Baseerat Online News Portal

آج یہ ہاتھ لرز گئے۔۔۔۔ 

 

ایم ودود ساجد

مشہور شیعہ عالم دین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے ۔۔ انا لله وانا الیہ راجعون ۔۔ خالق کائنات اپنی خاص عنایت سے ان کی مغفرت فرمائے ۔۔۔

میری ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں نہیں رہیں ۔۔ لیکن ان سے میرا تعلق پورے 30 برسوں پر محیط رہا ۔۔ جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے مجھے اپنے سر پر بٹھایا۔۔۔ یہ جملہ بظاہر عجیب سا ہے۔۔۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ ان کے عالی اخلاق کے اظہار کیلئے اس سے زیادہ موزوں کوئی اور جملہ نہیں ہے۔۔۔

1995 میں سہارنپور کی چند معروف اور سماجی طور پر سرگرم شخصیات کے ایک گروپ نے مجھے صحافتی خدمات کیلئے ایک ایوارڈ سے نوازا تھا۔۔۔ میں اپنے موقف کے تحت عام طور پر سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے ایوارڈ قبول نہیں کرتا۔۔۔ لیکن یہ ایوارڈ میری بے بضاعتی کے باوجود میرے ہم وطن افراد نے دیا تھا۔۔ اس لئے میرے نزدیک پہلے ہی اس کی ایک قدرومنزلت تھی۔۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ یہ ایوارڈ مجھے مولانا کلب صادق کے ہاتھوں دلوایا گیا تھا۔۔۔

2010 میں جب میں نے مولانا کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد ہونے والی 40 روزہ پرسنالٹی ڈویلپمنٹ ورکشاپ میں مشاہدہ کرنے کی غرض سے دعوت دی تو مولانا بخوشی وقت مقررہ سے دس منٹ پہلے ہال کے باہر پہنچ کر کھڑے ہوگئے ۔۔ میں چونکہ خود باہر تھا لہذا جب میں وقت مقررہ سے تین منٹ پہلے پہنچا اور مولانا کو فون کرکے اطلاع دی کہ میں آپ کے کمرہ کے باہر ہوں تو مولانا نے بتایا کہ میں پروگرام ہال کے باہر آپ کا منتظر ہوں ۔۔۔

مولانا نے 20 منٹ تک کلاس کا مشاہدہ کیا۔۔۔ میں نے درخواست کی کہ شرکاء کو شخصیت سازی کے تعلق سے کچھ نصیحت فرمادیجئے تو تیار ہوگئے ۔۔۔ میں نے مولانا کا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ بذات خود کتنی بڑی علمی شخصیت ہیں اور یہ بھی کہ وہ کتنے ہی اعلی معیار کے اسکول اور میڈیکل کالج اور ایک شاندار ہسپتال بھی چلا رہے ہیں ۔۔۔ میں نے یہ بھی کہا کہ مولانا سے میرا ذاتی خصوصی تعلق یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں ميں ایوارڈ بھی وصول کرچکا ہوں ۔۔۔

جب مولانا نے مائک سنبھالا تو حمدوثنا اور صلوۃ وسلام کے بعد جو پہلی بات کہی وہ ان کے اعلی اخلاق کے ثبوت کیلئے کافی تھی۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ودود ساجد صاحب نے ایوارڈ کی بات کی۔۔۔۔ واقعہ یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں سے ایوارڈ سپرد کرنے والے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔۔۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ایوارڈ کن ہاتھوں نے وصول کیا۔۔۔۔

Comments are closed.