دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں۔۔۔!

رمیض احمد تقی
دوحہ قطر
فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلم املاک کو باقاعدہ نشان زد کرکے سبوتاز کرنا اور ان کو نذرآتش کرنا۔ نیز متعصب پولیس کیظالمانہ کارروائیوں اور بھگدڑ کے دوران سرکاری پروپارٹی کے زیاں کا ہرجانہ بھی مسلمانوں سے جبراً اصول کرنا۔ لااینڈ آرڈر کے نامپر مسلم نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا، اور ان کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینا۔ عورتوں اور بچوں پر قہر برسانا، اوربوڑھے مردوخواتین کو ان کی عمر کا لحاظ کیے بغیر زودوکوب کرنا، یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی ان کو کسی حادثہ سے تعبیرکیا جاسکتا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک منظم سازش، منصوبہ بند پلان، اور قومی و مذہبی عصبیت پر مبنی کسی خوفناک تحریک اور سوچ کےنتیجے ہی میں ہوسکتا ہے۔
ملک میں آزادی کے بعد سے اب تک تقریباً پچاس ہزار سے زاید فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوچکے ہیں۔ اگر آپ ہر ہر فساد کے دفتر کھولکر بیٹھ جائیں، اور متاثرہ علاقہ کے لوگوں کی فساد سے قبل اور بعد کی زندگیوں کو بغور پڑھیں، تو آپ کو بخوبی معلوم ہوجائے گا کہاس ملک میں، جس کو دنیا کا عظیم ترین جمہوری ملک کہا جاتا ہے، وہاں مسلمانوں کے خلاف کیسی کیسی زمین دوز سازشیں رچیگئیں، اور مسلمانوں پر اس جمہوری فضا کو تنگ کرنے کے لیے کیسے کیسے حربے اختیار کیے گئے، وہ بلاشبہ بہت ہی فکر انگیز اورلرزہ خیز ہیں، جن سے ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرت اور معیشت لاریب بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ تقسیم کے بعد بھی اس ملک میںبالخصوص یوپی کے مئو اور مبارک پور وغیرہ میں مسلمانوں کے پاس کپڑے وغیرہ کی بڑی تجارت تھی، مگر ایک سازش کے تحت انکے سارے کاروبار کو لوٹ پاٹ کر برباد کردیا گیا، اور اسی طرح اس سازشی گروہ نے ملک میں جہاں کہیں بھی مسلمان پھول پھلرہے تھے، وہاں شب خوں مارا اور راتوں رات گاؤں کا گاؤں ویران کردیا۔
تاریخی دستاویزات کے حوالے سے یہ بات الم نشرح ہوجاتی ہے کہ ملک میں جب بھی کہیں فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے، ان میںمسلمانوں کا کروڑوں روپیوں سے زاید کے املاک کا خسارہ ہوا ہے۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اب تک صرف انفسادات میں مسلمانوں کو اربوں ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتوں نے سیاست، تجارت، ملازمت، حتی کہتعلیم میں مسلمانوں کو پیچھے رکھنے کے لیے ہمیشہ ان سازشی فتنوں کا سپورٹ کیا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق: ہندوستانیمسلمان تعلیم، تجارت، ملازمت اور صحت میں سب سے پیچھے ہیں۔ یقیناً کچھ تو ہم نے بھی اپنے ساتھ انصاف نہیں کیا، مگر اس کےساتھ ساتھ حکومت اور حکومت کے حلق میں جس کی انگلی تھی، انھوں نے ہمیں معاشرتی اور قومی سطح پر دبانے کی مکمل اورہمیشہ کوششیں کی، تاکہ ہم معاشی طور پر دیوالیہ پن کے شکار ہو جائیں، اور اپنی روایتوں کو چھوڑ کر ان میں ضم ہوجائیں، یا اپنیآزادی کو بھول کر ان کے غلام و داسی بن جائیں، اور معاشرے میں ہماری اپنی کوئی شناخت نہ ہو۔ ہمارے خلاف یہ سازشیں کوئینئی نہیں ہیں، بلکہ اس ملک کی آزادی سے بیسیوں سال قبل اس کی بنیاد پڑی تھی، جو آج اپنی پوری فسطائی قوت، پراگندہ ذہنیت،اور مسلم و دلت دشمنی پر مبنی منفی افکار و خیالات سے پُر ہر چہار طرف سے ہم پر حملہ آور ہیں۔
