کفار کی دوستی کھُلا فریب !!!

احساس نایاب ( شیموگہ, کرناٹک )

ایڈیٹر گوشہ خواتین بصیرت آن لائن

کلام پاک میں اللہ سبحانہ تعالی کا واضح فرمان ہے کافر کبھی آپ کا دوست نہیں ہوسکتا …….
لیکن ہم نادان ناسمجھ مسلمان نام اتحاد پہ اس فرمان الہی کو بھلاکر ہمیشہ سے پچھتارہے ہیں, دشمنان اسلام کے ہاتھوں بار بار دھوکہ کھاکر ذلیل و خوار ہورہے ہیں , چاہے وہ گجرات کے دنگے ہوں یا دلی کا فساد جتنی بربادی, جانی مالی نقصان مسلمانوں کا ہوا ہے شاید ہی کسی اور مذہب کا ہوا ہو ……..
باوجود ہم مسلمان ہوش میں نہیں آئے, عقل سلیم استعمال نہیں کرپائے بلکہ ہمارے جذبات ہماری عقل پہ حاوی ہوگئے ہیں, ہم مسلمان اتنے جذباتی ہیں کہ دو چار میٹھے بول و جوشیلی تقریر سے متاثر ہوکر کسی بھی ایرے , غیرے کو اپنا رہنما و قائد مان کر اُس کے دُم چھیلے بن جاتے ہیں, اُس کے نام کی تضبیح جپتے ہوئے گلی محلوں , نکڑ والی چائے کی دکانوں حتی کہ ہر جگہ اُس کی واہ واہی کرتے ہوئے اپنوں میں کیڑے نکالنے لگ جاتے ہیں ……
بیشک ہمارا اسلام ہمیں ہر ایک سے انسانیت, پیار, محبت, ہمدردی کا درس دیتا ہے لیکن کسی کے اوپر پوری طرح سے انحصار ہونے کسی کی مریدی میں سچائی کو بھولنے کا درس ہرگز نہیں دیتا ….

مانا موجودہ حالات کے مدنظر ہمیں ہم وطن بھائیوں کے ساتھ کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم اُن پہ اس قدر منحصر ہوجائیں کہ ناگہانی صورتحال میں اُن کے بغیر خود کو مفلوج پائیں ,
آج غیر مسلمانوں کا ساتھ ہمارے لئے بیشک ایک ڈھال کی طرح ہونا چاہئے لیکن ہمیں خود کو اپنی ذات کو اور اپنی نوجوان نسلوں کو تیر اور تلوار بنانا ضروری ہے جس کی تیز دھار سے ہم اپنے ساتھ ساتھ ہر کمزور, مظلوم اقلیت کی بھی حفاظت کرسکیں, دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں .
ناکہ اوروں کے ہاتھوں میں ڈھال بن کر دشمن کے وار خود پہ سہے جائیں, یا غیروں کو مظبوط بناکر خود ان کے ہاتھوں شکار بن جائیں , جیسے دلی فساد میں کئی مسلمان اپنے ہی ہمسایوں کے ہاتھوں برباد و قتل ہوگئے ……… ورنہ کس کو کیسے خبر ہوگئی کے کونسا گھر ہندو کا ہے کونسا مسلمان کا, کس نے شناخت کروائی ؟
یہاں پہ معملا کچھ یوں ہوا گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے …..

