Baseerat Online News Portal

حالات حاضرہ میں سازشی نظریہ کی حقیقت! ایک تجزیہ

حسن مدنی ندوی
غالبا آپ نے Conspiracy Theory کے بارے میں سنا ہوگا، عربی میں اسے نظریة المؤامرہ بھی کہا جاتا ہے، اس بارے میں ہولی ووڈ کی ایک فیلم بھی سینمائی گئی تھی، جس میں ایک امریکی ٹیکسی ڈرائیور کی یہ سوچ ہوجاتی ہے کہ حالات اور ارد گرد جو بھی ہورہا ہے وہ خفیہ سازش کے تحت ہورہا ہے، اور اس کو روکنا عام انسان کے بس کی بات نہیں، اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ۹/۱۱ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر خود امریکی خفیہ ایجنسی CIA نے حملہ کا منصوبہ بنایا تھا، مصر کے اہرامات کی تعمیر سینکڑوں سال پہلے موجود ڈیناصور کے ذریعہ ہوئی تھی، ماسونی طاقتوں کی اس دنیا پر حکمرانی ہے، اور یہ وہم ہے کہ انسان نے چاند پر قدم رکھا ہے، ناسا نے دنیا سے جھوٹ بولا ہے، زمین گول نہیں بلکہ مسطح ہے، ترکی میں اردغان کے خلاف عسکری انقلاب خود اسی کی سازش تھی، کچھ اس طرح سے ہیں سازشی نظریہ کی وہ مثالیں جو کمالیات جنوں کے اعلی درجہ پر فائز ہیں، سازشی نظریہ کی تعریف یہ ہے کہ انسان کو اپنے ارد گرد حالات کے بارے میں یہ احساس ہونے لگے کہ یہ سب اس کو نقصان پہچانے کے لئے خفیہ و شیطانی سازشوں کا نتیجہ ہے، جس میں ان طاقتوں کا فائدہ ہے، یہ احساس پیش آنے والے بڑے اور اہم واقعات کے واقعی اسباب اور حقیقت کے انکار کا باعث بن جاتا ہے، نتیجتا افراد اور تنظیمات پر الزام تراشی کی جاتی ہے،جو خفیہ طور پر جہنمی سازشوں کی عملی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں، اس کی ابتدا کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ مورد جرم یا سازش کرنے والا خود کو یا متعلقہ اشیاء کو نقصان پہونچا کر سننے والے کی نظروں میں پردہ ڈال دیتا ہے، انیسوی ۱۹ صدی کے اواخر میں دنیا نے اس اصطلاح کو جانا ہے جب کہ ۱۹۱۹ء میں امریکی مصنف این جونسون نے اس کا استعمال کیا تھا مگر دنیا نے سابق امریکی صدر جون کینیڈی کے روپوش ہونے کے بعد اسے جانا ہے، بہت سے لوگوں نے یہ مانا کہ ان کے قتل کی سازش بھی امریکی خفیہ ایجنسی کے ذریعہ کی گئی تھی.
سازشی افکار:
۳ ایسے نکات ہیں جو انسانی دماغ میں اس طرح کے افکار کو پروان چڑھانے میں مددگار ہوتے ہیں:
۱- کوئی بھی چیز اچانک نہیں ہوتی۔
۲- جو دکھتا ہے وہ دراصل ویسا ہوتا نہیں جیسا دکھتا ہے۔
۳- ہر شئے ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہے۔
کیونکہ بالآخر یہ سب دنیا میں فساد برپا کرنے کی ایک بنیادی منصوبہ ہوتا ہے، یا ایک ایسا منصوبہ کو ذاتی طور پر کسی انسان کا شکار کرتا ہے۔
کیا اس نظریہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے؟
جی بالکل، کیونکہ حکمرانی پر تسلط برقرار رکھنے میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے، اور جیسا کہ نص قرآنی میں خداوند قدوس نے فرعون مصر کے بابت جب اس کے جادوگر عصائے موسی کے سامنے زیر ہوگئے اور حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لے آئے، ارشاد باری تعالی ہے: آمنتم بہ قبل ان آذن لکم، ان ھذا لمکر مکرتموہ فی المدینة لتخرجوا منھا اھلھا فسوف تعلمون.
