Baseerat Online News Portal

حضرت مولانا خورشید عالم عثمانی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو. @auqaabi

حضرت مولانا خورشید عالم عثمانی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

 

 

ہندوستاندیم زمانہ سے علم و عمل کا گہوارہ رہا ہے۔ عہد قدیم میں نالندہ یونیورسٹی اور ٹیکسلا کی تاریخ ہندوستان کا عظیم ترین زریں باب ہے جہاں دنیا بھر کے طالبان علوم اپنی علمی تشنگی بجھانے کے لئے جوق در جوق جمع ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے عہد میں دہلی کو یہ شرف حاصل ہوا، اور وقت کے کبار علماء و صلحاء کا مسکن بن گیا۔ طالبان علوم نبویہ کی وارفتگی کا عالم یہ تھا کہ ہزاروں کلو میٹر کا پُرمشقت سفر طے کرکے دہلی پہنچ کر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے۔ منطق و فلسفہ اور فقہ و فتاوی کے انمول موتی بکھیرنے والوں کا جم غفیر تھا۔ ہر کوئی اپنے فن کا امام تھا۔اسی جماعت کے فرد شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تھے۔ وہ اور ان کے خانوادہ نے علم و فضل کے اس روشن باب کو مزید جِلا بخشا اور علمِ قرآن و علم حدیث کے فن میں ہندوستان کو عظیم ترین علمی سرمایہ سے روشناس کرایا۔ ایک جانب اگر خانوادہ ولی اللہی کا علمی جلوہ تھا تو دوسری جانب قطب الدین بختیار کاکی اور سلطان الاولیا حضرت نظام الدین کا روحانی دربار تھا۔ ایک طرف قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں باز گشت تھی تو دوسری جانب ذکر و اذکار کی پُر بہار رونقیں تھی۔ دہلی کی فضا علم و عمل، فضل و کمال، بیعت و سلوک، تصوف و طریقت، انابت الی اللہ، توکل علی اللہ، ذکر الہٰی ، غرضیکہ علوم ظاہریہ و باطنیہ کا حسین سنگم تھا جہاں سے بیک وقت پورے ملک میں ہر دو طرح کی ضرورت کو پورا کیا جارہا تھا۔

 

مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد جب ہندوستانی مسلمانوں پر جان و مال کےساتھ دین و ایمان پر چہار جانب سے حملہ کیا گیا تو ان کے تحفظات کی خاطر چند مخلص اللہ والوں نے مختلف اعتبار سے مختلف جہتوں میں کام کا آغاز کیا، انہیں چند جیالوں اور درددل رکھنے والوں میں دیوبند اور اس کے اطراف میں خانوادہ عثمانی بھی تھا جنہوں نے علم و عمل کے میدان میں طویل جدو جہد کی ہے اور امت مسلمہ کے لئے بیش قیمتی علمی اثاثہ چھوڑا ہے ۔ اس خانوادہ کے عز و شرف کے لئے یہ کافی ہے کہ ان کا سلسلہ نسب دامادِ رسول ﷺ خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مفتی عزیزالرحمان عثمانی، مولانا حبیب الرحمان عثمانی، علامہ شبیر احمد عثمانی ، مفتی شفیع صاحب عثمانی اور موجودہ دور میں حضرت مولانا تقی عثمانی جیسی شخصیات اسی خانوادہ کے چشم و چراغ ہیں جنہوں نے دینی علوم کے ہر شعبہ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اسی عظیم خانوادہ کے امین اور اپنے اسلاف کے سچے خلف فخر المحدثین فقیہ وقت حضرت مولانا مفتی خورشید عالم عثمانی کی ذات گرامی بھی ہیں جنہوں نے تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے علاوہ انتظام و انصرام کے باب میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

 

