Baseerat Online News Portal

حوصلے اپنی جگہ ہیں ،بے بسی اپنی جگہ

شہباز احمد خاور
والد صاحب کی یاد میں:

۲۴اگست 2022 میری زندگی کا سب سے تاریک دن ہے، اچانک گھر سے فون کی گھنٹی بجی اور آواز آئی’’ ابی نہیں رہے‘‘ (انا للہ وانا الیہ راجعون) ۔اس کے بعد فون ہینگ ہو گیا۔ یہ جملہ کہ’’ ابی نہیں رہے‘‘ اتنا گراں گزرا کہ میں اس کیفیت کو اپنے قلم کی گرفت میں نہیں لا سکتا اور درد دل کی وضاحت میرے لیے ناممکن ہے۔
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کی دکھ عابی
سنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے
موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ،لیکن جب کسی کا قریبی یکایک اس دار فانی سے کوچ کر جائے تو صاحب خانہ کی بے بسی عروج پر ہوتی ہے۔ ان کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے۔ کسی کوکچھ سمجھ میں نہیں آتا آخر ہوا کیسے؟ عقل حیران و ششدر رہ جاتا ہے لیکن قرآن کریم کی یہ آیت ’’انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘ہمیں ڈھارس بندھاتا ہے۔
ابی کی وفات سے ۱۰دن قبل مجھے آفس کے کام سے ململ سے پونا جانا ہوا ۔ ابی کی ضد تھی کہ مجھے ایئرپورٹ چھوڑنے جائیں گے۔لاکھ سمجھانے کے باوجود ابی نہیں مانے ۔اوراولاد کی محبت میں شدید دھوپ میں دربھنگہ ائیرپورٹ جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔ادھر باجی احمدآباد سے دربھنگہ پہنچنے والی تھی۔ ہم لوگ دربھنگہ ایئرپورٹ پہنچے۔ باجی اور بہنوئی صاحب ایئر پورٹ کے باہر ہماراانتظار کر رہے تھے۔گاڑی سے اتر کرابی نے معانقہ کیااوررخصت ہو گئے ،کیا پتہ تھا کہ ہم دونوں باپ بیٹوں کی یہ آخری ملاقات ثابت ہوگی ۔حسرت بھری نگاہوں سے ابی نے مجھے دیکھا اور ململ کے لیے روانہ ہوگئے۔
ظہر کی اذان سے قبل ابی اور بھائی انتخاب احمد ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے تھے ،بھائی جان چند دنوں بعد ship پر جانے والے تھے ۔حال ہی میں پاس کیے ہوئے امتحان کا رزلٹ کوریئر کے ذریعے آنے والا تھا جس میں بھائی جان بحیثیت چیف آفیسر جوائن کرنے والے تھے ۔اورالحمدللہ ابی اپنے بچوں کی کامیابی پر بہت خوش تھے۔ وہ زندگی جہاں دس بارہ سالوں سے خوشیاں ہی خوشیاں تھیں کہ اچانک وہاں خزاں نے ڈیرہ ڈال دیا۔ اذان کا وقت ہوا تو بھائی وضو کرنے چلے گئے، واپسی پر دیکھا تو ابی کی آنکھ لگ چکی تھی۔ بھائی نے ابی کو نماز کے لیے جگایا تو ابی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ،دو تین بار جواب نہ ملنے پر بھائی جان کو اندیشہ ہوا ،چچا زاد بھائی شعیب کو آواز دی توانہوں نے بھی ابی کو درد بھرے لہجہ میں پکارالیکن ابی تو ہمیشہ کے لئے اس دار فانی کو خیر آباد کہ چکے تھے۔
میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہ تھا ماں سے