خیر ہمارے لئے اس سے بڑی شرمندگی و بدنصیبی اور کیا ہوسکتی ہے جس قوم کے نوجوانوں کا کردار جن کی پہچان صدیوں سے محافظ, جنگجو سپاہیوں کا رہا ہے آج وہ مظلومین میں صف اول کھڑے ہیں
جن کے نام سے دشمن کانپ جایا کرتے تھے, دشمن کے لشکر تتر بتر ہوجایا کرتے تھے آج وہ خود بنا ریڈ کی ہڈی والے کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پہ رینگتے ہوئے اپنی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں ……

جس قوم کے جانباز صنف نازک کی ایک آواز پہ لبیک کہتے ہوئے اُس کی مدد کے لئے سمندر وادیاں پار کرکے اُس کے محافظ بن جایا کرتے تھے آج اُسی قوم کی ماں, بہن, بیٹیاں غیروں کے آگے رحم کی بھیک مانگ رہی ہیں.
گڑگڑاتے, بلکتے مظلومیت کا رونا رو رہی ہیں اپنے ساتھ ہورہی بربریت, ظلم و جبر کی داستانیں سارے عالم کے آگے چیخ چیخ کر بتانے پہ مجبور ہیں کیونکہ آج اُن کے اپنوں میں کوئ پرسان حال نہیں رہا ہر طرف مفاد سر پھیلائے ہوئے ہے, شاید کسی کی بربادی پہ چند مفادپرست خود کو آباد کرنے کی ضد میں ہیں …..
اور ان بدترین حالات کے چلتے معصوم بنت حوا کی چیخ و پکار سُن کر شاید آسمان پہ فرشتے بھی اُمت مسلمہ کے حالِ زبوں پہ آنسو بہا رہے ہونگے, بزرگان دین کی روحیں بےچین ہورہی ہونگی …..

آج دنیا بھر میں 57 مسلم ممالک ہونے کے باوجود, تعداد , طاقت , دولت , علم ہر لحاظ سے مظبوط ہونے کے باوجود ناجانے اُمت پہ یہ کیسا وقت آن پڑا ہے ؟ سمجھ نہیں آتا یہ ہمارے اعمال کی کوتاہیوں کی سزا ہے یا نام حکمت و مصلحت پہ بزدلی کو اپنانے کا نتیجہ ؟
ایک طرف دشمن کا وار دوسری طرف اپنوں کی کمظرفی و منافقت سمجھ نہیں آتا آخر انسان لڑے بھی تو کس سے ؟؟؟
نہ دیکھ کر خاموش رہا جاتا ہے, نہ ہی کچھ کیا جاتا ہے بےبسی کا عالم دل و دماغ کو نڈھال کئے ہے ……
اس بیچ مظلوم, بےسہارا بہنوں کی درد بھری سسکیاں ہمارے قلب کو جھنجوڑ رہی ہیں بھلے آج ہم اپنے شہر اپنے گھر میں سکون کی سانس لے رہے ہیں, آرام دہ زندگی بسر کررہے ہیں لیکن یقین جانیں وہ سانس وہ زندگی ہمارے لئے حرام ہے جو ہمیں اپنوں کے درد کا احساس نہ دلاسکے , مسلمان اس قدر بےحس تو نہیں ہوسکتا جو اپنوں کو تکلیف میں دیکھ اُن کا درد محسوس نہ کرے …

یوں تو سوشیل میڈیا پہ ہر دن دل دہلادینے والی کئی ویڈیوس وائرل ہورہی ہیں لیکن چند لوگ اُس کو فیک ایڈیٹ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں, مانا چند ویڈیوس فیک ایڈیٹ ہوسکتی ہیں لیکن اُن ویڈیوس کا کیا جو جانے مانے بیباک صحافیوں نے اپنی جان پر کھیل کر خود جائے وارداد کی حقائق کو اپنے کیمروں میں قید کی ہیں, متاثرہ افراد سے بات کرتے ہوئے وہاں کے خوفناک حالات سے دنیا کو روبرو کروارہے ہیں . جسے دیکھنے کے بعد زندگی موت سے بدتر محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ ہر طرف قیامت کا منظر ہے اور جب میڈیا کے آگے ہماری مظلوم بہنوں نے اپنی آب بیتی سنائی تو جسم کے رونکٹے کھڑے ہوگئے .