پیدائش: آپ کی پیدائش علم و عمل اور فضل و کمال کی بستی دیوبند میں ۱۵ ذیقعدہ ۱۳۵۳ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا ظہور احمد عثمانی دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز اساتذہ میں سے تھے۔ آپ کے دادا محترم حضرت مولانا منظور احمد نے بھی زندگی کا طویل عرصہ دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات میں گزارا تھا۔ دوسری جانب آپ کے خانوادہ میں آپ کے عمِ محترم مفتی شفیع صاحب عثمانی، اور علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے جلیل القدر افراد کا وجود مسعود تھا جن کے فیوض سے ایک عالم مستفید ہورہا تھا۔ گویا کہ آپ علم و فضل ،تقوی و طہارت، حیا و پاکدامنی، خشوع و خضوع کے شگفتہ پھولوں میں سے ایک پھول تھے، جس کی نشو و نما چمنستانِ علم کے ان باکمال باغبانوں نے کی تھی جن کے شبانہ روز کا شغل قال اللہ و قال الرسول تھا۔

 

آغازِ تعلیم: ۱۳۵۸ ہجری میں آپ نے باضابطہ تعلیم کا آغاز کیا ۔ آغاز تعلیم کے وقت آپ کی عمر محض پانچ سال تھی۔ دستور کے مطابق آپ کے لئے دیوبند کی مشہور معلمہ (امۃ الحنانہ ) کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس زمانہ میں چھوٹے بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں ان بڑی بی کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ تجوید کے فن پر عبور حاصل تھا جس کی وجہ سے پڑھنے والے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی ۔ ماہر اور مشاق قرا ءحضرات کی مانند وہ اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم تجوید کی رعایت اور مخارج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھایا کرتی تھی۔ مفتی صاحب نے بہت کم عرصہ میں اس مرحلہ کو عبور کیا اور پھر حفظ قرآن کے لئے دیوبند شہر کے مشہور و معروف معلمِ قرآن جناب حضرت قاری کامل صاحب کی درس گاہ کا رخ کیا۔ قاری صاحب ان بافیض اساتذہ میں سے تھے جن کے پاس عموما اکابرین دیوبند کے بچوں نے قرآن مجید کی تکمیل فرمائی ہے۔ گھر کے دینی ماحول اور اپنی فطری صلاحیت ، ذہانت و ذکاوت اور محنت شاقہ کے نتیجہ میں بہت کم عرصہ میں آپ نے قرآن مجید کو مکمل کرلیا تھا۔

 

قرآن مجید کی تکمیل کے بعد آپ نے دارالعلوم دیوبند میں ہی اردو، فارسی ، ریاضی کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ کی ذہانت اور شوق و لگن کا ثمرہ تھا کہ آپ نے از ابتداء تا انتہاء، ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی تھی۔ علاوہ ازیں، آپ کے والد محترم مولانا ظہور احمد کی مکمل توجہ آپ پر تھی۔ دیگر اسا تذہ کے علاوہ خود بھی تعلیم و تربیت کے متعلق فکر مند رہا کرتے تھے۔ فارسی وغیرہ کی تکمیل کے بعد آپ نے والدِ محترم سے الٰہ آباد یونیورسٹی جانے کی فرمائش کی۔ آپ کا منشاء یہ تھا کہ چند دنوں تک وہاں تعلیم حاصل کرکے بغرضِ فراغت دوبارہ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوجائیں۔ آپ کی خواہش کو مد نظررکھتے ہوئے آپ کے والدِ محترم نےشیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب سے مشورہ کیا۔ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب وقت کے بہت زیادہ پابند تھے اور آپ کا نظام الاوقات اس طرح مرتب تھا کہ ملنے جلنے اور خارجی کام کاج کے لئے وقت کی فراہمی تقریبا ناممکن تھی حتی کہ بسا اوقات ملاقات بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتی تھی۔ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب نے مولانا ظہور احمد کی مکمل بات سننے کے بعد مفتی خورشید صاحب سے فرمایا کہ اگر میں از خود تمہیں نحو و صرف کی کتابیں پڑھاؤں تو کیسا رہے گا۔ مفتی صاحب کے لئے یہ نعمت غیر مترقبہ تھی۔جن سے ملاقات کے لئے بڑے بڑوں کی تمنائیں اور آرزوئیں ہوا کرتی تھی، اس شخصیت نے خود ہی اپنی جانب سے پڑھانے کی پیشکش کردی تھی۔ اس نعمت کے حصول کے بعد الٰہ آباد یونیورسٹی کا وہم و گمان بھی باقی نہیں رہا تھا۔ مفتی صاحب نے نحو و صرف کی کتابیں حضرت شیخ الادب سے پڑھیں اور فنِ منطق کی کتابیں والد محترم نے بذات خود پڑھایا تھا۔ ان دونوں حضرات کی مخلصانہ توجہ اور مفتی صاحب کی شبانہ روز کی لگن نے بہت جلد آپ کی صلاحیت میں چار چاند لگادیئے تھے۔ ابتدا سے ہی آپ کی علمی صلاحیت بالمقابل دیگر طلبا کرام کے قابلِ ذکر رہی تھی۔ آپ کو ایسے اساتذہ کرام کی تربیت اور صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملا تھا جو علم و عمل ، صلاح و تقوی ٰ، دینی و اخروی دونوں باب میں یکتائے روزگار تھے۔ جن سے علم کے سُوتے پھوٹتے تھے اور جن کی دعائے نیم شبی کے طفیل طلبا ءکرام کی زندگیا ں بدل جایا کرتی تھی۔ جو ایک طرف مسند تدریس پر بیٹھ کر تشنگان علوم نبوت کی سیرابی کا کام انجام دیتے تو دوسری جانب خانقاہی نظام کے ذریعہ ہزاروں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی تربیت کے فرائض ادا کیا کرتے تھے۔