والد کا رشتہ ماں کے بعد تمام انسانوں میں مقدس اور اعلی تصور کیا جاتا ہے۔ باپ ایک ایسا درخت ہے جو آگ اور دھوپ خود برداشت کرتا ہے لیکن اپنی اولاد کو سخت ترین گرمیوں میں بھی ٹھنڈک اور راحت فراہم کرتا ہے۔ میرے ابی کی زندگی میں بہت ساری مشکلات اور پریشانیاں آئیں لیکن اپنی محنت اور جفاکشی کاکبھی صلہ نہیں مانگا۔والدہ محترمہ کے ساتھ مل کر برسوں سلائی مشین چلائی۔اور تمام بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اس قابل بنایا کہ بچے خوش حال زندگی بسر کرسکیں اور والدین کو بھی تھوڑی راحت ملے۔اب بچوں کی خوشحال زندگی دیکھ کر خوش ہونے کا وقت تھا تو خود اس دنیائے فانی سے چل بسے۔
اگرچہ یہ دنیا عارضی ہے ،لیکن بعض اوقات کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن میں والد خاص طور پر شامل ہیں ان کی اچانک جدائی کا سوچ کر سب کچھ اندر سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن لوگوں کی زبانی یہ سن کر خوشی ہوتی ہے کہ میں ایک ایسے باپ کا بیٹا ہوں جنہوں نے اپنی محنت، شوق، لگن دیانتداری اور وفاداری کے ساتھ قائم کردہ اصول و خیالات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اور اس کا عملی اعتراف علاقے کے ہر فرد کو ہے۔
والد صاحب مرحوم کی خدمات:۔
اللہ رب العزت کی جانب سے عطاکردہ مختصر سی زندگی میں انسان قوم و سماج کے لئے بہت کچھ کر گزرتا ہے جس سے معاشرہ کی فلاح و بہبود وابستہ ہوتی ہے ۔رب کے فضل وکرم سے ابی کو قوم و ملت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوا ۔
آؤ حافظ بنائیں:
ململ حفاظ قرآن کی بستی تھی لیکن پچھلے پندرہ سالوں میں حافظوں کی تعداد میں کمی ہوتی جارہی ہے ،جس کے لئے ابی نے ڈاکٹر آفتاب احمد فیصل اور دیگر اہل خیر حضرات کے تعاون سے ۲۰۱۳میں آؤ حافظ بنائیں مہم کا آغاز کیا جس میں ململ و اطراف کے طلباء کو ماہانہ ۵۰۰کی رقم بطور حوصلہ افزائی دینا شروع کیا اور الحمداللہ اس مہم سے تقریبا ۲۰طلباء حافظ ہو چکے ہیں۔
میں جب ماحول میں تیری کمی محسوس کرتا ہوں
تھکی آ نکھوں کے پردے میں نمی محسوس کرتا ہوں
مسجد عثمان:
چاند پورہ محلہ میں مسجد کا ڈھانچہ تیار تھا ،لیکن باضابطہ طور سے مسجد کی شکل نہیں دی گئی تھی اور پلاسٹر کا کام بھی باقی تھا تو ابی، عرفان دادا اور ڈاکٹر صاحب نے مل کر اس کی ذمہ داری لی اور کام شروع کر دیا۔اور۲۰۱۷ میںمسجد پایہ تکمیل کو پہنچی۔
مسجد محسن:
لب ٹولیا نئی بستی میں تقریبا سو گھر کی آبادی ہے اور برسوں سے وہاں مسجد کی کمی محسوس کی جارہی تھی۔ وہاں کے ذمہ داران اس سلسلے میں فکر مند بھی تھے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ لوگ اس سلسلے میں قدم نہیں بڑھا رہے تھے ،والد صاحب مرحوم ،عرفان دادا مرحوم اور ایک شخص نصرل چچا سے ملے اورمسجد کے لیے زمین وقف کرنے کی درخواست کی۔بالآخر انہوں نے اللہ کی راہ میںایک کٹھہ زمین وقف کیا۔جس کے بعد تعمیری کام کا آغاز ہوگیااور اس کی تکمیل میں تقریبا دو سال لگ گئے۔
مسجد الصدیق:
