Baseerat Online News Portal

اٹھ باندھ کمرکیا ڈرتے ہو!کستوربا گاندھی ودیالیہ

وی ۔چناویرا بھدراڈو
کمشنر آف اسکول ایجوکیشن آندھراپردیش
مترجم: شیخ ۔عبدالغنی کونینؔ محلوی
معزز قارئین ۔۔۔!
چندرا شیکھر پورم نامی گاؤں ویلی گونڈا منڈل کے احاطے میں ضلع پرکاشم میں واقع ہے اس گاؤں کا محل وقوع ضلع کڈپہ کی سرحد سے متصل ہے۔سڑکیں پختہ نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں تک رسائی بہت ہی مشکل ترین مرحلہ رہا۔ ۸ مارچ بروز اتوار مجھے اس گاؤں تک پہنچنے کے لئے کافی ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا۔
وہ اس لئے کہ میں آپ کو بتلاتا چلوں! سمگرا سکشھا کے زیر اہتمام اس گاؤں میں کستوربا گاندھی ودیالیہ قائم کیا گیا ہے۔زیر تعلیم طالبات کے طعام وقیام، میڈیکل چیک اپ، تعلیمی سہولیات سے لیس تدریسی واکتسابی وسائل کی سربراہی سمگرا سکشھا کے ماتحت ہوتی ہے۔بحیثیت اسٹیٹ پروجکٹ ڈائرکٹر مجھے منصوبہ بند طورپر معائنہ کے لئے جانا ہوا تاکہ گذشتہ تین ماہ قبل عمل میں لائے گئے ایک اختراعی پروگرام کے نتائج سے واقف ہونا میرا مقصد تھا۔
اس ودیالیہ میں زیر تعلیم بیشتر طالبات ، سماجی معاشی اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ان طالبات کے لئے ایک نئے سرے سے کمپیوٹر کوڈنگ Computer Codingکورس شروع کیا گیا ہے اکتساب کو فروغ دیتے ہوئے ہمہ گیر مہارتوں کی حصولیابی میں گذشتہ تین ماہ قبل شروع کئے گئے کورس کی معیاد تین ماہ پر مشتمل تھی۔مجھے پتہ چلا کہ اب یہ کورس آخری مرحلے کی طرف گامزن ہے۔تو میں نے ارادتاً ان طالبات سے ملنے کے لئے منصوبہ بنایا ۔ان نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے مری ذات میں عجیب سا اشتیاق جنم لے چکاتھا تو بالآخر سفرکے کئ ایک ناقابل برداشت صعوبتوں کا سامنا کرتے ہوئے چندراشیکھر پورم پہنچ ہی گیا۔
آج معاشرہ کا ہر فرد نفسیاتی طورپر منتشر ہے۔وہ ہے انگریزی زبان زریعہ تعلیم کا رجحان ۔سماج کا ایک بڑا طبقہ یہ فیصلہ کرنے سے مجبور ہے کہ ان کے اپنے بچے مادری زبان تلگو کو زریعہ تعلیم اپنایئں یا زبان انگریزی ۔۔؟ ان دونوں زبانوں کے علاوہ اس دنیاں میں ایک اور نئ زبان نے جنم لیا ہے وہ زبان ہے کوڈنگ Coding۔مستقبل کا دارومداربچوںکے تصوراتی غور وفکر کی تعمیر کی بناپرComputational Thinking گامزن ہوجائے اس میں کوئی احتمال نہیں۔کسی بھی جملہ سازی کے لئے موضوع subject, مقصد object, اور عمل process کے تحت ہم قواعد Grammer کا استعمال کرتے ہیںاور سیکھ پاتے ہیں ۔بسا اوقات مختلف اشاروں کو ہم بطور ان پٹ Input استعمال کرتے ہیں۔ حتّی کہ علم نحو Syntax کے لئے بھی بچوں میں جدید پیشہ وارانہ مہارتوں کو فروغ دینا ضروری ہوجاتاہے۔