 

۱۳۷۶ میں آپ دارالعلوم سے فارغ ہوئے۔ آپ کے تعلیمی ایام کا خاتمہ اس شان سے ہوا کہ آپ ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کیا کرتے تھے۔ آپ کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ دارالعلوم کے جلسہ انعامیہ میں آپ کو اتنے انعامات سے نوازا جاتا تھا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی از راہِ مذاق فرمایا کرتے تھے: "میاں خورشید کچھ انعامات دوسروں کے لئے بھی چھوڑ دو”۔ دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی، حضرت مولانا علامہ ابراہیم بلیاوی رحمہم اللہ جیسی نابغہ روزگار ہستیوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا جن کے تبحر علم، رسوخ فی العلم، صالحیت اور پاک باطنی پر دنیائے علم و فضل ہمیشہ ناز کرے گی، ایسی ہستیوں کے زیر سایہ آپ کی علمی پرداخت ہوئی تھی۔

 

تدریسی زندگی کا آغاز: ۱۳۷۶ میں فراغت کے بعد آپ نے تدریسی سلسلہ کا آغاز کیا۔ آپ کے عمِ محترم مفتی شفیع صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ آپ کو اپنے قائم کردہ ادارہ دارالعلوم کراچی لے گئے۔ اور یہیں سے باضابطہ آپ کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ دارالعلوم کراچی میں آپ کو وہ تمام وسائل فراہم تھے جو ایک محنتی ، شوقین، مطالعہ کے دلدادہ اور علمی صلاحیت میں اضافہ کے خواہشمند نو آموز استاد کو ہوتی ہے۔ مفتی صاحب فطرتا محنتی تھے اور عمِ محترم مفتی شفیع عثمانی صاحب کی خصوصی توجہ نے باقی تمام مراحل کو آسان تر بنا دیا تھا۔ دارالعلوم کراچی کے زمانہ میں ہی آپ کے عم زاد اور موجودہ دور کے بافیض عالم، مفسر قرآن، شیخ الحدیث، بے شمار کتابوں کے مصنف اور کئی مستند و معتبر عالمی علمی مجالس کے سرپرست و رکن شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی نے اکتساب فیض کیا تھا۔ چھوٹے بھائی کو جس توجہ اور لگن سے پڑھایا جاسکتا ہے مفتی خورشید صاحب نے بڑے بھائی کی حیثیت سے وہ حق ادا کیا تھا۔ پچاس سالہ دورِ تدریس میں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے بے شمار افراد آج دین کے مختلف شعبے جات کی خدمات میں مصروف ہیں۔ آپ کے تلامذہ کی طویل فہرست ہے جو آج اپنے علمی و روحانی فیوض و برکات سے عالم کو منور کررہے ہیں۔

 

چند مشہور تلامذہ کے اسماء گرامی:

 

حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب: شیخ الحدیث دارالعلوم کراچی

 

حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب: مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند

 

حضرت مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب: مہتمم دارالعلوم دیوبند

 

حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی: استاد دارالعلوم دیوبند و ایڈیٹر (الداعی)

 

حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ صاحب: شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند

 

حضرت مولانا عتیق احمد بستوی:استاد دارالعلوم ندوۃ العلما

 

حضرت مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی: نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند

 

حضرت مولانا بدرالدین اجمل علی قاسمی: ممبر آف پارلیمنٹ و رکنِ شوری دارالعلوم دیوبند

 

دارالعلوم دیوبند میں تقرری: والد محترم مولانا ظہور احمد عثمانی کی وفات کے بعد آپ اپنے آبائی وطن دیوبند تشریف لے آئے۔ دارالعلوم دیوبند میں ششماہی امتحان کے ایام تھے اور انہیں ایام میں آپ کو دارالعلوم میں تدریسی خدمت کیلئے منتخب کرلیا گیا۔ فنِ تدریس اور اندازِ تدریس آپ کی اصل شناخت اور پہچان تھی۔ دارالعلوم جیسے ادارہ میں جہاں وقت کے لائق و فائق اساتذہ کرام کا مجمع ہو، نئے وارد کے لئے خود کو ثابت کرنا اور طلبا کو اپنے اندازِ تدریس اور صلاحیت سے متعارف کرانا اور ان کو مطمئن کرنا کافی دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے۔ مفتی خورشید صاحب کے پیش نظر طلبا ءکی استعداد اور صالحیت تھی اور اس امر کی انجام دہی کے لئے آپ ہمیشہ مستعد رہا کرتے تھے۔ چنانچہ کچھ ہی دنوں میں نہ یہ کہ صرف آپ کے درس سے طلباء مطمئن تھے بلکہ آپ کا شمار کبار اساتذہ میں کیا جانے لگا تھا۔ احادیث، تفسیر، فقہ، عقائد اور دیگر علوم و فنون کی مروجہ کتابیں آپ کے زیر درس رہی تھی۔ دارالعلوم دیوبند میں دوران قیام آپ نے بخاری شریف و ترمذی شریف کے علاوہ علیاء کی دیگر تمام کتابوں کا درس دیا ہے۔ جو کتاب بھی آپ کے سپرد کی گئی آپ نے اس کا حق ادا کیا۔

 

اندازِ درس و تدریس: مفتی خورشید صاحب طبعا سادگی پسند تھے، اور یہ سادگی آپ کے معمولات میں بھی صاف طور پر جھلکتی تھی ۔ اس سادگی کا اثر آپ کے اندازِ درس پر بھی تھا۔ چنانچہ آپ نہایت ششتہ ، شائستہ، سہل، مرتب اور سلیس زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ الفاظ و تعبیرات کی بھرمار اور طلبا کے لئے اضافی بوجھ سے احتراز کرتے تھے۔ مسائل کی تشریح بہت خوش اسلوبی سے کیا کرتے تھے۔ طلباء کے سوالات مکمل توجہ سے سنتے اور تشفی بخش جوابات مرحمت فرماتے تھے۔ دیگر کتب سے رجوع کی صورت میں عموما صفحات تک کی نشاندہی فرمادیا کرتے تھے۔ وقت کا مکمل خیال فرماتے تھے، وقت ختم ہونے کے بعد اضافی وقت سے پرہیز کیا کرتے تھے کہ اس سے طلباء کے اذہان پر بوجھ پڑتا ہے۔ طلباء کی علمی صلاحیت کے علاوہ ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دیا کرتے تھے۔ ایک مشفق و مربی باپ کی مانند طلباء کی غلطیوں کی نشاندہی فرماتے اور ایسے کام کرنے سے اجتناب کی تلقین فرماتے جو طلباء و علماء کی شان کے شایانِ شان نہ ہو۔

 