متاثرہ بہن کا کہنا ہے ہماری مسجد میں عشاء کا وقت تھا جب ہم بھاگے, مسجد میں امام صاحب اذان دے رہے تھے اور پڑوسی نماز پڑھ رہے تھے دنگائیوں نے انہیں جان سے مار ڈالا اور پڑوس کے ہندو جو ساتھ میں کام کرتے تھے انہونے ہمیں بھی فون کرکے بلایا کہ آجاؤ آپ اپنی مشین نکال لو آکر, آپ کا گھر بالکل صحیح سلامت ہے اور جب میرے بھائ گئے تو جانے کے بعد میرے بھائ کی ٹانگ توڑدی , چھوری لے کر کاٹنے جارہے تھے تو ہم نے اُن کے پیر پکڑے ہاتھ جوڑے کے بھیا چھوڑ دو اتنے میں بڑی مشکل سے ایمبولینس آئی اور لے گئی ورنہ میرے تینوں بھائی آور باپ کو یہ لوگ کاٹ دیتے , انہونے گھر کا سارا سامان برباد کردیا , متاثرہ کی بھابی 3,4 ماہ کے بچے کو گود میں لئے روتے بلکتے کہہ رہی تھی میرے شوہر کی گردن پہ چھوری رکھ کر پیر میں گولی ماری گئی ہمارا سب کچھ برباد ہوگیا ہم بےسہارا ہوگئے ان کے ساتھ ایک اور خاتون کا کہنا ہے بےگناہ مسلمانوں کو گولی مار کے ٹانگ کاٹ کر نالے میں پھینک رہے ہیں , چہرے پہ تیزاب ڈالا جارہا ہے ……..
ایک اور متاثرہ کا کہنا تھا آر ایس ایس کے غنڈے 2 , 3 دنوں سے جبرا گھروں میں گھُس کر 12 ,13 سال کی بچیوں کے ساتھ غلط حرکتیں کررہے تھے, پولس سے شکایت کے باوجود وہ ان غنڈوں کو روک نہیں پائی , آج بھی کئی بچیاں اس قدر گھبرائی ہوئی ہیں کہ وہ دوبارہ اپنے گھروں کو لوٹنا نہیں چاہتی
اس کے علاوہ کئی بہنوں کا یہ بھی کہنا ہے جو بھی اپنے گھر کی خیر خبر لینے یا کچھ سامان لینے کے غرض سے جارہا ہے اُس کو خود محلے والے اور آر ایس ایس کے غنڈے ڈرا دھمکا کر بھگارہے ہیں آور ایک آدھ جگہوں پہ تو سیدھے سیدھے گولی ماری جارہی ہے حال ہی کی بات ہے 4 آدمی گئے تھے جس میں ایک کو گولی ماردی گئی, ایک کو کاٹ دیا گیا, ایک بچ گیا اور ایک کو جلادیا گیا, مسجد میں بھی تین بزرگ بیٹھے ہوئے تھے جن کا نہ احتجاج سے کوئی لینا دینا تھا نہ ہی کسی طرح کے مظاہروں سے وابسطہ تھے وہ تو بس عبادت کرتے ہوئے آرام سے بیٹھے تھے انہیں بھی کاٹ دیا گیا پھر مسجد کو جلادیا گیا , اسی طرح پوری دہلی میں ناجانے کتنی ہی مسجدوں کو نظرآتش کردیا گیا ہے, کلام پاک سے لے کر سارا سامان کتابیں سب کچھ جل کر راکھ ہوچکے ہیں , نمازیوں کو کاٹا جارہا ہے, یا گولی ماری جارہی, گھروں کو اہل خانہ کے ساتھ ہی سلینڈرپھوڑ کے آگ کے حوالے کردیا گیا , زندگی بھر کی جمع پونجی جلاکر خاک کردی گئی, ماؤں کی کوکھ اُجاڑدی , باپ کا سہارا چھین لیا, بیوی کا سہاگ اور معصوم بچوں سے اُں کا سرپرست چھین لیا گیا ہے جدھر دیکھو ماتم, ہر آنکھ اشک بار, ہر دل اداس, ہر گھر کھنڈر, ہر آنگن سونی, ہر گلی ویران قیامت سا منظر ہے, پولس خود جئے شری رام کے نعرے لگارہی ہے, ” آزادی چاہئیے, یہ لو آزادی کہہ کر گولی مار رہی ہے ", تو کہیں کپل مشرا اور انوراگ جیسے بی جے پی لیڈراں دیش کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو جیسے نفرت انگیز سلوگن پکار کر لوگوں کے اندر نفرت کا زہر گھول رہے ہیں آج جس طرح سے دلی جلا ہے اُس کا اصل ذمہ دار کپل مشرا جیسے کئی بھاجپائی لیڈراں , سنگھی پولس اور آر ایس ایس کے غنڈے ہیں جن میں پہلی بار گولی باری کرنے والا رام بھکت گوپال تھا جس کو نابالغ کہہ کر چھوڑ دیا گیا , دوسرا کپل تھا اُس کو بھی سزا نہیں دی گئی, جبکہ اپنی دفاء میں ہوا میں گولی چلانے والے شاہ رُخ کو گرفتار کرلیا گیا ہے , عام آدمی پارٹی کے مسلم نیتا طاہر حسین کو مورد الزام ٹہرایا جارہا ہے جبکہ آئی بی آفسر انکت شرما کی فیملی خود کہہ رہی ہے کہ اُس معصوم کا قتل پولس اور دنگائیوں نے کیا ہے باوجود مسلمان ہونے کی وجہ سے آج مظلوم کو ظالم بناکر دکھایا جارہا ہے ………

