائیں گے اور اگر کاغذات دکھانے کے بعدبھی رجسٹرار مطمئن نہیں ہوا تو پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی بسر کرنی ہوگی،جو انتہائی تکلیف دہ ہوگا،اس لیے ہندوستان کے شہری این پی آرکی بھی مخالفت کررہے ہیں ،یوں بھی قانونی طور پر پیدائش کے سرٹیفکٹ کا قانون ۱۹۷۹ء؁ میں بنااور ۱۹۸۵ء؁ میں نافذالعمل ہوا ،اب اس کے پہلے جو لوگ پیدا ہوئے یا ان کے والدین اس سے پہلے دنیا میں آئے ان کے وقت میں تاریخ پیدائش کے اندراج کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی،ایسے میں ان کو کس طرح مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی تاریخی پیدائش کی سند دکھائیں۔
اب جو سند نہیں دکھا پائیں گے، انہیں گھس پیٹھیا قرار دیا جائے گا،گھس پیٹھیا کا لفظ ہی ذلت آمیز ہے ،اس سے نفرت کی بو آتی ہے، وزیر داخلہ اس لفظ کا استعمال کر کے برسوں سے رہ رہے یہاں کے شہریوں کی تذلیل کر رہے ہیں،۱۹۲۳ء؁ میں ساورکر نے ہندو مہاسبھاکے مینو فیسٹو میں دو قومیت کی بات کی تھی ،بعد میں یہ نظریہ مسلم لیگ نے بھی قبول کیا اور ملک تقسیم ہوگیا،دونوں ملکوں میں بسنے والے لوگوں کو اپنی پسند کے ملک کے انتخاب کی آزادی دی گئی ،جن کو جانا تھاوہ چلے گئے ،لیکن ہمارے آباء واجداد نے فیصلہ کیا کہ ہم سب یہیں رہیں گے ،ہم نے اس ملک کے لیے قربانیاں دی ہیں ،آگے بھی قربانیاں دیتے رہیں گے ،اس ملک کو خون پسینے سے سینچیں گے اور یہیں دفن ہوجائیں گے ،اس طرح دیکھا جائے توہم اس ملک میں اتفاقیہ یعنی (بائی چانس) نہیں رہ گئے ،ہم نے متبادل ہوتے ہوئے بھی اس ملک کا انتخاب کیا ،یعنی ہم اس ملک میں بائی چوائس (اپنی پسندسے)رہ رہے ہیں ،اس طرح ہم اس ملک کے حصہ دارہیں کرایہ دار نہیں ،کرایہ دار سے مکان خالی کرایا جاتا ہے ،حصہ دار سے نہیں ،یہ بات بھی ہمیں اپنے ذہن ودماغ میں رکھنی چاہئے کہ یہ ملک ہمیں محبوب ہے ہمار ا معبود نہیں، اسی لیے ہم ایسے نعرے نہیں لگاسکتے جن سے وطن کے معبود ہونے کا تصور پید ا ہوتا ہو،ہم ورزش کے نام پر یوگا کو قبول نہیں کرسکتے؛کیونکہ اس میں سورج اور دیوی دیوتاؤںکی پوجاکا تصور واضح ہے ،لیکن ہم اسے محبوب رکھتے ہیں اور جس طرح ماں بہن ،بیٹی،بیوی کی عصمت و آبرو کی حفاظت کے لیے ہم اپنا سب کچھ قربان کر سکتے ہیں ویسے ہی اس ملک کے لیے سب کچھ حاضر ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ حکومت ساورکر کے نظریہ پر آگے بڑھ رہی ہے ،آر ،ایس ایس کے گوالکر نے کہا تھا کہ ’’بھارت میں اگر انہیں (مسلمانوں کو)زندہ رہنا ہے تو اپنی ملی تشخصات کو چھوڑ کر ،ہندوؤں میں گھل مل کر رہنا ہوگا،یا نہیں تو دوسرے درجہ کا شہری بن کر زندگی گذارنی ہوگی،جہاں نہ تو انہیں شہریت کا حق ہوگا،اور نہ کسی طرح کا ریزرویشن اور سہولیات فراہم ہوںگی تفصیلات کے لئے دیکھیں(M.S Golwalkar,we or our Nationhood Defind 1983,P47-48. )