دیگر اضافی ذمہ داریاں: یہ وہ زمانہ تھا جب دارالعلوم دیوبند میں علیاء کے بڑے بڑے اساتذہ کرام کو دارالاقامہ وغیرہ کی ذمہ داریاں دی جاتی تھیں۔ دارالعلوم کا یہ شعبہ نہایت پیچیدہ اور مغلق ہے۔ اس شعبہ میں براہِ راست طلباء کے معاملات سےواسطہ پڑتا ہے۔ ایک جانب مدرسہ کی ذمہ داری اور دوسری جانب طلبا کرام کے روز مرہ کی شکایات اور درخواستیں، ان دونوں ذمہ داریوں کے ساتھ بیک وقت انصاف کرنا بھی کارے دارد ہوتا ہے۔ مفتی خورشید عالم صاحب نے اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ تک آپ اس عہدہ پر متمکن رہے لیکن کبھی بھی طلباء کو آپ سے کبھی کوئی شکایت نہ رہی بلکہ آپ ازخود طلباء کی مکمل نگہداشت اور ان کی ضرورتوں کا مکمل خیال رکھتے تھے۔ دفتری اوقات کے علاوہ طلباء آپ کے دولت کدہ پر بھی پہنچ جایا کرتے تھے، آپ وہاں بھی ان کی بات خندہ پیشانی سے سنتے تھے۔ طلبا کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ اور ترش روئی کے بجائے شفقتِ پدری کا رویہ اپناتے تھے۔

 

کسی بھی مدرسہ میں تعلیمات کا شعبہ سب سے اہم تصور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ مدارس کی بنیاد اور اساس کا مقصدِ حقیقی تعلیم و تعلم ہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند جہاں مختلف طبقات کے مختلف اساتذہ کرام اور طلباء عظام کی بڑی تعداد تھی اور مختلف درجات میں داخلہ کی مختلف شرطیں، ایسے اہم فرائض کی ادائیگی کافی مشکل امر ہے۔ آپ ایک زمانہ تک نائب ناظمِ تعلیمات کے عہدہ پر متمکن رہے۔ اللہ نے آپ کو فطری طور پر ایسی صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کو استعمال کرکے اور اللہ کے فضل و کرم سے اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا تھا۔ علاوہ ازیں، اہتمام کمیٹی کے رکن منتخب کئے گئے اور اس زمانہ میں حضرت مہتمم صاحب کی عدم موجودگی میں قائم مقام مہتمم کی ذمہ داریوں کو بھی بحسن و خوبی ادا کرتے تھے۔ صد سالہ اجلاس کے موقع پر کئی طرح کی ذمہ داریاں آپ کے سپرد تھیں جن میں سب سے اہم دیوبند میں خیموں کا ایک عارضی شہر بسانا تھا۔ ایک ایسا شہر جس میں لاکھوں واردین کے لئے ضروریات زندگی کے اہم شعبوں کو تیار کرنا تھا تاکہ بشری تقاضوں اور شرعی امور کی انجام دہی میں کوئی کمی و بیشی نہ ہونے پائے۔ شبانہ روز کی تگ و دو کے بعد آپ نے اپنے امور کو اس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا جو تاریخ دارالعلوم کا ایک حسین اور زریں باب ہے۔ ایسے اہم عہدوں پر رہتے ہوئے آپ نے زندگی کے تقریبا بیس سال دارالعلوم کو دئیےاور جب تک آپ رہے آپ نے مکمل دیانتداری کے ساتھ تمام امور کو انجام دیا تھا۔

 

دارالعلوم وقف دیوبند: فخر المحدثین حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری کی وفات کے بعد آپ دارالعلوم وقف دیوبند کے شیخ الحدیث نامزد کئے گئے۔ اس سے قبل تقریبا تین دہائیوں تک آپ نے مسلسل مسلم شریف کا درس دیا تھا۔ دارالعلوم وقف دیوبند کے صدر مفتی ، مفتی سید احمد علی سعید صاحب کے سانحہ ارتحال کے بعدآپ شعبہ افتا کے ذمہ دار اور صدر مفتی منتخب کئے گئے۔ آپ دقت نظر سے ہر ہر مسئلہ کو دیکھا کرتے تھے۔ الفاظ و تعبیرات پر خصوصی توجہ فرماتےتاکہ کسی عبارت میں سقم پیدا نہ ہو اور نہ کوئی مسئلہ تشنہ رہ جائے۔ اگر کبھی کوئی اور کسی لفظ یا کسی عبارت کی جانب متوجہ کراتا تو کشادہ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے دیکھتے اور سراہتے ۔ چھوٹوں پر شففقت و عنایت کے علاوہ ان کو ترقی منازل کی جانب ابھارا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں، آپ نے مختلف ادوار میں مختلف ذمہ داریاں ادا کی ہیں۔ عمر کے آخری ایام تک آپ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں حساس اور بیدار رہے ہیں۔