آپ خود غور کریں کہ جب یہ ملک آزاد ہوا تھا، اس وقت پورے ملک کی شرح خواندگی تقریباً اٹھارہ فیصد تھی, جو اب تقریباً پچہترفیصد تک پہنچ چکی ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ اس پورے علمی ترقی کے سفر میں ہندوستان کا مسلمان ہنوز تمام اقلیتی برادریوں سےبہت پیچھے ہیں، جب کہ ہندوؤں کی شرح خواندگی اپنی آبادی کے تناسب سے ستر فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ کیا یہ حیرت انگیزبات نہیں ہے؟ کیا واقعی مسلمان تعلیم کو لے کر اس قدر بے حس ثابت ہوئے ہیں؟ یا پھر اس کے پس پردہ کوئی اور وجہ تھی، جو اسقوم کو جاہل رکھنا چاہتی تھی؟
دراصل اس کے پس پردہ اسی فتنہ پرور جماعتوں کی کوششیں کارفرما تھیں، جو آج آرایس ایس، بجرنگ دل، ہندو واہنی اورہندوراشٹر جیسے مختلف اسم و شکل میں باقاعدہ منظم سازش کے تحت مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ان کا سب سے اہمٹارگیٹ یہ تھا کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو معاشی طور پر بالکل بد حال کردیں، اور پھر یہ خود زندگی کے دیگر شعبوں میں تنزلیکا شکار ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بات بھی کسی حد تک بہت درست ہے کہ انسان اپنی معاشرتی زندگی میں تعلیم سے پہلے معاش کاغلام ہے، اور جب معاش ہی تنزلی کا شکار ہو، یا اس کے معاش کے ذرائع کو ہی برباد کردیائے، تو بھلا زندگی کے دیگر شعبوں میں وہکب بازی مارسکتا ہے؟ اس کے برعکس اگر مسلمانوں کے خلاف یہ سازشیں نہ رچائی گئی ہوتیں، اور حکومتیں ان کے ساتھ دوغلیسیاست روا نہ رکھتیں، تو یقیناً آج اس ملک کے مسلمان بھی دیگر برادران وطن کے ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی برتری درجکراسکتے تھے، مگر صد افسوس کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہمارے انہی دونوں شعبوں پر سب سے زیادہ تابرتوڑ حملہ کیا گیا، جسسے یک گونہ ہم خود ذہنی طور پر احساس کمتری کے شکار ہوتے چلے گئے!
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان معاشی اور علمی اعتبار سے زوال کا شکار ہوجاتا ہے، پھر بھی وہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے،مگر جب بار بار اس کے ہاتھ صرف نامرادی اور شکست آتی ہے، تو وہ پھر اپنی اس شکست کو مقدر سمجھ کر اس کے مطابق زندگیگزارنے کا عادی ہوجاتا ہے، اور یہیں سے پھر رفتہ رفتہ اس کے اندر ایک نامعلوم سا خوف، کم ہمتی، بزدلی، بے حسی و بے بسی، بےچارگی و لاچارگی اور مظلومیت کے دروازے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آپ اگر آج کے دور کے ہندوستانی مسلمانوں کا عمومی جائزہ لیں،تو یہی محسوس ہوگا، کہ اس متنوع معاشرتی ملک میں مسلمان اپنی تعلیمی اور معاشی زبوں حالی محسوس کرلینے کے بعد پورےملک میں کس قدر قابل رحم تصور کیے جانے لگے ہیں۔ جہاں پورے ملک میں مسلمانوں کے جوش و جذبہ، حق گوئی و بے باکی، نفاست،اور علم و ہنر کا چرچا تھا، آج انہی کو علامت ذلت اور سماج کا شودر سمجھا جانے لگا ہے۔