ململ سے قریب ایک بستی اسلام پور ہے ۔جہاں پہلے سے ایک مسجد موجود تھی لیکن مسلکی تضاد کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے ۔وہاں کے چند ذمہ دارحضرات ململ تشریف لائے اور یہاں کے بزرگ ہستیوںاور ذمہ دار حضرات سے درخواست کی کہ مسجد کا انتظام کر دیجئے۔ اس وقت حضرت مولانا وصی احمد صدیقی صاحب حیات سے تھے۔ انہوں نے والد صاحب مرحوم ،جناب عرفان صدیقی صاحب مرحوم اور ڈاکٹرآفتاب صاحب کو اس کی ذمہ داری سونپی ۔بالآخر کافی محنت ولگن کے بعد فنڈ اکٹھا کیا گیا اور تعمیری کام کا آغاز ہوا اور الحمداللہ ابی کی وفات سے دو روز قبل پلاسٹر کا کام مکمل ہو ا۔تھوڑا فنڈنگ کا کام ابھی باقی ہے۔ان شاء اللہ ہم دونوں بھائی مل کر ابی کے بچے ہوئے کام کو پایہء تکمیل کو پہونچائیں گے
مسجد اقصیٰ:۔
کھتوے ٹولہ میں مسجد کی بنیاد ڈالی جا چکی تھی اور کرسی تک کا کام مکمل ہو چکا تھا۔لیکن وسائل اور فنڈ کی کمی کی وجہ سے مہینوں کام بند رہا ۔اس محلہ کے ذمہ داروں نے ابی اور ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب سے رابطہ کیا تو دونوں حضرات نے تھوڑا وقت لے کر کام شروع کر دیا ۔بالآخر یہ کام ۲۰۱۵ میں پایہ تکمیل کو پہونچا۔
سماجی وملی خدمات:۔
والد محترم سماجی اورملی خدمات کے لیے ہمہ وقت ا پنے آپ کو تیا ر رکھتے تھے۔جب بھی کسی نے صدا لگائی ،ابی نے لبیک کہا اور دوڑ کر خدمت میں حاضر ہو گئے۔رمضان کٹ ،عید کٹ اور کرونا کے دور میں مختلف تنظیموں کی جانب سے راشن کٹ تقسیم کرنے کی باری آئی تو ابی نے اپنی گاڑی سے غریبوں اور مستحق لوگوں تک راشن پہونچانے کی ذمہ داری لی۔اس بقرعید کے موقع پر ابی نے قربانی کے گوشت کو خاص طور پر غرباء اور مساکین تک پہونچانے کی تاکید کی تو میں نے اپنے ہاتھوں سے پیکٹ بنا کر کھتوے ٹولہ میں تقسیم کیا اور ابی خود افروز ماموں کے ساتھ پیکٹ بنا کر اسلام پور کے لیے روانہ ہوگئے۔
ابی کی ایک عادت تھی جب بھی کسی نیک کام کا ارادہ کرتے تو خود سے پہل کرتے۔اکثر شام کو افروز ماموں کے گھر کال کر تے اور مستحق لوگوں تک اپنے ہاتھوں سے کٹ پہونچاتے ،جب کوئی پوچھتا کس کی طرف سے ہے تو کہہ دیتے اللہ کے کسی بندے نے تحفہ بھیجا ہے،اور نگاہ نیچی کر کے رخصت ہو جا تے۔اسی طرح اگرمحلہ میں کوئی غریب اپنی بچی کی شادی کے لیے رابطہ کرتا تو ابی کسی ایک چیز کی ذمہ داری اٹھا لیتے اور پھر ہم سب بھائی بہنوئی یا قریبی لوگوں سے فنڈ اکٹھا کرتے اور بخوبی یہ ذمہ داری انجام دیتے۔ابی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جب بھی کوئی غریب ابی کے دروازے پر قرض یا مدد کے لیے آتا تو اسے خالی ہاتھ نہ جانے دیتے کسی نہ کسی فنڈ سے اس کی مدد فرمادیتے۔حدیث شریف میں قرض دینے کی بہت ساری فضیلتیں واردہوئی ہیں ،اور شاید ابی ان فضیلتوں سے بخوبی واقف تھے،اس لیے قرض دینے میں بالکل نہیں ہچکچاتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ جب ابی کی وفات کے بعد ڈائری چیک کیا تو اندازہ ہواکہ بہت سارے لوگوں کے یہا ں ابی کا قرض ہے جو مختلف وقت میں ابی سے لے جایا کرتے تھے اور وقت پرپہنچا دیا کرتے تھے۔
ابی کی زندگی کے آخری دس ،بارہ سال الحمدللہ بہت اچھے اور مفید کاموں میں گزرے ہیں ۔لیکن اخیر دو سالوں سے دل کے مریض تھے ۔pace makerلگانے کے باوجود تکلیف کم نہیں ہوتی تھی،کھانا ہضم نہیں ہوتا تھا،اکثر وبیشتر دودھ روٹی کھا لیا کر تے تھے۔
