"عورت مارچ”

 


"ایک لڑکی ہمیشہ اپنے والد کے زیر سایہ رہنی چاہیےـ شادی کے بعد اس پر مالکانہ حق اس کے شوہر کا ہونا چاہیےـ شوہر کی وفات کے بعد اسے اپنی اولاد کے رحم و کرم پر رہنا چاہیےـ ایک عورت کسی بھی حال میں آزاد نہیں رہ سکتی ـ”
منو سمرتی کے پانچویں باب کے 148ویں شلوک میں یہ جملے درج ہیں ـ وہی منواسمرتی جس کی دقیانوسی تعلیمات کو ایک ترقی یافتہ عہد سرے سے نکار دیتا ہے ـ وہی منواسمرتی جس کی تعلیمات کے مطابق دلتوں، عورتوں اور پچھڑوں کیلیے سماج میں کوئی جگہ نہیں اور انکے لیے جانوروں سے بدتر زندگی جینے کے احکامات دیے گئے ـ وہی منو اسمرتی جس پر انسانیت کے علمبرداروں کی جانب سے آئے دن وبال کھڑا کیا جاتا ہےـ وہی منواسمرتی جو "منو” کے ذریعے لکھی گئی "اسمرتی” ہے اور جسے "امبیڈکر” نذر آتش کر دیتے ہیں ـ
یہ منو کی تعلیمات تھیں جنہیں مٹھی بھر انتہا پسند جماعت کے سوا مکمل عالم نے ٹھکرا دیاـ اور جس پر "بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لینے” پر عمل کرتے ہوئے وقتا فوقتا ہم بھی انگلیاں اٹھانے سے نہیں چوکتےـ لیکن ذرا محاسبہ تو کریے ان تعلیمات پر عمل پیرا کون ہے؟ اگر یہ تعلیمات ہمارے اعمال میں جڑ پکڑ چکی ہیں تو کوئی حق نہیں بنتا کہ سینا کشادہ کرکے ہم دوسروں کے رسوم و رواج پر وار کرتے پھریں ـ لائق فخر کہ آپ کی تعلیمات ان روایات سے یکسر مختلف ہیں اور مقام افسوس کہ آپ کے اعمال ان پر بلکل کھرے اترتے ہیں!
اب سوال یہ ہے کہ عورت کی آزادی کا حقیقی تصور کیا ہے؟ کیا تفریح بازوں کے ذریعے پیش کردہ نمونہ ہی آزادیء نسواں کی رئیل ڈیفینیشن ہے؟ کیا "مرد سے آزادی” کا نام ہی "عورت کی آزادی” ہے؟ مرد سے آزادی دراصل ہے کیا؟ مرد سے آزادی یعنی اپنے اس ہمسفر سے آزادی جس نے تمہارے طویل سفر میں تنہائی کی وحشت سے نجات دی اور تمہاری "بلیک اینڈ وائٹ لائف” میں قوس و قزح کے رنگ بھر دئیےـ ٹھیک ہے! تمہارا جسم تمہاری مرضی لیکن پھر انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کا بھی جسم اس کی بھی مرضی ـ اب اپنے اس قیمتی اور آزاد جسم سے تن تنہا کوئی ایک ، محض ایک تخلیق کرکے دکھا دوـ
ہاں لیکن! تم مارڈن گرل ہو تمہیں شادی اور رشتے سے ہی انکار ہے تمہیں ماں بننے سے ہی وحشت ہےـ پھر جب شادی ہی نہیں، کوئی ہمسفر ہی نہیں تو کس مرد سے آزادی؟
مرد سے آزادی یعنی اپنے اس باپ سے آزادی جو تمہاری تخلیق کا سبب بنا؟ کیونکہ وہ بھی مرد ہےـ مرد سے آزادی یعنی اپنے اس بھائی سے بھی آزادی جو تمہارے تحفظ کا امین ہے؟ کیونکہ وہ بھائی بھی مرد ہے!
بلا شبہ آزاد خیالی ترقی کی راہ میں بہترین کردار نبھاتی ہے ـ یہ زندہ قوموں کی پہچان ہے لیکن اس کی ڈیفینیشن تفریح بازوں کے ذریعے پیش کردہ تشریح سے یکسر مختلف ہےـ کیونکہ تمام تر سماجی اور اخلاقی قیود سے آزاد ہو جانے کا نام آزادی ہر گز نہیں ـ آزادی یہ ہے کہ جب آپ عورت کے حقوق پر آواز بلند کرنے کیلیے باہر نکل کھڑی ہوں تو ان بے سہارا اور مظلوم عورتوں کی جانب رخ کریں جو ظالم سماج کی ستم ظریفی کا شکار ہوئیں ـ آزاد خیالی یہ ہے کہ جب آپ عورت مارچ کے جلوس کیلیے مغرب کی گندگی میں لتھڑی تعفن زدہ سوچ کو سلوگنز کا روپ دے کر بینرز پہ اتاریں تو پڑوس کی ان جوان بیواؤں کے حقوق کو مد نظر رکھیں جن کے وجود اپنی پاکدامنی کی شہادتیں پیش کرتے کرتے بوڑھے ہو چکے اور جن کی جوانی سماج کے واہیات اور فضول رسوم و رواج کی بھینٹ چڑھ گئی ـ آزاد سوچ یہ ہے کہ جب آپ عورت مارچ میں شرکت کیلییے سجنے سنورنے میں مصروف ہوں تو ایسڈ اٹیک سے جوجھ رہے ان چہروں کے حقوق کا خیال کریں جو ممکن ہے کبھی آپ سے بھی زیادہ خوبصورت رہے ہوں ـ آزادی یہ ہے کہ جب آپ کسی مرد کو چھوٹی سوچ کا طعنہ دینے کیلیے چھوٹے چھوٹے اسکرٹ اور ٹاپ خرید رہی ہوں تو آپ کو سسرال کی ٹھکرائی اور زمانے کے تلوؤں تلے روندی جا رہی اس عورت کا خیال رہے جس کے لباس میں بے شمار پیوند ہونے کے باوجود وہ اپنا جسم ڈھانپے ہوئے ہے ـ آزادی یہ ہے کہ عورت کے عالمی دن پر اپنے مرد کو چھوڑ کر غیر مرد کو رجھانے کی بجائے آپ ان ٹھکرائی ہوئی عورتوں کی خبر لیں جو اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے کے باوجود حشرات الارض سے بھی بد تر زندگی جینے پر مجبور ہیں ـ اور آزادی یہ ہے کہ جب آپ "میرا جسم میری مرضی” کا بینر لکھ رہی ہوں تب آپ کو وہ عورت یاد رہے جس کے ذہن کو اس قدر آزادی بھی میسر نہ ہو سکی کہ وہ تعلیم حاصل کر سکےـ آزادی یہ ہے کہ جب آپ آزادی حاصل کرکے فضاؤں میں پرواز کرنے کیلیے پر تول رہی ہوں تب آپ کو وہ عورت یاد آئے جس کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت سپنوں کا خواب میں ہی گلا گھونٹ دیا گیا ہو ـ اور پھر آزادی کے اس نعرے میں ہم سب تمہارے ساتھ ہیں ـ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خدا قسم یہ سب ڈھونگ ہے اور تم نام نہاد مغربی فسادی ایجنڈے پر گھٹیا سلوگنز کے ساتھ فقط تفریح کیلیے نکل پڑی ہو!!

Comments are closed.