ہم اکیسویں صدی میں قدم تو ضرور رکھ چکے ہیں۔لیکن ہماری ریاست کے اکثر سرکاری اور خانگی مدارس میں تلگو کے حرف تہجی سکھانے کے لئے وہی قدامت پسندانہ طریقہ اپنایا جارہا ہے۔جہاں تختیوں اور قلموں کا بڑی مقدار میں استعمال کیاجاتاہے۔جس کا بہت بڑا خمیازہ یہ کہ بچے مدرسہ کے ابتدائی دو یا تین سال تک محض حرف تہجی پر مشق کرتے کرتے اپنے بے پناہ مخفی صلاحییتوں کو جلاء دینے سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ہائے رے ستم ظریفی ۔۔! ایک طرف ڈیجیٹل لیرننگ Digital Learning کا بول بالا ہے، تو دوسری طرف درس و اکتسابی عمل میں لازمی جزو بن گیا ہے جب کہ ہمارے مدراس میں وہی رٹو طریقہ، ازبر کروانا اور مشق یابی پر انحصار کررہے ہیں۔
میرے خیال میں بچے، چاہے سماجی، معاشی طور پر پسماندہ کیوں ہی نہ ہوں۔ باوجود اس کے انہیں جدید تدریسی طریقوں سے محروم کیاجارہاہے ۔سیکھنے کے طرز امتیاز کے حق کو تلف کیاجارہاہے۔جس کی وجہ سے صرف اعلی طبقے کے بچوں کو ہی فوقیت دی جارہی ہے۔اور مزید دوریاں بڑھتی جارہی ہیں۔آپ اور میں یا کو یئ ایک گروہ یا کویئ ایک محکمہ ان دوریوں کو کسی ایک دن، ایک ماہ یا چند ماہ کے مختصر سے وقفے میں ازالہ کر نہیں سکتے ۔بلکہ وقت، فاصلہ، بدلتے ہوئے عصری حالات، نئے تغیّرات، سائنس وٹکنالوجی، اور انٹرنیٹ کا ضخیم پیمانے پر استعمال کرتے ہوئے نہ صرف انگریزی زبان پر ہی نہیں بلکہ کوڈنگ Coding کا جاننا اور بچوں کی ہمہ جہتی ترقی کےلئے صلاحیتوں کو اجاگرکرنا اشد ضروری امر ہے۔
اتوار کے دن چندراشیکھر پورم کستوربا ودیالیہ میں دیکھا ہوا منظر میرے لئے تعجب خیز اور لمحہ فکررہا۔اس ودیالیہ میں ایسی حکمت عملی اپنائ گئ جس میں جماعت ہفتم اور نہم کےچالیس طالبات کو منتخب کیاگیا ۔انہیں لاپ ٹاپ فراہم کئے گئے اور ساتھ ہی دو مخصوص ماہرین کمپیوٹر اساتذہ کو متعین کیاگیا۔کل تک لاپ ٹاپ کی شکل وصورت سے عدم شناش ان طالبات نے تین ماہ کے عرصے میں ہی English Syntax اور Coding Syntax پر کماحقہ عبور حاصل کرچکے ہیں ۔بذات خوداور بہ یک وقت دونوں زبانوں میں قواعد کی تشکیل سازی کرپانے کی استعداد فروغ پاچکی ہے۔مجھےایسا لگا جب یہ معصوم سی بچیّاں پہلی مرتبہ لیپ ٹاپ کے Key Boardکو چھوتے ہی بہت ہی گہرے اور لا متناہی صلاحیتوں والے وسیع سمندرمیں جہاز چلانے کی کوشش کررہی ہیں ۔ان میں ایک ایسی ہونہار اور اشہب رفتار طالبہ ہے جو 150 سے زائد مشقیں حل کرنے کی مہارت رکھتی ہے ۔عموماًایسا ہوتاہے جب بچوں سےپوچھا جائے کہ آپ پڑھ لکھ کرکیا بنوگے۔ بظاہر برجستہ اورغیر دانستہ جواب کویئ ڈاکٹر، کویئ انجنیر، تو کویئ ٹیچر ۔مگر ان بچیوں کا ایک ہی مجموعی جواب تھا۔وہ ہے’’ سافٹ ویر ‘‘بننے کی خواہش۔