اور شیووہار کی خواتین و بچیاں جہاں پہ پناہ گزیر ہیں وہاں نہ اُن کے پاس پہننے کو ایک عدد کپڑا ہے نہ کھانے کو کھانا اُس پہ رات گئے کبھی بھی آر ایس ایس کے غنڈے بدمعاش انہیں ڈرانے خوفزدہ کرنے کے خاطر ہتھیار سے لیس جبرا گھس کے آجاتے ہیں , اپنا سامان لینے گئی چار 4 عورتوں کو اٹھاکر گاڑی میں لے گئے, کہاں لے گئے کیوں لے گئے اُن کے ساتھ کیا کیا گیا آج تک کسی کو نہیں پتہ چلا اور پولس ان کو ڈھونڈنے, بچیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے سیکشن 144 لگاکر مسلمانوں کو پریشان کررہی ہے, نوجوان بھائیوں کو جو رات رات بھر جاگ کر ماں بہنوں کی حفاظت کررہے ہیں بلاوجہ ان کی گرفتاریاں کررہی ہیں صرف اُس علاقے سے تقریبا 150 سے ذائد نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا , خود پہ ہوئے مظالم کی شکایت درج کرانے گئے مظلومین پہ جھوٹے الزامات لگا کر انہیں ہی ہراست میں لے رہی ہے اور دوسری جانب دنگائیوں کو کھُلی چھوٹ دے کر اُن کی پُشت پناہی کی جارہی ہے, نالیوں سے 70 لاشین ملی ہیں …..