موجودہ دور میں اس کی ایک مثال مصر کے السیسی ہیں، جو مصر کے شر پسند عناصر جو وہاں تباہی لانے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کے بارے میں اپنی قوم سے مخاطب ہوتے ہیں کہ آپ شر پسندوں کے سامنے دوبارہ میدان میں اتریں، اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ کی سیاسی زندگی کی اصل بنیاد یہی نظریہ ہے، امریکی اخبار ٹائمس کے مطابق یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ سابق امریکی صدر اوباما کی پیدائش امریکہ میں نہیں ہوئی، مجبوراً ان کو دستاویز دکھانے پڑے، اسی طرح یہ کہا گیا کہ فضائی آلودگی محض ایک دھوکہ ہے، اور یہ کہ نیو جرسی کے مسلمانوں نے ۹/۱۱ حملوں پر مسرت کا اظہار کیا تھا، ٹرمپ نے اس بات کو یقینی طور پر تسلیم کیا کہ آدھے سے زیادہ امریکی باشندے چونکہ اس نظریہ کو مانتے ہیں اس لئے انتخابات میں ان کی جیت ہوگی۔
عوام الناس میں سازشی نظریہ کے بڑھتے رجحانات:
کسی بھی قسم کے بڑے حادثات جن کے بارے میں تفصیلی معلومات ملنا ذرا مشکل ہوتا ہے، جیسے دہشت گردانہ کارروائیاں، یا قدرتی آفات، یا سیاسی گرفتاریاں، تو اکثر انسانی دماغ اس چیز کو اسی کی مطابق بڑی وجوہات سے جوڑتا ہے، اور مطابقت کرتا ہے، یاں اس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان بالعموم ان باتوں پر یقین کرتا ہے جو اچانک پیش آتی ہیں اور غیر مانوس ہوتی ہیں، کیونکہ شاید یہ وجہ اس کو دوسروں سے الگ ہونے کا احساس دلاتی ہیں، مصر میں ایسے ہی کچھ سوالات لوگوں سے کئے گئے کہ کیا اس دنیا میں انسانی مخلوق کے علاوہ آسمانی مخلوق بھی ہے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ضرور امریکہ اور یورپ میں ایسی مخلوق پائی جاتی ہے مگر مصر میں ان کا داخلہ ممکن نہیں، شاید یہ بات مضحکہ خیز ہوگی مگر یہی حقیقت ہے کہ جب چیزیں پیچیدہ معلوم ہوتی ہیں تو ان کا ربط ان باتوں سے کیا جاتا ہے جن کا سر پیر نہیں ہوتا اور وہ باتیں گلے نہیں اترتی، بالکل ایسے ہی جیسے ہ اہرام مصر انسانوں نے نہیں بلکہ دوسری مخلوق نے بنائے ہوں، اور علمی اعتبار سے اسکا کامیاب تجربہ بھی بارہاں کیا جاچکا ہے۔
فریٹز ہیڈر اور ماریان سیمیل کے تجربوں کے مطابق ہندسی اشکال کی ایک تصویر لوگوں کو دکھائی گئی، جس کا لوگوں نےمطلب اس انداز سے نکالا اور من گھڑت باتیں بنائیں کہ جس کا اس تصویر سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔
اجتماعی وبا بھی ایک سازش ہے:
جب اس قسم کی وبا یا بیماری پھیلتی ہے تو رکتی نہیں ہے، ماہرین اور اثر و رسوخ کے حامل افراد کا اس میں اہم کردار ہوتا ہے۔
اس نظریات کے شکار افراد کو محض ان کی رائے ہی معنی خیز معلوم ہوتی ہے دیگر سب باتیں جھوٹ لگتی ہیں!
