Baseerat Online News Portal

اے بنت حوا تیری عصمت کو سلام !

 

احساس نایاب ( شیموگہ، کرناٹک )
ایڈیٹر گوشہ خواتین واطفال بصیرت آن لائن

بیشک یہ فتنوں بھرا دور ہے ، صبح کا مسلمان شام میں کافر اور شام کا مسلمان صبح ہوتے ہوتے کافر ہورہا ہے، ہماری معصوم مسلم بچیاں ہماری اور آپ کی سوچ و گماں سے کئی گنا زیادہ تعداد میں ہر دن مرتد ہورہی ہیں، فرقہ پرست سنگھیوں کی سازشوں کا شکار ہورہی ہیں، ملک میں جدھر دیکھو نفرت، قتل و غارتگری، فحش ، بےحیائی اور زنا جیسی بدکاریاں عام ہوچکی ہیں ۔۔۔۔۔۔
اسکول، کالجس سے لے کر یونیورسٹی و دیگر شعبوں میں لڑکے لڑکیوں کا میل جول ، بوائے فرینڈ گرل فرینڈ والے رواج کو فخر سمجھا جارہا ہے ، دوستی، پیار، محبت کے نام پر پارکوں، ہوٹلوں اور پارٹیوں میں کھُلے عام ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گھومنا، ساتھ میں سیلفی تصاویر لے کر سوشیل میڈیا پر شئر کرنا جیسے شان کی بات ہے ۔۔۔۔۔
جہاں پر ایک باپردہ، حجاب نقاب پہنی لڑکی کو جاہل گنوار ہونے کے طعنے کسے جاتے ہیں اور ہر فیلڈ میں اُن کی تمام تر قابلیت، صلاحیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اُس کے آگے ایک جینس پہنی بےپردہ ، کھُلے بالوں والی لڑکیوں کو بولڈ ، موڈرن سمجھ کر ہر میدان میں زیادہ فوقیت دی جاتی ہے ،
یہان تک کہ خود مسلم ممالک کہلائے جانے والے پاکستان سے لے کر دبئی سعودی عرب میں بھی بےحیائی اور فحش کو عوام سے لے کر حکومتوں کی جانب سے بڑھاوا مل رہا ہے۔۔۔۔۔
خواتین میں ایک بڑی تعداد فیمنزم کو لے کر سڑکوں پر اترچکی ہوں، عورتوں کی جانب سے میرا جسم میری مرضی جیسے نعرے لگائے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔
ایسے دور مین بھارت جیسے ہندو اکثریت والے ملک مین تمام تر اذیتین ، تکالیف برداشت کرنے کے باوجود جن مسلم بچے بچیوں کے اندر ایمانی جذبہ آج بھی موجود ہے یقین جانیں اسلام کے وہ شہسوار قابل تحسین ہیں اور سیاہ رات میں امید کی وہ کرن ہیں جو ایک نئی صبح کی دستک دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔ بالخصوص اُن غیور مسلم بچیوں کا کردار جو اپنے پردے اپنے حجاب کو لے کر کسی بھی قسم کا کامپرامائز نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔۔۔

