دے گئے داغِ جدائی، آہ مولانا ولی!

موت کی حشر سامانیاں موبائل کی گھنٹی کو غمزدہ دُھن میں تبدیل کر دیتی ہے، شاید اسی فطری نظام کا عکس ہے کہ وہ دھنیں جو غم کے لئے ایجاد کی گئی ہیں اس حقیقت کا پتہ آج اس وقت چلا جب بندہ اپنے انتہائی مشفق و مکرم حضرت مولانا ولی اللہ ولی قاسمی بستوی، استاذ مظاہر علوم وقف سہارنپور (مقیم حال دیوبند) کی زندگئ فانی کی خبر سنی، موبائل نے عجیب سسکیاں لینی شروع کر دی حیران و پریشان آوازا میں حضرت والا رحمۃ اللہ کے پرسنل نمبر سے فون آیا، کہ حضرت اب ہمارے درمیان نہیں رہے، یقین کرنا انتہائی مشکل تھا اور یقین بھی کیسے آتا؛ کیونکہ آج ہی بعد نماز مغرب تا عشاء کا وقت حضرت کے ساتھ میں ہی گزرا، ڈاکٹر کے پاس بھی جانا ہوا دوا بھی لائے ، حضرت کو گھر چھوڑ کر ابھی کمرے پہنچا ہی تھا کہ حضرت والا کے انتقال کی خبر موصول ہوئی میں اس وقت ہمت نہیں جٹا پا رہا ہوں کہ حضرت مشفق رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت پر کچھ لکھا جائے؛ کیوں کہ اس وقت کے تصور سے روح کانپ رہی ہے رگ و پے کی حرکت سلب ہونا چاہتی ہے، پلکوں پر آنسوؤں کے موتی بکھر رہے ہیں، عقل و خرد کے لطیف محل پر اداسیوں کے گھنے بادل سایہ فگن ہیں، غم فراق کے فرشِ حزیں پر تصورات کے تلوے زخمی ہورہے ہیں، آرزؤوں کے شاداب پودوں کو سمومِ فراق کی تیزابیاں جھلسا رہی ہیں، ذہنی عشرت کدے کی بنیادیں متزلزل ہورہی ہیں، زبان واحسرتا واحسرتا کا ورد کر رہی ہے۔
الحاصل، مرگ ولی کی منظر کشی سے زبان تھر تھراتی ہے، قلم لڑ کھڑاتاہے، دامنِ صفحات سمٹتا نظر آتا ہے، جملے مہمل ہو جانا چاہتے ہیں، حروف تہجی خبر غم کی ہئیتِ ترکیبی اختیار کرنے سے گریز کرتے ہیں، ذخیرۂ الفاظ داستان رحلت کی تعبیر سے قاصر ہے۔
یقینا، حضرت مولانا کی صحت تو نازک تھی؛ لیکن ان کی صحت سے ایسا اندازہ بالکل نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنی جلدی داغ مفارقت دے جائیں گے؛ لیکن قدرت کے فیصلے ہمارے قیاسات و خواہشات اور تخمینوں سے ماوراء ہوتے ہیں اس دنیا میں ہر شخص زندگی کے گنے چنے سانس لیکر آیا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس میں کمی زیادتی نہیں کرسکتی حضرت مولانا کی شخصیت اس دورِ قحط الرجال میں ایسی بڑی نعمت تھی کہ اس پر حقِ شکر ادا نہیں ہوتا۔ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوکر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مسافر کو چلچلاتی دھوپ میں جھلسنے کے بعد ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں میسر آگئی ہو، حضرت مولانا اسم بامسمی ظاہر و باطن میں بھی ولی اور پیکر خلوص و للہیت تھے نام و نمود کی اس دنیا میں جہاں شخصیتوں کو سستی شہرت اور پلبسٹی کے پیمانے سے ناپا جاتا ہے حضرت مولانا کو عوامی سطح پر بھی بہت زیادہ جاننے والے تھے اور اصلاح و ارشاد اور شعر و شاعری مدح خوانی کی نسبت سے بھی آپ کی شخصیت اس وقت مرجع خلائق تھی یہ اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ جو شخص اللہ کا ہوجائے وہ اپنی ذات کو کتنا بھی چھپانے کی کوشش کرے تاہم اس کی سیرت و کردار اور عند اللہ مقبولیت و محبوبیت کی خوشبو دور دور تک پہنچ کر رہتی ہے۔ حضرت مولانا ان نفوس قدسیہ میں سے تھے جن کا وجود بہت سے فتنوں کے لئے آڑ بنا رہتا ہے اور اس پر آشوب دور میں جن کے تصور سے قلب کو تسکین ہوا کرتی ہے، آپ کا وجود امت کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا باعث تھا
اس علامۂ وقت کو اللہ نے جن خوبیوں سے نوازا تھا ان کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ناممکن ہے۔ دست قدرت نے ان کی ذات میں فقہ و تصوف، تفسیر و بدیع، بیان و ادب، فلسفہ، شاعری، انشاء پردازی، صرف، نحو، منطق، بلاغت و معانی، مضامین ہئیت، اقلیدس، عروض، اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ کمال جامعیت کے ساتھ ودیعت کر رکھے تھے