اکثر روایات اس بات پر محتمل ہوتی ہیں کہ ان کی تاکید اور تائید کس حد تک کی جاتی ہے، انسانی فطرت عموماً وہ دلیلیں جمع کرنے کی عادی ہوتی ہے، جو ان کے خیالات و افکار سے مطابقت رکھیں، لہذا سازشی نظریہ کے تخلیق کار ان دلیلوں کو اسی رنگ میں رنگتے ہیں جیسا وہ چاہتے ہیں۔
اس کہانی کے کلیدی کردار کون ہوتے ہیں؟
وہ افراد یا تنظیمیں اس نظریہ کا کلیدی کردار نبھاتی ہیں جن کو وہ لوگ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے، کبھی تو وہ جانی پہچانی صورت میں ہوتے ہیں جیسے ماسونی، اور کبھی ان کی کوئی پہچان نہیں ہوتی، اکثر انہیں زمانہ کے دشمن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ان کی طاقت بے شمار ہوتی ہے، تیز دماغ کے حامل ہوتے ہیں، ان کی دولت کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا، اعلی ترین ٹیکنالوجی اور دیگر جدید ترین وسائل ان کے پاس ہوتے ہیں، اور وہ سب کچھ جانتے ہیں، یعنی کے سب کچھ!
مگر پھر ایک سوال آتا ہے کہ کیا ہمیں سازشی نظریہ کو خطرہ کے طور پر لینا چاہئے!
جی بالکل، کیونکہ انسانی خون کا ذمہ ایک حد تک اس نظریہ کی گردن پر لٹکتا ہے، ایک آسٹرلیائی تقریر کے مطابق ۲۰۱۶ میں ۲۳ افراد کی موت ایسے اسباب کی بنیاد پر ہوئی جن کا علاج ممکن تھا، صرف اگر وہ انجیکشن لگانے پر رضامند ہوتے، یقیناً آسٹریلیا جیسی متمدن جگہ پر بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ انجیکشن طبی کمپنیوں کا ایک دھوکہ ہے۔
سازشی فکر انسان کو ایک کمزور اور مجبور انسان میں تبدیل کرتی ہے، جب انسان دنیا میں ہونے والی ہر شئے کو کسی خفیہ طاقت کے بھروسے ماننے لگتا ہے کہ جس پر قابو نہیں پایا جاسکتا تو خود سے سوال کرتا ہے کہ کیونکر مقابلہ ہو! بلاشبہ یقینی طور پر وہ ہار مان لیتا ہے، اور انتظار کرتا ہے کہ شاید کوئی دوسری طاقت ظاہر ہوگی جو اس شئے سے مقابلہ کریگی، یہ سوچ انسان کو ناکارہ کر دیتی ہے، ریسرچ کی مانیں تو انسان جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہوتا ہے اتنا ہی کم اس نظریہ کا شکار ہوپاتا ہے، جوزیف بونسکی کے مطابق ۴۲% میٹرک کے طلباء اس نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں جب کہ ان کے مقابل صرف ۲۳% فیصد یا اس سے بھی کم اعلی تعلیم یافتہ افراد ہوتے ہیں۔
کیسے معلوم ہوگا کہ آپ اس نظریہ کا شکار ہیں؟
اگر آپ اس طرح کے نظریات میں سے کچھ کو حقیقت مانتے ہیں تو گھبرانے کی بات نہیں ہے، کیونکہ اس نظریہ کو لیکر تین طرح لوگ پائے جاتے ہیں:
۱- جو یہ مانتے ہیں کہ سب کچھ پہلے سے طئے شدہ ہے۔
۲- جو اس نظریہ کا مکمل طور سے انکار کرتے ہیں، اور اس کو صرف ایک چال سمجھتے ہیں۔
۳- جو مانتے ہیں کہ منصوبہ بندی ہوتی ضرور ہے مگر اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر آپ کا بھی یہی ماننا ہے تو یہ فطرتا صحیح ہے، یہ سچ ہے کہ سازشی نظریات پائے جاتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان نظریات میں سب سے بڑا نظریہ یہی سازشی نظریہ ہے۔

Comments are closed.