Baseerat Online News Portal

ارریہ کی صحافت کا ایک معتبرحوالہ:صحافی عارف اقبال

عارف حسین طیبی
9199998415

عارف اقبال خوبصورت شکل و شباہت کے مالک، انتہا درجے کا بااصول، انقلابی فکرو نظر کے حامل، متدین،متواضع، خوش اخلاق، ملنسار، علم دوست اور اہل علم کا قدرداں زیرک نوجوان صحافی ہیں۔ علمی، دینی، ادبی،فکری،سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ان کی شخصیت معروف ہے۔ شعبہ صحافت کے باوقار پیشہ سے جڑے رہنے کے باوجود علمی گہرائی،فکر و شعور کی آگہی اور عصری تقاضوں سے واقفیت قابل دید ہے۔ جرنلزم سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں، گوکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں۔ صحافتی دنیا میں قدم رکھے ابھی چند سال ہوئے لیکن گذشتہ دو سالوں سے ضلع ارریہ بہار میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ کی حیثیت سے جو مقبولیت اور عوام کا اعتبار حاصل کیا ہے وہ بہت کم صحافیوں کے حصے میں آیا۔
برادرم عارف اقبال کم عمری میں ہی اپنی عوامی مقبولیت میں چار چاند لگا چکے ہیں، اپنے پیشے سے حد درجہ محبت کرنے والا متھلانچل کا یہ لعل و گوہراپنی منزل آسمان کی وسعتوں سے بھی اونچی متعین کی ہے، شاید اسلئے وہ بحر بیکراں کیطرح خاموش شور بن کر اپنی منزل کے طرف رواں دواں ہیں۔ واضح رہے کہ ضلع ارریہ سمیت خطہ سیمانچل اپنی زمینی حقیقت کے نشیب و فراز کے بہت سے ادوار دیکھے ہیں، بالخصوص گذشتہ دو سالوں میں بہت سی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں جس میں سیاسی، سماجی، معاشرتی اور تہذیبی صورت حال شامل ہے، ایک طرف جہاں سیاسی اعتبار سے عوام الناس بالخصوص نوجوانوں میں بیداری آئی ہے وہیں سماجی اور معاشرتی اعتبار سے سماج کا ہر طبقہ ذہنی شعور کی پختگی اور فکری ہم آہنگی کی آئینہ دار بنے ہیں، لوگوں میں علم و آگہی اور سیاسی اور سماجی طینت کے پرکھنے کا شعور جس ذرائع سے حاصل ہوئی ہے اس میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کا کردار نمایا ہے، موجودہ وقت جہاں ایک طرف اس ملک میں وہ کردار بھی کم نہیں جنہوں نے خود غرضی، حرص و طمع اور مفاد پرستی کے ذریعے صحافت جیسے باوقار پیشے کو داغدار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے،وہیں عارف اقبال جیسے آسمان صحافت میں وہ درخشندہ ستارے بھی ہیں جو بے باک اور بے خوف صحافتی کردار کے ذریعے شب ظلمت کو ایوان سحر میں تبدیل کرنے اور طوفان کا منہ موڑنے میں ایک اہم رول ادا کر رہے ہیں، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا کی حکومتیں صداقت پسند میڈیائی طاقتوں سے خائف ہوکر ان کی آزادنہ آواز کو دبانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، حالانکہ دنیا بھر میں ”میڈیا“ ایک طاقت کی اکائی مانا جاتا ہے۔
عارف اقبال سے راقم الحروف کی سناشائی بہت پرانی تو نہیں ہے لیکن انکی صحافتی سرگرمیوں کو ایک عرصہ دراز سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملتا رہا ہے، تلاش بسیار کے بعد آخر کار ایک دن موصوف سے ملاقات بھی ہوگئی اور چند ہی ملاقاتوں میں ان کے صحافتی کار کردگی کو بہت قریب سے جاننے اور سمجھنے کاموقع ملا، یقینا اپنے کام کے تئیں محنت، لگن،جانفشانی اور عرق ریزی کا سبق ان کی زندگی سے ہمیں ملتا ہے۔