این پی آر NPR اور ہماری منتشر مسلم قیادت

سرفرازعالم
مرکزی سرکار کا شہریت دینے والا بلCAB اب CAA کی شکل میں ایک متنازع قانون بن گیا ہے ۔دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ دہلی سے اس کے خلاف چنگاری بھڑکی اور کئی یونیورسٹیوں سے ہوتے ہوئے دہلی کے شاہین باغ تک پہنچی۔ 15 دسمبر 2019 سے شروع ہوکر یہ چنگاری پورے ملک میں ایک تحریک بن کر پھیل گئی اور آج بھی جاری ہے ۔شروعاتی دور میں چند مسلم رہنماؤں کے مضبوط بیان آئے تو لوگوں میں ہمت بڑھی اور بغیر قیادت کے عوامی تحریک بڑھتی گئی۔ لیکن جیسے جیسے سرکار کی جانب سے سخت موقف کا اعلان ہوتا گیا ویسے ویسے عوامی تحریک تو بڑھتی گئی لیکن مسلم قیادت خاموش ہوتی گئی ۔ہماری کمزور قیادت کو لگا کہ اس تحریک کو سرکار کچھ دنوں میں ہی ختم کر دے گی لیکن عوام کے جوش نے اسے ٹھنڈا نہیں ہونے دیا ۔دھیرے دھیرے کئی ریاستوں کی اسمبلی میں NRC نہیں کرانے کا فیصلہ کیا گیا تو ہماری کمزور مسلم قیادت کے ساتھ ساتھ دوسری سیاسی جماعتیں بھی دھرنے کے اسٹیج کو رونق بخشنے لگے ۔اسی بیچ 24 فروری کو فسطائی طاقتوں نے دہلی فساد کروا کر تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ۔اس کے باوجود اللہ کا شکر ہے کہ احتجاج ابھی بھی جاری ہے ۔دہلی میں تو AAP پارٹی نے مسلمانوں کے ووٹ کا استعمال کر کے حکومت بنالی اور ہر بار کی طرح مسلمانوں کو ٹھگ لیا گیا ۔دہلی فساد کے بعد صوبہ بہار میں نتیش کمار نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ بہار میں NRC کسی قیمت پرلاگو نہیں ہوگا اور NPR پرانے فارمیٹ 2010 کے مطابق ہی ہوگا۔سب کو پتہ ہے کہ پارلیمنٹ میں CAA کو پاس کرانے میں نتیش کمار ساتھ دے چکے ہیں ۔یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ NPR کا فارمیٹ پورے ملک کے لئے ایک ہی ہوگا نتیش بابو اس کا کیسے انکار کریں گے ۔ اس طرح غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ CAB کوCAA بنانے میں نتیش کمار کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس بات پر کتنا بھروسہ کیا جائے، اور کیا یہ ریاستی حکومتوں کے اختیار میں آتا بھی ہے؟ مردم شماری ہو یا این پی آر یہ سب مرکزی حکومت کےاختیار میں ہوتا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ آئندہ 1 اپریل سے شروع ہونے والا NPR کیسے رکے گا ۔عوام میں اس کو لے کر بےچینی اور قائدین میں بے حسی پائ جا رہی ہے۔بغیر ملی قائد کے لوگ تو الگ ہو کر بھی ہر جگہ تحریک کو چلا رہے ہیں لیکن ہمارے قائدین جن کو متحد ہو کر ایک طاقت بننا چاہئے تھا، اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ آلاپ رہے ہیں ۔ملک گیر پیمانے پر تقریباً تمام بڑی شخصیتوں کی بولتی بند کر دی گئی ہے، الا ماشاءاللہ ۔صوبائی سطح پر کچھ ادارے فعال نظر آتے ہیں ۔ صوبہ بہار میں اسمبلی انتخاب ہونے والے ہیں اس لئے یہاں کے ملی اداروں کو اپنی انا سے باہر نکل کر عوام کو ایک متفقہ ہدایت دینا چاہیے ۔افسوس یہ ہے کہ قائدین گروپ میں کوئی کہتا ہے اب کچھ نہیں ہوگا، کوئی کہتا ہے بیان دینے سے کیا ہوگا، کوئی کہتا ہے جو بڑے لوگوں کا فیصلہ ہوگا ہمیں منظور ہوگا، کوئی کہتا ہے قنوت نازلہ پڑھنے کا اہتمام کیجئے وغیرہ ۔کوئی اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیں ہے کہ 1 اپریل کو جب سرکاری بابو گھر پر آئیں گے تو لوگ کیا کریں گے!