یہ تھا مظلوم بہنوں کی زبانی اُن کی اپنی آب بیتی . جس کو لکھتے ہوئے قلم بھی کانپ اٹھتا ہے کاغذ آنسوؤں سے تر ہورہا ہے یہ صرف چند معصوموں کی داستانیں ہیں جس کو ہم نے قلم بند کیا ہے اس کے علاوہ بھی کئی کئی ایسی داستانیں ہیں جس کو لکھنا ہمارے بس میں نہیں , ایک آنگن کے دو چراغوں کے جنازے ساتھ اٹھائے گئے ہیں, ایک بھائی دوسرے بھائی کی سوکھی ہڈیاں ہاتھ میں اٹھائے کھڑا ہے, 12 دن کی دلہن جس کے ہاتھوں کی مہندی بھی ابھی پھیکی نہ پڑی تھی وہ بیوہ بن گئی ہے, 250 اسکول بچے آج بھی لاپتہ ہیں, نا کوئی پوچھنے والا ہے نہ ہی دیکھنے والا, انصاف کی بات تو بہت دور کی ہے آج یہ مظلوم بدن چھپانے کے لئے بھی محتاج ہیں, بچے دودھ کے لئے ترس رہے ہیں, کئیوں کے باپ جو دودھ لینے گئے تھے اُن کی لاشیں واپس آئی ہیں آج یہ سارے روہنگیا مہاجروں کی طرح رلیف کیمپس میں رہنے پہ مجبور ہیں ……. اور افسوس اس بیچ کئی ایسے دلال بازار میں اتر چکے ہیں جو ان بیچارون کے نام پہ پیسہ بٹور رہے ہیں اس بات کا خلاصہ ایک بھائی نے میڈیا کے ذریعہ کیا کہ جس کسی کو بھی امداد دینی ہے وہ ڈائریکٹ متاثرہ افراد کو دیں کیونکہ وہ جو امداد دے رہے ہیں وہ اُن تک نہیں پہنچ رہا, یہ ہماری قوم کا سب سے بڑا المیہ ہے.
سنا تھا مرنے کے بعد کفن تک نہیں چھوڑا جاتا لیکن آج یہ حال ہے کہ کفن بھی میسر ہونے نہیں دیا جاتا, لالچ , دنیا پرستی نے مخلصی, ہمدردی کا قتل کردیا ہے

پولس و انتظامیہ کا کردار جو دنگا 4 گھنٹوں میں روکا جاسکتا تھا اُس کو جان بوجھ کر بھڑکنے دیا, پولس کے 100 نمبر پہ 13 ہزار کالس گئی ہیں لیکن بہت ہی دُکھ و شرم سے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات ہے کہ پولس کے کان میں جوں تک نہیں رینگی, ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ منصوبہ بندی , منظم سازش کے تحت کیا گیا ہے جس میں سبھی کی ملی بھگت ہے. سیاستدان تو سیاستدان رکشک کہلانے والی پولس بھی بھکشک بن چکی ہے ایسے میں ایک عام انسان کس پہ یقین کرے . پولس اور دہشتگردوں کے بیچ کا فرق ختم ہوتا جارہا ہے اور ہندوستان کی تاریخ میں خاکی درندگی کی یہ دوسری مثال دیکھنے کو ملی پہلی گجرات 2002 دوسری دہلی 2020
اُس وقت بھی مودی پولس تماشبین بن کر گجرات کو جلتا دیکھ رہی تھی اس وقت بھی دہلی سنگھی پولس پوری دہلی کو جھلستا , دھواں دھواں ہوتا دیکھ دل ہی دل میں یمراج بن کے قہقہے لگارہی تھی , ایسے میں پولس پہ سوال اٹھانے لازم ہیں , کیونکہ یہی تھے جو ثبوت مٹانے کے خاطر کہیں سی سی کیمرے ٹوڑتے نظر آئے تو کہیں خود سے پٹرول چھڑک کر گاڑیوں کو آگ لگارہے تھے اور اب جب سرکاری گنتی کے مطابق پوری دلی سے 40 سے 50 اموات کی بات کہی جارہی ہے ایسے میں جشم دید گواہوں کا صاف کہنا ہے کہ نالیوں سے 70 لاشین نکالی گئی ہیں اس کے علاوہ مساجد میں, گھروں میں جلا کر قتل کئے جانے والے الگ سے , گولی اور ہتھیاروں سے قتل کئے گئے نوجوان الگ , جن کی لاشوں کے ملنے کا سلسلہ لگاتار جاری ہے کئی لوگ ابھی بھی لاپتہ ہیں , ایسے میں میڈیا, انتظامیہ اور سرکار کیونکر خاموش ہے.