حال ہی میں کرناٹک کے اڈوپی کی سرکاری ویمنز پی یو کالج
سے ایسی ہی غیور مسلم بچیوں کا واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں 8 طالب العلم کو حجاب پہننے پر کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ..…….
جی ہاں 11 ویں اور 12 ویں کلاس میں کامرس اور سائنس میں پڑھ رہی
ان 8 مسلم طلبہ کا جرم بس اتنا تھا کہ انہیں کلاس سے باہر بیٹھنا منظور تھا لیکن انہونے اپنے سر سے حجاب ہٹانے سے انکار کردیا ۔۔۔۔۔۔
جس کی وجہ سے ان 8 طلبہ کو 31 دسمبر 2021 سے کالج کی طرف سے ‘غیر حاضر’ نشان زد کیا گیا ہے۔ ان کے والدین نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے کالج سے رابطہ کیا، لیکن پرنسپل نے اس معاملے پر کوئی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔
خبروں کے مطابق جب یہ بچیاں کلاس روم میں داخل ہوئیں تو کلاس ٹیچر نے انہیں حجاب پہن کے آنے کی اجازت نہ دیتے ہوئے حجاب نکالنے کے لئے کہا ، جب یہ لڑکیاں نہ مانیں تو ٹیچر نے انہیں دھکہ دے کر کلاس سے باہر کردیا اور اب تین ہفتے گزر جانے کے بعد جب یہ واقعہ عالمی سطح تک پہنچ چکا ہے دنیا بھر کے لوگ اس کی مذمت کررہے ہیں باوجود کالج اتھارٹی نے اُس ٹیچر کے خلاف کسی بھی قسم کا ایکشن نہیں لیا ہے ۔۔۔۔۔۔
یہان تک کہ اڈوپی کی اس گورنمنٹ ویمنز پی یو کالج کی اُن 8 طلبہ کو محض "حجاب پہننے” کی وجہ سے ابھی تک کلاس رومز میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔
بچیان ہر دن کالج آتی ہیں، سیڑھیوں پر بیٹھ کر سبق سننے کی کوشش کرتی ہیں، جتنی نوٹس دوستوں سے ملتی ہے اُن سے اور کچھ پرانی نوٹس کے ذریعہ پڑھائی کرتی ہیں اور شام گھرلوٹ آتی ہیں اور یہ سلسلہ تین ہفتوں سے مسلسل چل رہا ہے اور ان 8 بچیوں کے مسلسل کالج آنے کے باوجود 31 دسمبر سے کلاس اٹینڈینس میں انہیں غیرحاضر بتایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران بچیوں کی مخالفت میں چند ہندو شرپسند بھگوا گمچھا یعنی شال پہن کر وہاں پہنچ گئے اور ہنگامہ مچاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ لوگ برقعہ حجاب پہن کر کلاس میں آئیں گی تو ہم بھی بھگوا گمچھہ پہن کر کلاس کو آئیں گے ۔۔۔۔۔
بچیوں کے والدین نے اس مسئلے کے بارے میں بات کرنے کے لیے کالج سے رابطہ کیا، لیکن پرنسپل رودرا گوڑا نے اس معاملے پر کوئی بات چیت کرنے سے انکار کر دیا،
سی ایف آئی اور گرلز اسلامک آرگنائزیشن (جی آئی او) نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کالج کے حکام اور ڈسٹرکٹ کلیکٹر سے رابطہ کیا تھا، تاہم طلبہ کو ابھی تک کلاس رومز میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔۔۔۔۔۔
سی ایف آئی کی ریاستی کمیٹی کے رکن مسعود نے ہندوستان گسیٹ کو بتایا کہ طلبہ کو دھمکیاں دی گئیں اور انہیں ایک خط لکھنے پر مجبور کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ گزشتہ 15 دنوں سے کلاس میں شرکت نہیں کر رہی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ "پرنسپل نے لیکچررز کے ساتھ مل کر لڑکیوں کو دھمکی دی کہ اگر وہ خط نہیں لکھیں گی تو ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے ساتھ کیا کرنا ہے ” انہوں نے مزید کہا کہ ایک طلبہ ذہنی اذیت کی وجہ سے بیمار ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
بتایا جارہا ہے کہ کالج میں انہیں بیری، عربی اور اردو زبان میں بات کرنے سے بھی روکا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

اس پورے معاملے پر بات کرتے ہوئے کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی کے نائب صدر یشپال سوورنا کا کہنا ہے کہ اگر آج ان لڑکیوں کا مطالبہ پورا ہو جاتا ہے تو وہ کیمپس میں نماز ادا کرنے کا ایک اور مطالبہ اٹھا سکتے ہیں ۔۔۔۔