آپ صبر و شکیبائی فکر و تدبر زہد و قناعت، رضابالقضاء، خلوص و مروت، سنجیدگی و متانت ایثار و ہمدردی محبت و مؤدت عاجزی و انکساری شہرت و ناموری سے دوری تکبر و تعلی سے پرہیز دولت و ثروت سے احتراز ریاضت و مجاھدہ نفس کشی اور پاکیزگیِ اخلاق جیسی خدا جانے کتنی متنوع رنگا نگ اور مختلف اقسام و صفات کا مجموعہ تھے۔
حضرت مولانا اپنی بہت سی امتیازی خصوصیت کے ساتھ کہنہ مشق قلم کار اور انشا پرداز اور پختہ کار تھے۔ محقق و مدقق مصنف کی حیثیت سے طبقۂ علما و اہل علم و دانش میں ممتاز شناخت رکھتے تھے اردو و عربی کا گہرا مطالعہ کر کے علمی ادبی تاریخی شعبوں میں اپنے قلم کے جوہر دیکھائے، جو خاصی تعداد میں جامع مضامین، مقالہ جات اور علمی تحریرات کی شکل میں موجود ہیں اور پھر بڑی عرق ریزی، بالغ نظری، اعلی حوصلگی کے ساتھ کئی ایک غیر منقوط کتابیں، (منظوم) تحریر فرمائیں اور مزید شعر و شاعری کے بھی اعلی معیاری ذخیرے آپ کے ذوقِ تحقیق کے آئینہ دار تھے۔
حضرت مولانا سادہ مزاجی کے بھی امین تھے، ان کی سادہ مزاجی کی قسم! اب جب میں دریائے محبت کا تصور کرتا ہوں تو اس کی پاکیزہ لہروں سے نکل کر ایک نورانی چہرا مہری پیٹھ تھپتھپا کر مجھے دلاسا دیتا ہوا نظر آتا ہے اور میرے اشکِ عقیدت اس درویش صفت چہرے کے قدموں کو چوم کر ہوا کے جھونکوں سے آگے نکل جاتے ہیں اور ایک زمانہ گزر جاتاہے۔
پھر ماضی قریب کا موسم میری یادوں کو گدگداتا ہے اور میں دور ایک سہانی وادی میں جا بستا ہوں، جہاں پر خوشبو کی پلکوں پر ایک ہی جملہ لکھا ہوا مجھے ملتا ہے:
اے سادہ مزاجی کے امین تجھ پر سلام
اس جملہ کو پڑھنے کے بعد میری یادوں کی پرتیں ایک کے بعد ایک کھلنے لگتی ہے اور میری آنکھوں کے سامنے علامۂ وقت حضرت مولانا ولی اللہ ولی قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ کا چہرۂ انور آجاتا ہے۔ آپ نے تاریخ اسلام کا ایک خصوصی باب اپنی عملی زندگی کے قلم سے جس طرح دہرایا ہے اور سادگی و انکساری کی جو نظیریں ہمارے سامنے عملی طور پر پیش کی ہیں، اس نے تاریخ اسلام کا اقبال اور بلند کردیا ہے اللہ تعالی کے آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر خلفائے راشدین نے صبر و قناعت اور سادگی و تواضع کا جو معیار قائم کیا تھا اسی معیار پر علامۂ وقت حضرت مولانا ولی اللہ ولی قاسمی بستوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا آشیانہ تعمیر کیا تھا؛ حالاں کہ حضرت مولانا کے پاس ایسے جاں نثاروں کی ایک مضبوط ٹیم تھی جو آپ کے ایک اشارے پر اعلی ترین لباس کا انبار اور مرغ و مسلم کا ایک جہانِ کر و فر نیز فلک بوس عمارتیں اور عیش و آرام کے سمندر مہیا کر سکتی تھی؛ لیکن آپ نے کبھی ان چیزوں کا تصور و خواہش تک نہیں کی؛ بلکہ بعض اوقات تو آپ اپنے خالی شکم پر ہی حضرت ایوب علیہ السلام کی داستانِ صبر تحریر فرماتے رہے۔
آپ ہمیشہ خوش پوش رہے ہیں؛ لیکن آپ کا لباس درویشانہ ہی رہا اور آپ اپنے دسترخوان پر جو کھانا تناول فرماتے رہے وہ بلکل سادہ ہوتا تھا اگر میں اس کو غریب عوام کے کھانے کا نام دوں تو شاید بیجا نہ ہوگا۔
آج تک سادہ مزاجی کی عزت و توقیر ایسے ہی شہنشاہ صبر و قناعت کے دم پر قائم ہے۔ مولانا کی سادگی اس وقت آپ کے آخری سفر میں صاف طور پر نظر آرہی ہے کہ ہزاروں عقیدت مند اس سادہ انسان کے آخری سفر میں شریک ہو کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ اللہ اللہ کیا سادگی کی شان ہے۔
انہیں الفاظ کے ساتھ میں حضرت مولانا کی روح مقدس کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں
حضرت مولانا کے انتقال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کائنات تو موجود ہے؛ لیکن فکر و خیال کی دنیا اجڑ گئی آپ کی یاد ہمیشہ آتی رہے گی اور آپ ہمیشہ آنکھوں میں بسے رہیں گے۔ زندگی جس ذاتِ گرامی کے گرد گھوم رہی تھی وہ اب جلوہ افروز نہ رہی علم و فضل کی وہ محفل اجڑ گئی۔
اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے اور صبح و شام ابرہائے رحمت ان کے مرقد کو سیراب کرتا رہے۔ آمین
Comments are closed.