میں گذشتہ تین دہایئوں سے قبائلی بچوں، غریب بچوں میں معیار تعلیم کے حصول کے لئے کوشاں رہاہوں اور بہت سارے تجربات انجام دے چکا ہوں یہ میری زندگی کا ایک پہلو رہا ۔جب کہ میری زندگی کا دوسرا نیا پہلو، چندراشیکھر پورم کے طالبات کا کوڈنگ والا اختراعی کورس ہے۔دراصل کوڈنگ Coding کئ ایک ماہرین کی تعمیر کرتاہے ۔اکیسویں صدی کے لئے درکار قوت فکر، قوت استدلال کا ماحصل کوڈنگ ہی ہے۔اس کستوربا ودیالیہ کے طالبات کے مظاہروں کو دیکھنے کے بعد مجھے اس بات کا واضح تجربہ ہوگیا کہ میرے کند ذہنیت اور میرے ادنی علمی میں ان طالبات نے جان سی ڈال دی گویا میں نت نئے انکشافات سے ہمکنار ہوگیا۔
چندراشیکھر پورم سے واپس ہوتے ہوتے غروب آفتاب ہوگیا۔آخر ہم کنی گیریKanigri کستورباگاندھی ودیالیہ آپہنچےجہاں ایک طویل وقت سے اساتذہ اور طالبات ہماری آمد پربے صبری سے منتظر تھیں۔اتفاق سے 8 March اتوار یوم عالمی خواتین International Womens Day سے منسوب تھا۔ودیالیہ کے احاطے اور میٹنگ ہال کو کافی آرائش و زیبائش سے مزین کیا گیا تھا، ایسا لگا جیسے چاروں جانب آفتاب اور ماہتاب زمین پراتر آئے ہوں،مقرّرہ وقت پر مختلف ثقافتی پروگرامس کا سیشن رہا جن میں اخوت وبھایی چارگی کے گیت، ڈرامہ نگاری ایک کے بعد دیگرے قابل تحسین تھے۔ان ہی میں سے ایک ڈرامہ میری روح اور ذات کے خشک طمانیت کو ترکردیا، یعنی میں ششدر رہ گیا۔
وہ ہے #Me Too کہانی۔
کسی دفتر میں ایک عورت ملازمہ تھی ۔اس دفتر کا صدر افسر اس عورت کو جسمانی اور جنسی طور پر بہت ہی تنگ کررہاتھا۔وہ خبیث افسر حیوانیت اور بربریت نام کے تمام حدود کو پار کرگیاتھا۔مگر یہ عورت اپنی پرسان حال کسی کو سنانے اور مدد پانے سے مجبور تھی۔اتفاق سے کسی اخبار میں Me Too تحریک کے بارے میں اطلا ع ملتی ہے ۔اس عورت نے ٹھان لیاکہ اس کا انجام بھی یہی ہوگا۔پوری ہمت اور شجاعت سے کام لیتے ہوئے تمام ایذا رسایئوں اور اپنے دل کے کربوں کا پورا منظر You Tube پر پوسٹ کردیتی ہے۔پھر کیا تھا کہ ان ہی لمحات سے مزید مشکلات بڑھ جاتے ہیں۔اس کا شوہر گھر چھوڑکر چلا جاتاہے۔اس کی اپنی سگی ماں عورت کو ہی مورد الزام ٹہراتی ہے۔پڑوسی قسم ہا قسم کے طعنے دینے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑتے۔اس کے اپنےمتعلقین اور معاونین قطع تعلق کرلیتے ہیں ۔راستہ اور گلی سے گذرنے والا ہرفرد چہ مہ گویئاں کرتاہے۔یک لخت عورت کے تمام حوصلے پاش پاش ہوجاتے ہیں ۔اور وہ ایک بےجان پتھر کی مورتی کی طرح ساکت ہوجاتی ہے۔نہ اس میں حرکات اور نہ سکنات ۔۔! جس کسی کے پاس مدد کے لئے جاتی ہے تو خالی ہاتھ لوٹتی ہے۔عورت کو، تو مرجا، تومرجا، کہہ کر کہاجاتاہے۔مگر ہائے رے افسوس کسی نے بھی اس عورت کو زندہ رہ، زندہ رہ، زندہ رہ کہہ کر حوصلہ نہ دیا۔اسی اندوہ غم میں وہ سوچے سوچے بے ہوش ہوکر زمین پر گڑ پڑی۔