آپ خود سمجھ سکتے ہیں سمجھ کیا محسوس کرسکتے ہیں، ایسے نفرت بھرے، پرفتن ماحول میں ہماری ان بچیوں کا یہ حوصلہ بیشک مثالی ہے اور ایسی ہی بچیاں اسلام و شریعت کی پاسدار ہیں ۔۔۔۔
آج ہم اپنے مضمون کے ذریعہ اُن بچیوں اور اُن جیسی تمام ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو سلام کرتے ہیں، سلام کرتے ہیں ہم اُن کی غیرت کو ، اُن کی پارسائی کو اور اُن کے ایمانی جذبہ کو سلام ہے ۔۔۔۔۔۔
ایک درجہ وہ ہوتا ہے جہاں پر ایک انسان نیکوکار، تقوی پرست، ایمان والوں کے درمیان ان کی صحبت میں رہتے ہوئے خود کو نیک اور ایمان والا بنا پاتا ہے اور دوسرا جو کہ سب سے اعلی درجہ کہلاتا ہے جہاں انسان ایسے فتنوں اور برائی کے درمیان رہتے ہوئے بھی اپنے نفس اپنی حمیت اپنی پاکدامنی کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو ہر برائی سے بچائے رکھتا ہے اور اس دور میں یقین جانیں ہرمسلمان کے لئے اپنے ایمان کی حفاظت کرنا ہی سب سے بڑی آزمائش امتحان ہے ۔۔۔۔۔۔۔
فخر محسوس ہوتا ہے فرقہ پرستوں سے دوچار ہورہی ان بچیوں کو دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے اگر ان جیسے واقعات کی بات کی جائے تو ہندوستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ بلکہ آج کل یہ عام ہوچکا ہے ۔۔۔۔۔۔
جہاں ہندو ماتھے پر تلک، بندی لگاسکتے ہیں اور سکھوں کو پگڑی باندھنے اپنے پاس تلوار رکھنے کی مکمل اجازت ہے، وہیں مسلمانوں سے اُن کے آئینی حقوق چھیننے کی بار بار کوشش کی جاتی ہے جس کے چلتے ملک بھر میں داڑھی ، ٹوپی اور حجاب کو لے کر شرپسندوں کی جانب سے ہرزور کچھ نہ کچھ ہنگامہ مچایا جاتا ہے ، اسکول، کالجس سے لے کر دفاتر اور دکانوں ، اسپتالوں مین بھی مسلم خواتین کو ذلیل کرتے ہوئے انہین پریشان کیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔ ایون
کئ اسپتالون کے اندر داخل ہونے سے پہلے مسلم خواتین کو برقعہ نکال کر آنے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے لیکن افسوس کہ ایسوں کے خلاف کبھی کسی قسم کی کمپلینٹ نہیں کی گئی ، اور جہاں غنیمت سے کسی نے آگے بڑھ کر اعتراض جتاتے ہوئے شکایت کردی تو کاروائی کے نام پر مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے میں مسلم بچیوں اور خواتین کو چاہئیے کہ وہ خود اس کی مخالفت میں آگے آئیں ، جیسے آج یہ غیور بچیان اپنا مستقبل داؤ پہ لگاکر محاذ پہ ڈٹی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
حال ہی میں ایسا ہی ایک اور واقعہ سامنے آیا تھا
جہاں مسلم لڑکی نے کسی کانٹیسٹ مین حصہ لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی اور انعام کے طور ایک بڑی رقم اُس لڑکی کو ملنی تھی، لیکن انعام دیتے ہوئے آرگانائزرس نے یہ شرط رکھ دی کہ لڑکی کو نقاب نکال کر انعامی رقم لینی پڑے گی، اس شرط کا اعلان ہونے کے بعد سبھی کی نظرین اُس مسلم لڑکی پہ گڑھ گئیں، لیکن اسلام کی اُس شہزادی نے نقاب نکالنے کے بجائے انعامی رقم کو ٹھوکر ماردیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر آگ ہی طرح سوشیل میڈیا پر وائرل ہوگئی، پھر کیا تھا اپنی اس غیور بہن کے اس جذبہ کو ساری دنیا سلام کرنے لگی اور کئی لوگ متاثر ہوکر اس لڑکی کو انعامی رقم سے کئی گنا زیادہ رقم دینا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہوئے آگے آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ بھی سنگیت یعنی میوزک کی دنیا کے مشہور و معروف میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان کی بیٹی خدیجہ کی بات کی جائے تو دنیا جہاں کی دولت شہرت ہونے کے باوجود اللہ کی اُس نیک بندی نے بھی کبھی اپنے پردے کو کامیابی کے آگے رکاوٹ نہ سمجھا بلکہ بےحیائی اور دلدل بھری فلمی دنیا کے قریب رہتے ہوئے بھی اپنے لئے ایک سادی و پاکیزہ زندگی کو اہمیت دی، دنگل فلم میں عامیر خان کے ساتھ کام کرنے والی اُس کشمیری بچی زائرہ وسیم کو بھی فراموش نہیں جاسکتا ہے ، جس نے فلمی دنیا کی چکاچوند کو الودہ کہہ کر اپنے لئے صراط مستقیم کو چُنا ۔۔۔۔۔ ہمارے آس پاس ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جو مثالی ہیں اور اس خوفناک دور میں ہمت حوصلہ اور اللہ پر ہمارے یقین، ہمارے ایمان کو مزید پختہ کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اڈوپی کی ان بچیوں کو آج آپ کے حوصلے اور ساتھ کی ضرورت ہے، یقین جانیں جس دور میں تعلیم کو اس قدر اہمیت دی جارہی ہے کہ اسکول کالجس میں بتائے گئے ضروری غیرضروری یہان تک کہ سوریہ نمسکار اور یوگہ جیسے کفریہ رولس کو بھی بچوں سے لے کر والدین تک آنکھ موندھ کر فالو کررہے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہ بچوں کے مستقبل سے جُڑا ہے، جس کی وجہ سے طلبہ سے لے کر والدین تک وہان کے سسٹم کو چاہتے ناچاہتے ہوئے بھی مجبورا اپنارہے ہیں ، ایسے مین یہ بچیان ہمارے لئے انسپریشن ہیں کیونکہ یہ اپنے مستقبل کو داؤ پہ لگانا پسند کرتی ہین لیکن اسلام اور شرعی قوانین کو توڑنا نہیں چاہتی
اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اُن بچیون نے تعلیم کو نظرانداز کرکے صرف اسلام کا دامن تھاما ہے یا یہ اپنی تعلیم اور مستقبل کو لے کر سنجیدہ نہیں ہیں ؟
بلکہ یہ وہ بچیاں ہیں جو تعلیم کی اہمیت بھی سمجھتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسلام کے ساتھ اسلام کے دائرہ مین رہ کر دنیا کا ہر علم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور یہی وقت کا تقاضہ ہے اور ہر طالب علم کو اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے
کہ ہم دنیاوی علم حاصل کرنے کے لئے اپنے بنیادی دین کو چھوڑ نہیں سکتے، نہ ہی دین کے نام پر دنیا کو ترک کیا جاسکتا ہے
ان بچیون نے بھی یہی مثال پیش کی ہے ان کے لئے علم حاصل کرنا جتنا ضروری ہے اس سے کیی گنا زیادہ اپنے دین کی پاسداری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
یہان پر غورطلب بات یہ بھی ہے کہ اگر وہ بچیان تعلیم کی اہمیت کو لے کر سنجیدہ نہ ہوتی تو کب کا ہمت ہار کر گھر بیٹھ سکتی تھیں، یا اسکول انتظامیہ کے متعصبانہ فرمان پر گھٹنے ٹیک کر اپنا حجاب نکال سکتی تھین لیکن ان بچیون نے مجاہدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دین اور دنیا دونوں کو تھامے رکھا اور بار بار ڈرانے، دھمکانے، پریشان کئے جانے کے کے باوجود وہ آج بھی مسلسل کلاس اٹینڈ کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔۔۔۔۔۔
بیشک وہ جانتی ہیں کہ انہیں سخت ترین حالات سے جوجنے کے بعد دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہر مسلمان بچے بچیوں کے ایمان کی حفاظت فرمائیں آمین یارب العلمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.