چونکہ صحافت ایک ایسا حلقہ ہے جہاں صحافیوں کو ایک ایک منٹ پکڑ کر رکھنا پڑتا ہے، زندگی میں وقت کی قدر و قیمت ایک صحافی سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا،عارف اقبال نے اپنے صحافت کی اس مختصر زندگی میں وقت کا بہترین استعمال کیا ہے، ایک طرف جہاں وہ بحیثیت صحافی پوری ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ ارریہ ضلع کے قدیم سے قدیم مسائل کو عوامی نمائندگان اور حکومت وقت کے سامنے پیش کرتے رہیں وہیں دوسری جانب صحافیانہ مصروفیات سے تھوڑا وقت نکال کر تصنیف و تالیف کا کام بھی انجام دیتے رہیں۔موصوف اچھے صحافی کے ساتھ ایک بہترین اور مستند مصنف و مرتب بھی ہیں۔عارف اقبال کی زندگی سے یہ سبق صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے والے نواردوں کے لئے انتہائی اہم اور با معنی ہے۔موصوف بڑی مستعدی کیساتھ میدان عمل میں اپنی احساس ذمہ داری کو بنھانے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے ہیں، انکے علاوہ اور بھی میری سناشائی ارریہ کے دیگر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے جڑے افراد سے اچھی خاصی ہے،لیکن عارف اقبال صاحب کا بلند اقبال کچھ اور ہی بیاں کرتی ہے۔ گراؤنڈ زیرو میں نہایت ہی متحرک اور فعال رہنے والا یہ شخص ہزاروں کی جم غفیر میں بھی اپنی ایک امتیازی بول بالا رکھتے ہیں، عارف اقبال نے ارریہ کی صحافتی اقدار کو اعلیٰ پہچان اور نئی طاقت عطا کی ہے جس سے سیمانچل کے نو آموز صحافی اب تک نا آشنا تھے،صحافت کے ہر محاذ پر سیاسی، سماجی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی باسبانی آپکا طرہ امتیاز ہے۔صحافتی اقدار کی بلندی اور مثبت صحافت کے فروغ کے لئے آپ نے ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا،آپ کی انتھک کوششوں کے بدولت صحافتی اصطلاحات اور خبروں کے بیان کے تکنیکی معیار میں جو تبدیلی آئی ہے وہ حیران کن اور ناقابل یقین ہے۔ آپکی رشحات فکر و نظر نے فنی وسعتوں کو جو عروض بخشا ہے اس سے تصوراتی دریچوں کے روشن باب کھلے ہیں، مبتدی صحافی کے لئے آپ کا بے باک کردار آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے، مصلحت پسندی، مفاد پرستی اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ظلم و استبداد کے خلاف اپنی پنجہ آرائی کے جو جوہر دکھائے ہیں یقینا اس سے گودی میڈیا کے حوصلوں کو گرہن لگاہے اور سچ کی آواز کو پرواز کرنے کا کھلی فضا ہموار ہوئی ہے۔عارف اقبال نے ارریہ میں بدنظمی، ناانصافی، حق تلفی اور کرپشن کے سدباب کے لئے صحافتی زاویہ سے جو اہم اقدامات کئے ہیں انہیں نظرانداز اور نہ ہی فراموش کیا جا سکتا ہے۔موصوف نے سیاسی، سماجی، معاشرتی، ادبی، لسانی، اقتصادی اور ذہنی انقلاب کے لئے زمین ہموار کرنے کی کوشش کی ہے،وہ بھی ایسے وقت میں جب حق وصداقت کی آواز کو حکومتی اداروں کے ذریعے بندشوں میں جکڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
صحافی عارف اقبال خبروں کے تئیں بیحد سنجیدگی و متانت کا مظاہرہ کرتے ہیں،خبروں کی جستجو اور حقائق کی چھان بین کے لئے پر خطر راستوں کو عبور کرنے کی جسارت و جرات انکی صحافتی جوانمردی اور جفاکشی کا غماز ہے، انہیں مثبت رویوں کی وجہ سے اب تک ارریہ کی تاریخ میں اس سے زیادہ روشن دماغ، مخلص بے لاگ اور اپنے صحافتی ذمہ داری کے تئیں بے لوث جرنلسٹ ناچیز کو نہیں ملا۔ہمیشہ حق و صداقت کی وادی کی تلاش میں خاردار جھاڑی کی طرف جانے والے راستے کا انتخاب کیا اور اصحاب اقتدار ملک اور سماج کی خستہ حالی،بے بسی اور بے چارگی کی سچی تصویر دکھانے کے لئے جس طرح کے مشکل اورکانٹوں بھرا راستوں کو عبور کرکے رپورٹنگ کی ہے یقینا ایسے نظارے صحافت کے زریں ادوار کی یادیں تازہ کرتی ہیں۔