میں نے اس مکالمہ کا کردار نبھانے والی طالبہ سے برجستہ کہا اب مت بول گڑیا ۔پھر قدرے توقف اور دھیمی سانس لینے کے بعد آگے بڑھا اور پورے اشتیاق کےساتھ کہا کہ اب کہانی کو تکمیل تک پہنچائیں۔
تلگو فلموں کے مشہور ڈائریکٹرز اس نوعیت والی کہانیوں کو صحیح سمت دے نہیں پاتے۔اس طرح کے انسانیت سوز اور خواتین کے تیئں ہونے والے کرادر کو پیش کرنے میں اکثر فلمیں نا کام ہوجاتی ہیں۔آئے دن یہ ہمارا آنکھوں دیکھا تجربہ ہے۔یا نہ سہی عین اسی وقت ‘’’ مہیش بابو، پربھاس ،میں ہوں نا‘‘ نعرے لگاتے ہوئے کسی ٹریکٹر، لاری یا کسی آہنی دیوار میں شگاف ڈالتے ہوئے پردے پر مدد کے لئے آہی جاتا ہے۔
لیکن، ٹھیک اسی وقت کنی گری ودیالیہ میں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی دلیری سے میں بہت متاثر ہوا۔رول پلے کے دوران بے ہوش ہوجانےوالی وہ بچّی دفعتاً اٹھ کھڑی ہوجاتی ہے۔
میں کس لئے مرجاؤں ۔میں کیوں مرجاؤں ۔۔؟ میں نے کیا غلط کیا ہے۔میرا ظالم اور وحشی افسر سرے عام بری الزام ہوکر گھوم رہاہے۔یہ میرے آنسوکیسے۔۔؟ مجھے جینا ہے اور جینا ہوگا۔مجھے سر اٹھاکر جینا ہوگا۔مجھے خوش حال زندگی جینا ہے۔کہتے ہوئے پورے حساس کے ساتھ کمربند ہوجاتی ہے ۔ عورت میں ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کی غیرت و حمیّت جاگ اٹھتی ہے۔
ڈرامہ ختم ہوگیا۔تالیوں کی گونج سے لگ رہا تھا کہ بھونچال آگیا ہو۔اس مکالمے کا کردار ادا کرنے والی بچی میں کی ہزار مجاہدوں کی ہمت او بہادری سرایت کرگئ ہو۔میں کافی دیر تلک اپنے ہاتھوں کو حرکت دئے تالیاں بجاتا ہی رہ گیا کہ مجھے وقت کااحساس تک نہیں ہوا۔بحیثیت مصنف، شاعر و ادیب، ماضی میں عورتوں پر ہونے والے ظلم وبربریت کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات ضرور کیا ہے ۔بہت کچھ لکھا بھی ضرور ۔لیکن آج اپنی آنکھوں سے کنی گری کے ڈرامہ کو دیکھنے کے بعد مجھے لگا کہ ہنوز نہ کسی نے اس نہج پر لکھا ہے اور کسی کو لکھے ہوئے میں نےپڑھا ہے ۔۔۔؟
کنی گری سے وجئے واڈہ رخصت ہوتے وقت چاندنی رات کا منظر تھا۔جگنو ٹمٹماتے رہے تھے ۔ایسا لگ رہا تھا گویا ستارے زمین پر اتر آئے ہوں میں اس سہانے منظر کو دیکھتے اور تکتے رہ گیا۔اپنے آپ سے کہنے لگا کہ 21ویں صدی عیسوی کے لئے تعلیمی میدان میں کوڈنگ Coding کاہونا جتنا ضروری ہے اتنی ہی ضرورت ہے کہانیوں کی ۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.