خیر پولس کا کردار تو ساری دنیا نے دیکھ ہی لیا ہے, لیکن اس بیچ ہمارے چند سیکولر لیڈران کا کردار بھی مایوس کرنے والا ہے, سوال ہے آخر ان لیڈران نے فساد روکنے کے خاطر کیا کیا ؟
مظلوم مسلمانوں کو بچانے انہیں انصاف دلانے کے خاطر کتنی جدوجہد کی ؟
شروعات بھیم آرمی کے چیف راج چندر شیکھر آزاد سے ہی کرتے ہیں جن کی ایک ویڈیو خوب وائرل ہوئی تھی جس میں انہونے بڑے ہی جوشیلے انداز میں بھاجپائی ,چڈی دھاریوں سے مخاطب ہوکر کچھ یوں کہا تھا کہ ” آپ لوگوں نے سمجھا ہوگا مسلمان کو بچانے صرف مسلمان آئے گا لیکن یہ دیکھو ہم اُن سے آگے ہوں گے اور جہاں مسلمان بھائی کا پسینہ بہے گا وہاں ہم اپنا خون بہایئنگے, اس کے ساتھ جامعہ مسجد کی سیڑھیوں پر بھی کھڑے ہوکر بہت سے وعدے دعوے کئے تھے آخر وہ سب کہاں چلے گئے آخر چندر شیکھر آزاد اور اُن کی آرمی اُن دنوں کہان غائب ہوگئی ؟
خود نہ آسکے تو کوئی بات نہیں کم از کم کسی اور کے ذریعہ ہی لٹتے مرتے مسلمانوں کا ساتھ دیتے, اور وہ کنہیا کمار بھی تو نظر نہیں آئے نہ ہی اُن کا نام سننے کو ملا اور حال ہی میں مسلم ووٹ سے فتح یاب ہوئے گیجریوال جی انہونے تو معاؤن ورتھ رکھ لیا تھا, ان کی جیت پہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ اپنی جھاڑو سے دہشتگردوں کا صفایا کردینگے لیکن افسوس صفایا تو بہت دور کی بات ہے ان سے ان کا عہدہ ان کا پاور تک سنبھالا نہیں گیا ان سے جُڑی ساری امیدیں دلی کی آگ میں دھواں ہوگئی ہیں .

خیر ہم واپس کنہیا کمار , چندر شیکھر آزاد اور تمام دلت بھائیوں کی اور لوٹتے ہیں , کیونکہ اکثر جلسوں میں "دلت مسلم بھائی بھائ” کے نعرے سننے کو ملتے ہیں