یقیناً آپ نے بھی یہ بارہا غور کیا ہوگا کہ جب کبھی ہم کسی حادثہ کا شکار ہوتے ہیں، یا ہم پر فساد برپا کیا جاتا ہے، یا چند درندہصفت لوگ ہماری جانوں کے درپے ہوجاتے ہیں، تو اس وقت ظالم کے سامنے ہماری خودسپردگی، بلکہ لاچارگی و بے بسی بڑی قابلافسوس ہوتی ہے۔ ہم نے تاریخ کی کتابوں میں تاتاریوں کے مسلمانوں پر مظالم کی داستان خونچکاں پڑھی تھی، اور اس وقت کےمسلمانوں کی بےچارگی اور بے حسی کا بھی ذکر سنا تھا، کہ ان پر تاتاریوں کا اس قدر خوف سوار تھا، کہ وہ ان کے سامنے بالکلجامد و ساکت ہوجاتے اور خود کو ان کے ظلم کے حوالے کر دیتے تھے۔ جب آج ہم ان ٹڈی دل فسادیوں کے سامنے ہندوستانی مسلمانوںکی لاچارگی کو دیکھتے ہیں، تو وہی منظر آنکھوں کے سامنے دہرانے لگتا ہے۔ اس وقت یہ بالکل یقین نہیں آتا تھاکہ کیسے ایک تاتاریکسی مسلمان کو روک کر یہ کہتا تھا کہ تم روکو میں اندر سے تلوار لے کر آتا ہوں، پھر وہ اس کا سرقلم کردیتا تھا۔ آج جب ہم اپنےبعض بھائیوں کی لاچارگی کو دیکھتے ہیں، تو ان پر یقین کرنا پڑجاتا ہے، کہ آج بھی ایک ظالم: جس کی جسمانی ساخت خود اس کیحالت زار پر نوحہ کناں ہو، اسی طرح ایک چھوٹی عمر کا لڑکا بھی، ہاتھ میں بلا اور وکیٹ لیے ہوئے آتا ہے اور ہم پر برسائے چلاجاتاہے، ہم زخمی ہوجاتے ہیں، ہمارے ہاتھ پیڑ توڑ دیے جاتے ہیں، بدن سے خون رستا ہوا زمین کو لالہ زار بناجاتا ہے۔ کبھی ہم اس زخم کیتاب نہ لاکر اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں، اور کبھی ہم زندگی کی بازی جیت جاتے ہیں، مگر ہم میں اتنی جرات نہیں ہوتی کہ ہمبھی اس ظالم پر پلٹ کر وار کریں۔
دہلی کے حالیہ لرزہ خیز فساد کے بعد ہندوتوا غنڈوں کے ظلم و ستم کی جو تصاویر اور ویڈوز سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہیں،قطع نظر اس سے کہ وہ کس قدر خوف ناک اور دل دہلا دینے والی تھیں، تاہم جو چیز قابل توجہ تھی وہ مشترکہ طور پر ظالموں کےسامنے مسلمانوں کی خودسپردگی، بے چارگی اور مظلومیت تھی۔ ہرچند کہ دہشت گردوں نے مسلم گلیوں کا ہر طرف سے محاصرہکرلیا تھا، مگر جب وہ ایک ایک کرکے مسلم گھروں میں گھس رہے تھے، تو کیا وہاں کوئی بھی ایسا نہیں تھا، جو ان ظالموں کے ظلم کامقابلہ کرسکتا؟ اس کے برعکس وہیں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ اگر کہیں کوئی فسادی دہشت گرد ہاتھ آ گیا، تو بڑے مزے سے اس کیویڈیو شوٹ کر رہے ہیں، اور اس کو انسانیت کا درس دے کر پوری عزت و شرافت کے ساتھ وداع کر رہے ہیں، بلکہ بار بار اس سے یہکہلواتے ہیں کہ بولو تمہیں کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ میری نظر میں یہ بز دلی، خود فریبی، احساس کمتری اور بیوقوفانہ عمل ہے۔ ممکنہے بہت ساروں کو میری اس بات سے اتفاق نہ ہو، تاہم جنگ کے میدان میں دشمنوں کے ساتھ دوستی نبھانا، اور ان کو انسانیت کادرس دینا، درحقیقت ان مظلوں کے ساتھ ظلم ہے، جنہوں نے اس لڑائی میں اپنا مال و متاع سب کچھ گنوا دیا، اپنوں کو کھویا، اور اپنےبچوں اور عورتوں کو زندہ نذرآتش ہونے دیا ہے؛ بلکہ یہ خود اپنے اوپر بھی ظلم ہے، کیوں کہ جن فسادی دہشت گردوں نے چند لوہے کےٹکوں اور دو بوتل شراب کے بدلے کل دہلی کو آگ میں جھونک دیا تھا، کیا کوئی یقین سے یہ کہہ سکتا ہے کہ آیندہ کبھی وہ ایسیحرکت نہیں کرے گا؟ اس کے برعکس تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ اس قسم کے لوگوں نے سب زیادہ خوں ریزیاں مچائی ہیں۔ نیز ایسےماحول میں امن و یکجہتی، اور انسانیت کا درس دینا بھی کوئی شرافت کی بات نہیں، بلکہ یہ خودفریبی ہے، اور اپنی کمتری اوردشمن سے مرعوبیت کی واضح دلیل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے امن وامان کے ساتھ کبھی کھلواڑ نہیں کیا۔ اگر کہیں امن وسلامتی اور یکجہتی کا وعدہ کیا، تو پوری طرح اس پر کاربند رہے، جب کہ کفار اور منافقین کا ہمیشہ سے یہی وتیرہ رہا <۔

Comments are closed.