والد صاحب مرحوم نے اپنی عمر کے تقریبا ۲۰سال گاؤںکی ترقی ،سماجی اور فلاحی خدمات میں گزارا،جس کی وجہ سے اہالیان ململ ان کی جدائی کو ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہیں ۔والد محترم کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری نعمتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ عاجزی ،انکساری اور شرافت کی بہت بڑی دولت عطا کی تھی۔انہوں نے پوری زندگی غم زدہ انسانوں کی دل جوئی میں گزارا ،اس لیے سارا گاؤںان کی بے وقت موت کی وجہ سے غمزد ہ ہے۔
۲۴ اگست کو والد صاحب ہم سے بچھڑگئے۔مگر ا ن کی یاد یں اور ان کی جدائی کا درد آج بھی تازہ ہے ۔ان کی محبت اور شفقت بھرے ہرالفاظ کانوں میں گونجتے ہیں۔اس درد بھرے دل کو کبھی آنسوؤں کے طوفان میں بہا تے ہیں اور کبھی خشک صحرا کی دھوپ میں جلاتے ہیں ۔والد صاحب کی کمی کے باعث میری خوشیاں، میری دنیااور میرے دل کی مسکراہٹ سب ویران پڑ گئے ۔والد صاحب گھر کی تمام رنگینیوں کو اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔اس وقت میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتا ہوں ،مگر ذاتی طور پر میں یا میرے بڑے بھائی اور دیگر بہنیں جو کچھ بھی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور میرے
والدگرامی کی محنت اور دعاؤں کے نتیجہ میں ہیں ۔میرا سر فخر سے بلند ہو جا تا ہے جب لوگ شاندارالفاظ میں والد صاحب کی خدمات ،شفقتوں اور محبتوں کو خراج عقیدت پیش کر تے ہیں۔
میرے والد کا شمار ایسے ہی عظیم لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک اپنی اولاد کی تربیت اور محبت کے لیے وقف کر دیا تھا۔والد کی زندگی میں اولاد معاشرے کے رسم و رواج کے بندھن سے آزاد ہوتا ہے۔باپ خود بھوکا رہ کر اولاد کی پیٹ پالنے میں دن رات ایک کرتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ والد کی شفقت بھری ایک نظر اولاد کو یکدم تر وتازہ کردیتی ہے،اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ باپ کا وجود اولاد کے لیے زندگی میں حوصلہ کا کام کرتی ہے ۔باپ کا رشتہ ان کے چلے جانے سے ٹوٹ نہیں جاتا۔وہ اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ہم سے وابستہ رہتے ہیں ۔ان کی دعائیں ہمیشہ ہمارے پاس ہوتی ہیں ۔ہر باپ کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کر سکے اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کر سکے ۔
مجھ کو چھاؤں میں رکھا خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں
اخیر میں بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوں کہ والد صاحب مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطافرمائے۔ان کے سیئات کو حسنا ت سے مبدل فرمائے۔ان کے ٹوٹے پھوٹے عمل کو ذخیرہ آخرت ثابت کرے اور ہم سب اہل خانہ کو صبر جمیل عطافرمائے۔
آج تک دل کو ہے اس کو لوٹنے کی امید
آج تک ٹھہری ہوئی ہے زندگی اپنی جگہ
لاکھ چاہا اس کو بھول جاؤں ۔۔ ۔۔۔۔
حوصلے اپنی جگہ ہیں ،بے بسی اپنی جگہ

Comments are closed.