ہمیں خوب پتہ ہے کہ فکری اور نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ہمارے ملی اور مذہبی رہنما شاید قیامت تک متحد ہونے والے نہیں ہیں لیکن انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دشمن جب یلغار کرے گا تو کسی بھی بنیاد پر ہمیں بخشنے والا نہیں ہے ۔بحرحال یہ آپس کی شکائتیں بجا بھی لیکن ہماری یہ التجا بھی ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ساری نظریاتی اختلافات کو بھلا کر ایک آواز بن جائیں ۔سب مل کر حکومت سے آنکھ ملا کر بات کریں ۔
چند تجاویز ….!
1.سب سے پہلے عوام میں یہ بات پہنچائی جائے کہ کسی بھی قیمت پر کامیابی ملنے تک احتجاج جاری رکھا جائے ۔
2. جہاں جہاں کامیاب احتجاج چل رہا ہے اس کی خبر لگاتار اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ وہاں تک پہنچانے کا کام کیا جائے جہاں مظاہرہ کمزور پڑ رہا ہے ۔
3. زمینی سطح پر مقامی نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑی بنا کر لوگوں سے ملنے کا سلسلہ شروع کیا جائے ۔
4. الگ الگ میٹنگ اور پریس کانفرنس نہ کریں بلکہ قانونی صلاح کاروں سے بات کر کے اس کالے قانون کو کمزور کرنے کی فکر کریں اور راستہ تلاش کریں ۔5. ہو سکے تو بڑے ذمہ داروں سے رابط قائم کر کے ان ریاستوں کے وزیراعلیٰ اور دیگر متعلقہ سیاست دانوں کو خطوط بھیجا جائے جن ریاستوں نے اپنے یہاں CAA, NPRاور NRC نہیں کرانے کا اعلان کردیا ہے ۔
6. جو بھی میٹنگ کریں اس کی تحریری تجاویز حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں تک ضرور پہنچائیں ۔
7. اپنے اپنے شہر میں ہو رہے احتجاج کے ذمہ داروں کو آپس میں جوڑ کر رکھیں ۔
8. ہو سکے تو اس تحریک کے لئے ایک رجسٹرڈ تنظیم بنائیں ۔
9. اگر کوئی تنظیم بن چکی ہے تو اس کو دامے، درمے، سخنے تقویت پہنچائیں اور دستخط مہم چلا کر سرکار اور عدلیہ پر دباؤ بنائیں ۔
10. چونکہ تقریباً ہر شہر میں دھرنا مظاہرہ چل رہا ہے اس لئے ایک مشترکہ اعلان کے ذریعہ وہاں کے ذمہ داروں کو خاص طور پر گاؤں میں گھر گھر جا کر سمجھانے کا مشورہ دیں۔
11. سیکولر ہم وطنوں کے خواص سے رابطہ قائم کر کے ان کو ساتھ لینے کی کوشش کریں ۔
12. اس قانون کا اثردلتوں پر بھی پڑےگا لہٰذا ان کے رہنما سے کھل کر بات کریں اور ان کو اپنے علاقوں میں بھی احتجاج بلند کرنے کے لئے تیار کریں ۔
13. ہر مظاہرہ میں مفاد پرست سیاست دانوں کو اسٹیج نہ دیں بلکہ مفکرین اس کام کو سنبھالیں، ہاں تحریک کو مضبوط اور جاری رکھنے کے لئے ہوشیاری کے ساتھ غیر مسلم کو بھی تقریر کا موقع دیتے رہیں ۔
14.ایسا نہ ہو کہ مشترکہ فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے انجان غریب لوگ ڈر کر اور عقلمند امیر دانستہ طور پر NPR کا فارم بھر دیں اور پوری امت ایک شدید بحران میں مبتلا ہو جائے۔
15.یاد رہے کہ ابھی اگر کوتاہی کی گئی تو آنے والی نسل کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
یہ تو واضح ہے کہ اللہ نے ہمیں آزمائش میں ڈالا ہےاور وہی اس سے باہر نکالنے پر قادر بھی ہے ۔ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہی اللہ ہماری آزمائش کرتا ہے لہٰذا اپنی غلطیوں کا محاسبہ اور اس سے توبہ کر کے پورے عزم کے ساتھ ایک بار پھر خود بھی متحد ہوں اور ملت کو بھی جوڑ کر پوری طاقت کے ساتھ اپنے وجود کو ثابت کریں۔اپنے اپنے خول سے باہر نکل کر حالات کا مقابلہ کریں ۔ ہوش کریں ورنہ ایسا نہ ہو کہ غلطی ہم کریں اور آنے والی کئی نسلوں کو اس کی سزا بھگتنی پڑے۔ اللہ اسی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔ صرف دعا سے قوم کی قسمت بدلتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم غار حرا سے باہر نہ نکلتے ۔اللہ ہم سب کا حامی و مددگار ہو، آمین!
Comments are closed.