 

بیعت و سلوک: آپ کا پورا خانوادہ،صرف علم و فضل میں ہی نہیں بلکہ تصوف و سلوک میں بھی اعلی مقام رکھتا تھا ۔ مفتی عزیزالرحمان عثمانی، علامہ شبیر احمد عثمانی اور مفتی شفیع صاحب عثمانی جیسے اوصاف حمیدہ کے حامل افراد کے زیرِ سایہ آپ نے زندگی کا وہ دور گزارا تھا جس میں عموما لاابالی پن اور بے توجہی عام ہوتی ہے۔ آپ فطرتا اس قدر سنجیدہ اور کم گو تھے کہ لغویات اور لہو و لعب کے کام کاج آپ سے سرزد نہیں ہوا کرتے تھے اور نہ کبھی ایسے امور کی جانب طبیعت کا میلان ہوتا تھا۔ کھیل کود اور دیگر وقت گزاری کے بجائے آپ کا بہترین مشغلہ کتابوں کی ورق گردانی اور بڑوں کی مجالس میں پابندی سے شرکت کرنا تھا، اسی وجہ سے ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم پر بھی بھر پور توجہ رہی تھی۔ ابتداء میں آپ اپنے عمِ محترم مفتی شفیع صاحب کی تربیت میں رہے اوروہیں سے تزکیہ قلب کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ۔ حضرت مفتی شفیع صاحب کے بعد یہ سلسلہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کے ساتھ قائم ہوا، اور پھر مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہوئے۔ یہ تینوں حضرات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ کے تربیت یافتہ اور اجل خلفا میں سے تھے۔ ان تینوں حضرات کی نظر اور توجہ نے آپ کو ولایت کے اعلی درجہ پر فائز کردیا تھا۔ آپ کو یکے بعد دیگرے ایسے تین بزرگوں کی صحبت نصیب ہوئی ہے جن کی نگاہِ ناز مٹی کو بھی کندن بنادیا کرتی تھی۔ تواضع و انکسا ری کی وجہ سے مفتی صاحب نے خود کو اس باب میں اہلِ دنیا سے مخفی رکھا تھا۔ لیکن ذکر و اذکار کے باب میں آپ تلاوتِ کلام اللہ کے اس درجہ عاشق تھے کہ روزانہ چلتے پھرتے دس بارہ پارے قرآن کی تلاوت کرلیا کرتے تھے۔ گھریلو کام کاج کے دوران بھی تلاوت کا اہتمام فرماتے تھے۔ سفر کی صعوبتوں سے حتی الامکان دور رہا کرتے تھے لیکن اگر کبھی سفر در پیش ہوتا تو دورانِ سفر تلاوت کلام الٰہی میں مشغول رہتے تھے۔ دہلی آنے جانے کے درمیان عموما قرآن پاک مکمل کرلیا کرتے تھے۔ تلاوت کا اس درجہ اہتمام کا نتیجہ ہی تھا کہ اللہ نے آپ کی زبان کو غیبت، چغلخوری، دروغ گوئی اور کذب بیانی سے ہمیشہ محفوظ رکھا تھا۔

 

تواضع و انکساری: "مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب رقمطراز ہیں: سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ سچے آدمی تھے، میں نے سماجی زندگی کے مسائل سے نبرد آزما رہنے والے بہت کم "سورماؤں” کو لایعنی باتوں سے اس درجہ دامن کشاں دیکھا ہے، جس درجہ مولانا خورشید عالم رہا کرتے تھے۔ انہوں نے دین و دنیا کی بے فائدہ باتوں سے اپنے کو ہمیشہ بہت دور رکھا، ایسی نکھری ہوئی ، صاف اور غیر مکدر زندگی ان کے کم ہی معاصر علما نے گزاری ہوگی جن کو مسائل کی خارزار وادیوں سے گزرنے پر مجبور ہونا پڑا ہوگا ۔ یہ بات جہاں ان کی ہنر مندی اور زندگی کے مسائل کے حوالے سےآزمودہ کاری کی دلیل ہے، وہیں ان کی نیکی ، زہد شعاری ، نکھرے پن او ر باہمہ رہنے کے ساتھ بے ہمہ گزار جانے کی خاص خدائی توفیق پانے والے "بندہ مولی صفات” ہونے کی واضح علامت بھی ہے۔”