این پی آر کے بعد این آرسی کا عمل دستاویزکی بنیاد پر ہوگا،اوردستاویز کو قبول یا رد کرنا، حکومت کے کارندوں کی صوابدید پر ہوگا،اولاًتو دستاویز دکھانا ہی مشکل کام ہے ،غریبوں،عورتوں،خوجہ سراؤں ،دلتوں،آدی واسیوں، رہائشی مزدوروں اور سماج کے دبے کچلے طبقے کے لیے اس پر قابو پانا کسی طور ممکن نہیں ہوگا،خصوصاًاس صورت میں جب ملک کوسیلاب و آتش زدگی کا سامنا ہر سال کرنا پڑرہاہو،ایسے میں کاغذ یا تو ہیں ہی نہیں اور اگر ہیں تو ایک دوسرے سے الگ ۔رہ گئے ووٹر کارڈ اور دوسرے سرکا ری دستاویزات تو ۱۷؍دسمبر ۲۰۱۹ء؁ کو دیئے گئے ایک انٹر ویو میں وزیر داخلہ نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ’’ووٹرکارڈ اور دوسرے سرکاری دستاویزات سے شہریت ثابت نہیں ہوسکتی ،آدھار کارڈ تو بالکل نہیں ،ذرا سوچیے !سرکار کی طرف سے فراہم کردہ شناختی کارڈ بھی اگر شہریت کا ثبوت نہیں بن سکتے تو کون سے کاغذ سے شہریت ثابت ہوسکے گی ۔
آسام کی مثال ہمارے سامنے ہے ،وہاں انیس لاکھ لوگ این ،آرسی سے باہر اس لیے نہیںرہ گئے کہ وہ غیر قانونی طور پر وہاں رہ رہے تھے ،بلکہ وہ اس لیے باہر رہ گئے کہ ان کے پاس کاغذات نہیں تھے،بہت سے معاملوں میں بیوی کا نام ہے توشوہر کا نہیں ،والدین کا ہے تو بچوں کا نہیں ،مطلب یہ ہے کہ گھس پیٹھئے ہونے کی تلوار صرف مسلمانوں پر ہی نہیں، بلکہ عام شہریوں پر پر لٹک رہی ہے ،اور کسی کو بھی دستاویز پیش نہ کرنے پر ڈٹینشن کیمپ میں غیر معینہ مدت کے لیے بھیجے جانے کا راستہ صاف ہے ،صرف پاکستان ،بنگلہ دیش،افغانستان سے آئے غیر مسلموںکے لیے سی اے اے کے تحت شہریت کے حصول کا دروازہ کھلا رہے گا،لیکن ایک مزدور جو دہلی ،کولکاتہ،مدراس،ممبئی یا دوسری ریاستوں میں حصول معاش کے لیے رہ رہا ہے وہ کیسے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں دوسرے ملک سے آیا ہوں اور زمانہ دراز سے یہاں رہنے کے بعد یہ مرحلہ کس قدر اذیت ناک اور پریشان کن ہوگا اس کا اندازہ ہندوستان کا ہر ایک شہری کرسکتا ہے۔یہاں وزیر مملکت نتیا نند رائے کے اس بیان سے خوش فہمی میں نہیں مبتلا ہونا چاہیے کہ ابھی حکومت کا پورے ملک میں ان آر سی کرانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، امیت شاہ بھی ابھی کی بات نہیں کہتے وہ تو ۲۰۲۴ء تک اسے مکمل کرنے کی بات کر رہے ہیں، ہمیں ’’ابھی‘‘ پر بھروسہ نہیں ’’کبھی نہیں‘‘ کی بات کرنی چاہیے۔
اس بیچ حکومت نے ۱۰؍جنوری ۲۰۲۰ء؁ کو گزٹ کے ذریعہ سی اے اے کو نافذ کردیا اور اس کے قبل اس نے ۹؍جنوری ۲۰۱۹ء؁ کو سبھی صوبوں اور مرکزکے زیر انتظام علاقوں کو ’’آدرش ڈٹینشن سینٹر،ہولڈنگ سینٹر‘‘کیمپ مینول بھیج دیا ہے اور ریاستی حکومتوں نے اس پر کام بھی شروع کردیا ہے ،ملک کا سب سے بڑا ڈٹینشن کیمپ آسام کے گولپاڑہ میں بن کر تیار ہوچکا ہے ،جس میں تین ہزار لوگوں کو جانور کی طرح رکھا جا سکتا ہے ،نیرول نیو ممبئی مہاراشٹرا ،بنگلورو کرناٹک،مغربی بنگال کے نیوٹاؤن اور بنگاؤں میں بھی کیمپ کا کام جاری ہے ۔
اس لیے ہمیں ہر حال میں سی اے اے کو واپس لینے ،این آرسی سے باز آنے اور این پی آر سے غیر ضروری کالم کو حذف کرنے کے لیے مسلسل منظم اور مربوط انداز میں تحریک چلانے کی ضرورت ہے ،پورے ملک میں جو تحریک چل رہی ہے اس کو مؤثر بنانے کے لیے کام کرنا ہے ،او ر اس وقت تک لگے رہنا ہے جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوجاتے ،عدم تشدد کے راستے پر چل کر پر امن انداز میں قائدین کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اس تحریک کو انجام تک پہونچانا ہے ۔

Comments are closed.