Baseerat Online News Portal

اے رو سیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

 

 

از : مزمل الرحمان طالب قاسمی

 

عقل حیران و شش در ہے کہ آخر آغاز کہاں سے کروں، اپنی شومی قسمت کا ماتم کروں یا اپنی غفلت و مردہ دلی کو ملامت کروں؟ انجام کار نظام فطرت کے تحت اس اعتراف کے ساتھ خود کو ہی لعنت و ملامت کرنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے دامنوں سے الجھنے والے کانٹے خود ہمارے ہی ہاتھوں کی پیداوار ہیں؛ کیوں کہ ابتدائے آفرینش سے ہی اس کائنات بے ثبات کا یہ دستور رہا ہے کہ ؂

 

گر حیاتِ خوب خواہی، نفس را گردن بزن

زآں کہ از نفست قوی تر ہیچ دشمن دار نیست

 

اس لیے ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے کہ آج ہماری نفس پرستی ہی نے ہمیں یہ سیاہ دن دکھلائی ہے کہ ہمارے بے لوث پرکھوں کی سو سالہ قدیم نشانی و امانت ( امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ و جھارکھنڈ) پر چند سفید ظاہر و سیاہ باطن افراد نے دن کی روشنی میں ایسے منصوبہ بند و حیا سوز طریقے سے اپنا ناجائز قبضہ جما لیا کہ نہ تو ادارہ میں اول دن سے رائج قانون ان کی راہیں مسدود کر سکا اور نہ ہی خالق ارض و سماوات کے دستورِ لم یزل و لا یزال نے ان کے قدموں کو متزلزل کیا، جسے دیکھتے ہی دیکھتے ایسا دل شکن منظر اہل دل و اہل نظر حضرات کی نگاہوں میں گھومنے لگا جس کو جناب ساغر صدیقی صاحب نےکچھ اس طرح اپنے الفاظ کا جامہ پہنایا ہے کہ ؂

 

آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ

آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا

 

کیوں کہ عینی مشاہدین کے بیان کے مطابق انتخابی مجلس میں جس گندی سیاست اور کھلم کھلا کذب و افتراء کا سہارا لیا گیا اسے دیکھتے ہوئے یہ طے کر پانا مشکل ہو گیا ہے کہ وہ انتخابی مجلس کسی دینی ادارہ کے باوقار و مہتم بالشان علمی منصب کے لیے تھی یا پھر دنیا داروں کی چند روزہ حکومت و قیادت کی؛ چنانچہ دین کی خدمات کے نام پر جاہ و منصب کی تحصیل میں دنیوی عہدہ و کرسی کے طالبین جیسی مچائی گئی ہوڑ کو دیکھ کر امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد (رحمہ اللہ) کے گہر بار قلم سے نکلے ہوئے چند کلمات کا ذکر یہاں فائدہ سے خالی نہیں ہوگا۔ حضرت رقم طراز ہیں :

 

” ایک دنیا دار فاسق اور اور ایک دنیا پرست عالم میں یہی فرق ہے کہ پہلا اپنی ہوا پرستیوں کو اعتراف فسق کے ساتھ انجام دیتا ہے اور دوسرا دینداری اور احتساب شرعی کی ظاہر فریبی سے ۔ “

(تذکرہ ص 64)

 

آب زر سے لکھے جانے کے قابل حضرت کی تحریر کا درج بالا اقتباس پڑھنے کے بعد یہ بتانے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے کہ امارت شرعیہ میں پیش آمدہ مذکورہ بالا قضیۂ نامرضیہ بھی محض نفسانی خواہشات کی تکمیل اور جسمانی آسائش و آرام کی تحصیل کے لیے انجام پایا ہے؛ کیوں کہ جس ادارہ کے پلیٹ فارم سے یہ انجام پایا ہے وہ بھی دینی ہے، جیسا کہ اس کے نام ( امارت شرعیہ) سے ہی ظاہر ہے، اس کی انجام دہی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے خود ساختہ و نام نہاد خدام بھی دینی ہیں اور اس عمل کے محرکات و اسباب کے عنوان سے ان کی جھوٹی زبانوں پر جاری اغراض و مصالح بھی دینی ہیں۔

اس لیے اب جب کہ نفاق زدہ و نام نہاد خدام دین و مذہب کا نفاق جگ ظاہر ہو گیا ہے تو ہم مسلمانانِ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ پر بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ ان غداروں کے ہاتھوں اپنے سینوں میں لگے زخموں پر اشک فشانی و اشک شوئی کے بجائے ان خائنوں سے بدون تاخیر اپنی امانت کو واپس لینے اور اس کی صیانت و حفاظت کی تدبیریں کریں، ورنہ تو (معاذاللہ) وہ دن دور نہیں ہے، جیسا کہ امارت پر طاری حالات کی سنگینی بتا رہی ہے کہ ہمارے بزرگوں کے خون جگر سے سینچی ہوئی یہ سو سالہ قدیم و عظیم تنظیم مال و جاہ کے حریصوں کی ہوس کا شکار ہو کر نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں منقسم و منتشر ہو جائے گی اور ساتھ ساتھ اس کی سو سالہ قوت و عظمت کا جنازہ بھی نکل جائے گا؛ کیوں کہ حالیہ انتخاب میں ہوئے غیر دستوری و غیر شرعی عمل نے اس شرعی ادارہ کے اندر باطل کے دخول کے لیے تین بڑے دروازے وا کر دیے ہیں۔