 

آپ نہاہت بردبار، سلیم الطبع، حلیم، پیکرِ صدق و صفا، مہمان نواز، بڑوں کا احترام کرنے والے، چھوٹوں پر شفقت کرنے والے، ہر کس و ناکس کی دلجوئی کرنے والے، غریبوں کی غمخواری کرنےوالے، طلبا کرام کے ساتھ پدرانہ شفقت روا رکھنے والے ، اپنے اسلاف کے حقیقی اور سچے خلف اور اکابرینِ دیوبند کی زندہ تعبیر اور چلتی پھرتی تصویر تھے ۔ آپ خدمتِ خلق کو اپنے لئے باعث فخر سمجھا کرتے تھے۔ محلے کی بڑی بوڑھی عورتیں آپ سے بازار کا سودا سلف منگوایا کرتی تھی، اور آپ بخوشی ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے تھے۔ آپ اپنا کام بذاتِ خود انجام دینے کے عادی تھے ۔ سبزیاں، دوائیاں اور دیگر لوازمات کے لئے از خود بازار تشریف لے جاتے ۔ دیوبند شہر جہاں ہر آن آپ کے ہزاروں شاگردوں کا اژدہام رہا کرتا تھا، اس کے باوجود آپ کبھی کسی کو کام کے لئے حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ کا اپنا کوئی خادم نہیں تھا لیکن آپ ہمہ وقت دوسروں کی خدمت کے لئے تیار رہا کرتے تھے۔ صلہ رحمی، رشتہ داری اور قرابت داری کا بہت زیادہ پاس و لحاظ رکھا کرتے تھے۔ کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا اور نہ کبھی کسی کے خلاف یا کسی کی غیبت میں اپنی زبان کو ملوث کیا ۔ عمر کے اخیر زمانہ میں بھی تمام رشتہ داروں اور قرابت داروں سے مستقل رابطہ میں رہا کرتے تھے۔ اپنوں کے یہاں بلاجھجھک تشریف لے جاتے، شادی و غیرہ کے موقع پر از خود تعاون فرماتے اور ضروری سامان کا بنفس نفیس جائزہ لیا کرتے تھے۔

 

سفر آخرت: آپ کافی دنوں سے علیل چل رہے تھے۔ دل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ وقتا فوقتا دواؤں کی ضرورت بھی محسوس ہوتی تھی۔ ڈاکٹروں سے مسلسل رابطہ تھا لیکن جب وقت اجل آپہونچے تو ساری تدبیریں ناکام ہوجاتی ہے۔ وقتِ موعود کبھی ٹلتا نہیں ہے اور نہ کسی کے لئے بدلتا ہے۔ ہر کسی کو یہاں سے اپنے اس حقیقی گھر میں جانا ہے جس کا وعدہ رب ذوالجلال نے کر رکھا ہے۔ بالآخر ۱۴ ربیع الثانی کو خدا کا یہ محبوب جس نے زندگی کی آٹھ دہائیوں میں مختلف رنگ و روپ کو دیکھا تھا اور مختلف قسم کی آزمائشوں سے دوچار ہوا تھا اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔ پُر خاروادی کا یہ وہ مسافر تھا جس کے دامن پر کبھی کوئی داغ یا چھینٹ تک نہیں آسکی تھی۔ صلاح و تقوی کا مینارہ، عزت و شرافت کا بادشاہ، مروت و وفا کا تاجدار، سلیم الطبع، کریم النفس، متواضع، ملنسار، خوش اخلاق، خوش گفتار،شب بیدار، تلاوت قرآن کے دلدادہ، ذکر الٰہی کے شوقین اور ہزارہا اوصاف جمیلہ سے متصف ان کی ذات گرامی تھی جو اپنے بعد والوں کے لئے بہترین نمونہ ہیں اور جن کے نقشِ پا کے نشانات سے منزلِ حقیقی کا پتہ معلوم کیا جاسکتا ہے ۔

 

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

 

ٗٗٗٗٗ

Comments are closed.