ادھر چند سالوں میں صحافت اور صحافیوں کی کارگردگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا آج کی صحافت چمکتے اسٹوڈیو اور چنندہ جگہوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ ثقافتی پروگرام، سمینار، جلسہ جلوس،احتجاج و مظاہرہ، تھانہ عدلیہ یا کالج ہسپتال کے ارد گرد ہی صحافی کی نظر مرکوز ہو گئی ہے۔بہت کم ایسے صحافی ہیں جن کی نظر ان کے علاوہ گاؤں صدور کے مسائل کی طرف جاتی ہے۔ اس معاملے میں عارف اقبال اسم بامسمٰی ہیں، انہوں نے اپنی صحافت میں گاؤں دیہات کی زندگی بڑے قرینے سے نہ صرف پیش کی ہے بلکہ دیہی علاقوں کے ان مسائل کو بھی ابھارا ہے جس سے خود اہل ارریہ ناآشنا تھے۔ مجھے آج بھی ان کی وہ تاریخی رپورٹنگ اچھی طرح یاد ہے جو انہوں نے اب سے دو سال قبل کلہیا سماج کی بد حالی اور تعلیمی پس ماندگی اور گذشتہ ستر سالوں سے کلیہا برادری کے لوگوں کا سماجی، سیاسی استحصال کی پوری کہانی بڑی ہی بے باکی سے ملک اور سماج کے سامنے لانے کی جرات کی تھی۔ پہلی بار مجھے بھی ان کی رپورٹنگ سے معلوم ہوا کہ کلہیا سماج سے جڑے افراد کی تعداد خطہ سیمانچل میں تیس لاکھ سے بھی زیادہ ہے، حالانکہ ناچیز کا تعلق خود کلیہا برادری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کلیہا برادری پر ان کی یہ رپورٹنگ ایک دستاویزی تھی جو ارریہ کی تاریخ میں اس سے پہلے کسی بھی میڈیا گروپ یا ان کے اہلکار ملک اور سماج کے سامنے لانے کی جرات نہیں کر سکے۔ عارف اقبال کا ای ٹی وی بھارت کے لئے ارریہ کی سینکڑوں ایسی رپورٹنگ ہے جو تاریخی اور دستاویزی ہے۔ جس میں آزادی کے 73سال بعد بھی جھمٹا گاؤں میں ایک عدد پل کا نہ ہونا،بہار کے دل میں بستا پاکستان، رمڑئی گاؤں کی ناخواندگی اور پس ماندگی،در در کی ٹھوکریں کھاتابنجارہ سماج،ڈجیٹل انڈیا کا ایک ایسا گاؤں جو ایک عدد پل کو ترس رہا ہے،ارریہ کی کہانی گردش زمانہ کی زبانی،ارریہ کا ایک گاؤں جہاں بانس کے بلے ہیں جنازہ کے سہارا،ارریہ کالج جہاں سات ہزار طلباء پر ہیں محض سات اساتذہ،ارریہ کادارالقضاء جہاں مسلمانوں کے سماجی اور شرعی مسائل حل کئے جاتے ہیں،آزاد اکیڈمی کے احاطے میں واقع گرلز اقلیتی ہاسٹل جو بن گیا نشہ کا اڈہ،طلاق ثلاثہ بل پر ارریہ کی خواتین کا جرات مندانہ رد عمل وغیرہ قابل ذکر اسٹوری ہے۔ عارف اقبال کی یہ ایسی رپورٹنگ تھی جس میں سماج اور معاشرے کا درد، غریبوں اور بے سہاروں کا کرب و چبھن اور دیہی علاقوں کی پسماندگی کے احوال و کوائف کو بہت ہی واضح منفرد انداز میں عکاسی کی گئی ہے اور ارباب اقتدار کی بے حسی اور مردہ ضمیری پر ماتم کیا گیا ہے۔ان علاقوں کی گراؤنڈ رپورٹنگ کے لئے کبھی آپ نے بھینس کی سواری، بیل گاڑی، ندی کے بھنور میں ناؤں کاسہارالیاتو کبھی گرمی کی سخت دھوپ اور اڑتی دھول کی پرواہ کئے بغیر میلوپاؤں پیدل سفر طے کیا۔ علاوہ ازیں بدحال سینکڑوں گاؤں کی تصویر مرکزی اور ریاستی حکومتوں تک پہونچانے کا بے باکانہ قدم اورجرات و حوصلہ مندی کی طاقتور مثال ہے اور انکی یہ فکری ہم آہنگی ارریہ سمیت سیمانچل کے صحافت کا بڑا معتبر حوالہ بھی ہیں۔
اب عوام سمیت اہل علم و دانش کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس گوہر نایاب اور نعمت بے بہا کو اپنے دامن احساس میں سمیٹے رکھیں تاکہ مستقبل میں ان کی صحافتی شعاؤں سے ہماری نسل نو مستفیض ہوسکے۔

Comments are closed.