(١) سب سے پہلا دروازہ یہ ہے کہ شرعی اصول کو بالائے طاق رکھ کر انجام پانے والے اس انتخاب کو بنیاد بنا کر اب یہاں سے زمانہ میں رائج الیکشن و ووٹنگ کے ذریعہ شرعی ادارہ میں شریعت کے خادم کا تقرر عمل میں آئے گا، جس کا سلسلہ صرف امارت شرعیہ کے مرکزی دفتر پھلواری شریف پٹنہ تک ہی محدود نہیں رہے گا؛ بلکہ اس کے ماتحت بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ میں چلنے والے بے شمار دینی تعلیمی و رفاہی اداروں تک دراز ہوجائے گا؛ بلکہ تینوں صوبوں کے علاوہ بھی اندرون ملک و بیرون ملک میں اس کا اثر متعدی ہو جائے گا۔

(٢) امارت شرعیہ کے دستور میں درج امیر شریعت کے لیے ضروری اوصاف کی عدم پاسداری کی وجہ سے ہر کس و ناکس ایرا غیرا نتھو خیرا خود کو امیر شریعت کی کرسی پر بیٹھانے کے لیے پرچۂ امیدواری داخل کرے گا اور اسے کوئی چاہ کر بھی نہیں روک پائے گا۔

(٣) جمیع مسلمانانِ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کی سو سالہ امانت پر ایک مخصوص خاندان کا بطریق توارث قبضہ ہو جائے گا، جس کے بعد اس خاندان کا ہر لائق و نالائق فرد اسے اپنے باپ کی جاگیر سمجھ کر اپنے تسلط و تصرف میں رکھے گا۔

اگر ہماری آرام پرستی ان سارے خدشات کو یہ کہہ کر مسترد کرتی ہے کہ روئے زمین پر اللہ کی مرضی کے بغیر جب ایک پتہ نہیں ہل سکتا ہے تو پھر امیر شریعت کا انتخاب اللہ کی مرضی کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟ لہٰذا جو ہو گیا ہے، ہم اسے مشیت ایزدی سمجھیں اور غیر دستوری و غیر شرعی طریقہ سے چن کر آنے والے نا اہل امیر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں، تو اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ یہ جبریہ کا مذہب ہے، جس کے مطابق انسان مجبور محض ہے؛ لیکن علماء اہل سنت و الجماعت کے نزدیک انسان مجبور محض نہیں ہے؛ بلکہ وہ اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمیع اقسام کی چھوٹی و بڑی ذمہ داریوں کو اس کے اہل کے سپرد کرنے کی تاکید کی ہے اور اس کے خلاف کرنےوالوں کو ملعون قرار دیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے:

” جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہوپھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض د وستی و تعلق کی بناء پر بغیر اہلیت معلوم کئے ہوئے دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے ،نہ اسکا فرض مقبول ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہوجائے“

( جمع الفوائد ص ۵۲۳)

 

نیز یہ کہ اگر مشیت ایزدی کا مطلب باطل کے غالب ہو جانے کے بعد اسے زیر کرنے کے بجائے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر لینا ہے تو پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا یزید کی جانشینی کو تسلیم نہ کرنے اور اس کے ہاتھوں پر بیعت سے انکار کو ( معاذاللہ) بغاوت کہنا پڑے گا، جب کہ سارے اہل حق یعنی اہل سنت و الجماعت کا ایمان ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ کربلا میں جام شہادت نوش کرنے والے ان کے جمیع رفقا و اہل خانہ شہید و مظلوم ہیں؛ اس لیے ایک مرتبہ پھر سے آخر میں بندہ خاص طور پر قوم کی سر کردہ شخصیات کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ مزید کسی ناخوش گوار احوال کے طاری ہونے سے قبل اپنی گردنوں سے شخصیت پرستی کا طوق اتار کر اسوۂ رسالت و صحابیت کو اپنا لائحۂ عمل بناتے ہوئے میدان عمل میں آیا جائے، وعدۂ الہی ” جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا “ (بنی اسرائیل پ ١٥) پر عملاً اپنی ایمانی پختگی کا ثبوت پیش کیا جائے اور اگر (معاذاللہ) آپ کے دلوں میں غیرت ایمانی کی انگیٹھیاں یک قلم سرد ہو گئی ہیں، ہوا پرستیوں نے آپ کے تمام اعضاء و جوارح کو شل کر دیا ہے تو پھر ایسی صورت میں یہی مناسب ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس دن کے انتظار میں بیٹھ جائیں کہ جب ہماری تمام شکست و ریخت کا ذمہ دار ہماری اگلی نسل آپ کو قرار دے کر کچھ اس طرح آپ سے مخاطب ہو نے لگے گی کہ؂

 

سودا! قمارِ عشق میں شیریں سے کوہ کَن

بازی اگرچہ لے نہ سکا، سر تو کھو دیا

کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز

” اے رو سیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا “

Comments are closed.