لیکن دلی فساد میں دنگائیوں کی شکل میں لوٹ مار, قتل و غارت گری مچانے والوں میں زیادہ تر ان پڑھ گنوار دلت نوجوانوں شامل تھے جنہیں آر ایس ایس اپنے گندے مقاصد اور سازشوں کے لئے ہمیشہ سے استعمال کرتی آئی ہے وہ بھی محض شراب اور 200 , 300 کی قیمت میں ……..
جی ہاں کئی لوگوں کا کہنا ہے دلی میں جن دنگآئیوں نے بربریت کا ننگا ناچ کھیلا اُن میں کثیرتعداد شرابی دلتوں کی تھی جنہونے دوسو, تین سو روپئیے ایک شراب کی بوتل کے خاطر بےگناہ مسلمانوں کا قتل و عام کردیا.
وہ مسلمان جنہونے قدم بہ قدم ان کا ساتھ دیا, ان کے محافظ بن کر برہمنوں کے ظلم وستم سے انہیں نجات دلوائی , انہیں انسان سمجھا , برہمنواد سے لڑ کر انہیں بنیادی حقوق دلوائے, آور آزادی سے لے کر آج بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں
بابا صاحب امبیڈکر کے سمودھاں کو بنانے سے لے کر آج آر ایس ایس کے ہاتھوں سے بچانے کے خاطر جدوجہد کررہے ہیں قربانیاں دے رہے ہیں
لیکن افسوس ہمیں قتل کرتے ہوئے ہمارے ان دلت بھائیوں کے ہاتھ نہیں کانپتے , ان کا ضمیر نہیں جاگتا ……. کاش کاش چندرشیکھر آزاد اور کنہیا کمار جیسے دلت لیڈران اپنے ان گنوار نوجوانوں کی صحیح رہنمائی کرتے ……..
یہاں غورطلب بات یہ بھی ہے کہ
آخر کیوں یہ نوجوان ان سے سنبھلے نہیں جاتے جبکہ ان کی ایک ایک ریلی, جلسے میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بھیڑ جمع ہوجاتی ہے , ایک تقریر کے دوران جب لاکھوں کا ہجوم جمع ہوسکتا ہے تو ایسے مواقعوں پہ جہاں ناحق قتل و غارتگری ہورہی ہو وہاں کیوں اس ہجوم کو اکٹھا کر ڈنگائیوں کو اُن کی اوقات نہیں دکھائی جاتی ؟ کیوں دنگائیوں کو اُلٹے پیر دوڑایا نہیں جاتا ؟ آخر کونسی مجبوری انہیں روکے رکھتی ہے ؟ آخر اس کو ہم سیاست سمجھیں یا ؟؟؟؟؟؟

خیر یہ تو غیر ہیں غیروں سے شکایتیں کیسی گلے کیسے
جبکہ ہمارے اپنے بھی بےحس ہوچکے ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرتے ہوئے 370 کی حمایت میں راتوں رات جنیوا پہنچ گئے, این آر سی کئ تائید کرتے ہوئے امت شاہ کے در تک پہنچ گئے, اُن کے لئے دلی دور ہوگئی
جیتے جی جنہونے حال نہ پوچھا, جیتے جی جو مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا عزم کر بیٹھے تھے وہ مرنے کے بعد اُن کی بربادی کا نظارہ دیکھنے کے لئے پہنچ گئے, اس پہ ہم بس اتنا کہینگے جیتے جی جلائے, مرنے کے بعد پلائے ……..
ویسے جب بھیم آرمی کا ذکر ہوا ہے تو مسلم تنظیموں کا ذکر بھی واجب ہے کیونکہ غیروں کی بےرخی اتنی تکلیف دہ نہیں ہوتی جتنی اذیت اپنوں کی ناکامی پہ ہوتی ہے
جی ہاں ہمیں شکایت ہے اپنی مسلم تنظیموں سے اور اپنے بھائیوں سے یہ شکایت لازم ہے آخر کہاں مرگئے تھے اُس وقت وہ تمام مسلم تنظیمیں جو نوجوانون کو دفاعی ٹرینینگ دینے کے دعوے کرتے ہیں ؟ آخر ان کی ٹریننگ کب اور کس وقت کے لئے ہے ؟……. یہاں پہ ہمارا مقصد حملہ یا پلٹ وار نہیں ہے بلکہ دفائی وار تو کرہی سکتے ہیں, اپنی اُن مظلوم بہنوں, لاچار بھائیوں اور معصوم بچوں کے محافظ کا کردار تو ادا کرہی سکتے تھے جو ماں , بہنیں اُس وقت ڈرتے چھُپتے چھُپاتے ننگا سر ننگے پیر اپنی جان و عصمت بچاتے ہوئے بھاگی ہیں جو آج بھی بےسہارا خوف کے سائے میں جیتے جی تل تل مر رہی ہیں, جن کے آس پاس آج کوئی پرسان حال نہیں ہے اور وہ بیچاری بےبس , مایوس مدد کی آس میں غیروں کو دیکھ رہی ہیں ……. کیونکہ
کل تک جو اجنبی چہروں سے ڈرتی تھی
آج اُن کے ہمسائے ہی اُن کی بربادی کا سامان بن چکے ہیں, ایسے میں کون انہیں دلاسہ دے گا کون اُن کے آنسو پوچھے گا اور کون اُن کے سر پہ شفقت کا ہاتھ رکھے گا ؟……

