Baseerat Online News Portal

اورنگ آباد اور عثمان آباد کے ناموں کی تبدیلی کے پیچھے ادھو ٹھاکرے کے ایک تیر سے کئی نشان

ذوالقرنین احمد
ادھو ٹھاکرے نے جاتے جاتے اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام کو تبدیل کرنے کا جو فیصلہ لیا ہے اسکے پیچھے بہت ہی شاطرانہ چال چلی گئی ہے ، کیونکہ آج سپریم کورٹ کے آرڈر کے مطابق مہاراشٹر حکومت کیلئے فلور ٹیسٹ ہونے والا ہے اور مہاوکاس اگھاڑی سے عوام کی جو امیدیں وابستہ تھی اور عوام کا اعتماد بھی اس پر بڑھ رہا تھا، جبکہ مہاراشٹر بی جے پی سے لے کر مرکزی حکومت نے مہاراشٹر حکومت کو گرانے کیلئے غیر قانونی اور غیر آئینی چالیں چلی ہے۔ جنہوں نے جمہوریت کو صرف اپنے سرکشا کوچھ کے طور پر استعمال کیا ہے اور جس جگہ اپنے مفادات کی بات ہو وہاں جمہوریت کا قتل کیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے ایک تیر سے کئی نشان کیے ہیں جیسے کرسی جانے کے ڈر سے اپنا ہندوتوا ایجنڈے کا استعمال کیا کہ وہ اب بھی پوری طرح سے ہندوتوا پر قائم ہے اسی طرح مہاوکاس اگھاڑی کو کافی نقصان پہنچانے کا کام کیا ہے جو مہاوکاس اگھاڑی کے دوبارہ مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونے میں کافی مشکل ثابت ہوگا، اور ایک اہم بات یہ ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے کانگریس کی بھی کمر توڑنے کی کوشش کی ہے کیونکہ کانگریس میں جتنی بھی مسلم لیڈر شپ ہے جو عوام کی وجہ سے لیڈر بنے ہوئے ہیں تاریخی شہر جسکی تاریخ بڑی سنہری ہے اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام تبدیل کرنے کی وجہ سے اقلیتی لیڈران میں ناراضگی دیکھنے مل رہی ہے اور اگر وہ ناراض نہ بھی ہوگے تو عوام اس فیصلہ سے ناراض ہیں۔ اس وجہ سے عوام کا اعتماد کانگریس پارٹی سے اٹھ چکا ہے اور اسی وجہ سے کانگریس کے تقریباً 200دو سو عہدے داران نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان تمام کے پیچھے کا جو کھیل ہے کہیں نہ کہیں اس میں سے منافقت کی بو آتی لگ رہی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پھر ایک بار مہاراشٹر میں سیکولر حکومت کا اقتدار میں آنا بے حد مشکل ثابت ہوگا جو کہ کانگریس کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ ادھو ٹھاکرے اگر یہ شوشہ نا چھوڑتے تو کانگریس کو نقصان نہ اٹھانا پڑتا اور نا ہی آئندہ انتخابات کیلئے مہاوکاس اگھاڑی میں پھوٹ ہونے کا امکان ہوتا۔ اور ادھو ٹھاکرے نے جو باغی ایم ایل ایز کے بی جے پی میں جانے پر جو سخت موقف اختیار کرتے ہوئے بی جے پی میں جانے سے انکار کیا تھا اس فیصلہ کا مہاراشٹر کی عوام نے خیر مقدم کیا تھا اس پر عوام کا اعتماد بھی بڑھا تھا لیکن ادھو ٹھاکرے نے اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کا کام کیا ہے۔ عوام اس فیصلہ کو ہرگز قبول نہیں کریں گی۔ کیونکہ تاریخ کو اگر ہزاروں بار بھی نئی قلم سے لکھا جائے اسے بدلا نہیں جاسکتا۔

Comments are closed.