اس کو ہم ستم ظریفی نہیں تو کیا کہیں ؟؟؟
اتنا سب کچھ ہوجانے کے باوجود آج بھی ہم غیروں پہ آنکھیں موندھ کر یقین کررہے ہیں, خود کی ذمہ داریوں سے پلہ جھاڑتے ہوئے ہر میدان میں غیروں کو مظبوط بنارہے ہیں, اُن کے لئے اسٹیجس سجارہے ہیں , اپنے پاس موجود بیش قیمتی سرمائے کو نظرانداز کر, اصلی ہیرے کو ٹھوکر مار کر کانچ کی چمک سے متاثر ہورہے ہیں ………
خدارا اب تو سمجھ جائیں
اپنے اپنے ہوتے ہیں اور غیر غیر

مسلمان کیسے بھی کیوں نہ ہوں ایک جسم کے مانند ہیں, جسم کا ایک حصہ اگر زخمی ہوجائے تو سارا جسم کرراہتا ضرور ہے
اس لئے خدارا نام حکمت پہ سر کا تاج اوروں کے پیروں تلے نہ ڈال دیں, آج بیشک ہمیں ان کی ضرورت ہے لیکن یاد رہے ان میں بھی مخلص صرف آٹے میں نمک کے برابر ہیں ایک , دو سے متاثر ہوکر سینکڑوں مسلمانوں کے قاتلوں کو نظرانداز نہ کریں اور اس بات کو ذہنشین کرلیں
” آج غیروں کو متحد کرنے سے زیادہ ضروری مسلمانوں کا خود متحد ہونا ہے ” جو ابھی بھی نہیں ہوئے, کوئی اگر خوشفہمی میں ہے تو وہ اُس کی بیوقوفی ہے … یہاں پہ کسی نے کیا خوب کہا ہے ….
سارے گلے شکوے بھلاکے اٹھو
دشمنی جو بھی ہے آپس میں بھلاکے اُٹھو
اب اگر ایک نہ ہوپائے تو مٹ جاؤ گے
خشک پتوں کی تم بھی بکھر جاؤگے
خود کو پہچانو تم لوگ وفا والے ہو
مصطفٰی والے کو مومن ہو خدا والے ہو
کفر دم توڑدے ٹوٹی ہوئی شمشیر کے ساتھ
تم اگر نکل آؤ نعرہ تکبیر کے ساتھ
اپنے اسلام کی تاریخ اُلٹ کر دیکھو
اپنا گذارا ہوا ہر دور پلٹ کر دیکھو
تم پہاڑوں کا جگر چاک کیا کرتے تھے
تم تو دریاؤں کو رُخ موڑ دیا کرتے تھے
پھرتے رہتے تھے شب و روز بیابانوں میں
زندگی کاٹ دیا کرتے تھے میدانوں میں
رہ کے محلوں میں ہر آیت حق بھول گئے
عیش و عشرت میں پیمبر کا سبق بھول گئے
ٹھنڈے کمرے حسین محلون سے نکل کر آؤ
پھر سے تپتے ہوئے سحراؤں میں چل کر آؤ
راہ حق میں بڑھو سامان سفر کا باندھو
تاج ٹھوکر پہ رکھو سار پہ عمامہ باندھو
تم جو چاہو تو زمانے کو ہلا سکتے ہو
فتح کی ایک نئی تاریخ بناسکتے ہو
خود کو پہچانو تو سب اب بھی سنور سکتا ہے
دشمنِ دی کا شیرازا بھی بکھر سکتا ہے

Comments are closed.