Baseerat Online News Portal

خدایا ہم پر رحم فرما!!!

آصف اقبال انصاری، کراچی
اس وقت پورا عالم جس کرب و غم میں مبتلا ہے، شاید ماضی قریب میں آج سے پہلے دنیا نے ایسا منظر نہ دیکھا ہو۔ حالات بدلتے وقت نہیں لگتا، ابھی دنیا اپنے ڈگر پر چل ہی رہی تھی کہ اچانک ایک وبا نے دنیا کو اس طرح لپیٹا کہ جمے قدم اکھڑ گئے، زور آور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے، جدید سائنسی ٹیکنالوجی سے آراستہ اقوام کی چینخیں بھی دور دور تک سنائی دینے لگیں۔ رب ذوالجلال کی طاقت کیا ہے؟ وہ کیسے گرفت کرسکتا ہے؟ کب تک ڈھیل دے سکتا ہے؟ یقیناً اب دنیا بہت اچھی طرح واقف ہوچکی ہوگی۔ خود سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والوں کو بھی خاصا جواب مل چکا ہوگا۔ عجیب مرض ہے، جو عرب و عجم، رات اور دن، صبح و شام، کالا و گورا، چھوٹا و بڑا، بوڑھا و جوان، غرض سارے امتیازات پس پشت ڈال کر یکایک یوں حاوی ہوا کہ ٹیکنالوجی کی دنیا کے ماہرین بھی منہ تکتے رہ گئے۔ آہا ربا!! ہم مان گئے تیری طاقت، ہم جان گئے تیری خدائی، اب تو یوں لگ رہا ہے کہ قیامت سے پہلے قیامت برپا ہوگئ ہو۔ وہ راستے جو چند روز قبل انسانی ہجوم کی زد میں ہوتے تھے آج قبرستان جیسی ویرانی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی محبت سے ملا کرتے تھے آج دیکھنے سے بھی کترا رہے ہیں۔ اے رب ہم جان گئی تیری طاقت کیا ہے!!
آئیے!!! اس آہ و بکا سے پر سوز فضا کو قرآن اور احادیث نبویہ کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ رب تعالیٰ فرمارہے ہیں: ” اور جب انہوں نے ہمیں ناخوش کیا، ہم نے ان سے بدلہ لیا”۔(الزخرف) ” یہ سزا بسبب ان اعمال کے ہیں جو تمھارے ہاتھوں نے آگے بھیجے” (آل عمران) ” انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی، پس پکڑ لیا ان کو”۔ (الحاقہ) ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نافرمانی اور گناہوں کے سبب دنیا ہی میں ناموافق حالات پیش آسکتے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ پر اگر نظر ڈالیں تو بے شمار روایات پیشِ نظر آئیں گی۔ "ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اے مہاجرین کی جماعت پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تم ان میں مبتلا ہو جاؤ، اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے۔ (اگر) تم ان میں مبتلا ہو تو بڑی آفات میں پھنس جاؤ گے۔ ان میں سے ایک یہ کہ جس قوم میں بھی کھلم کھلا فحش، بدکاری ہونے لگے تو ان میں ایسی نئی نئی بیماریاں پیدا ہوں گی جو کبھی پہلے سننے میں نہ آئی ہوں”۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جس قوم میں مال غنیمت کے اندر خیانت کرنے کا عیب پیدا ہوجائے، اللہ تعالی ان کے دلوں میں دشمنوں کا رعب اور خوف پیدا کر دیتا ہے اور جس قوم میں زناکاری پھیلتی ہے، اس میں اموات کی زیادتی ہوجاتی ہے اور جو قوم ناپنے تولنے میں کمی کرتی ہے، اس کا رزق اٹھا لیا جاتا ہے اور جو قوم ناحق حکم کرتی ہے، اس میں خون ریزی پھیل جاتی ہے۔ اور جو قوم اپنے عہد توڑتی ہے اس پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتا ہے”۔(ماجاء فی الغلول ص476)
ذکر کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کی سزا آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی بصورت مصائب، پریشانی، بیماری اور تنگیوں کی صورت میں آسکتی ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن سابط رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب کسی بستی والے چار چیزوں کو حلال سمجھنے لگتے ہیں تو ان کی ہلاکت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے:
1۔ جب کہ وہ تول میں کمی کریں۔
2۔ پیمائش میں کمی کریں۔
3۔ بکثرت زنا کرنے لگیں۔
4۔ سود کھانے لگیں۔( تنبیہ الغافلین)
حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ وسلم اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تین چیزیں ہلاک کرنے والی ہیں:
1۔حرص۔ 2۔ خواہشات نفسانی کی پیروی۔
3۔ خود فریبی۔(ایضاً)
ذکر کردہ قرآنی آیات، فرامین نبویہ اور اقوال صحابہ وتابعین کی روشنی میں اگر موجودہ معاشرے کا جائزہ لیں تو یقیناً یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ اس کسما پرسی کے حالات کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ وہ کون سی برائی ہے جو پچھلی قوموں میں تھی آج کے مسلمانوں میں نہیں۔ قتل، چوری، بے حیائ، فحاشی، عریانی، ظلم و جبر، ناانصافی، جھوٹ، فریب، دھوکا دہی، سود خوری اور شراب خوری وغیرہ۔۔۔۔۔ اگر کرتوت ایسے ہوں تو رب العالمین کی طرف سے گرفت اور مواخذہ تو بنتا ہے۔ لیکن قربان جائیے اپنے رب کی مہربانی پر، اس کی اپنے بندے کے ساتھ محبت پر۔۔۔۔۔۔ اتنا کچھ ہو کر بھی وہ کہتا ہے ” اے میرے محبوب آپ کہہ دیجیے، اے میرے بندو!! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، تم اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ یقینا وہ بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے”۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے: اے اللہ! مجھ سے گناہ ہوگیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کا پروردگار ہے، جو گناہوں کی مغفرت کرتا ہے اور اس پر پکڑ بھی کرتا ہے۔ تو (یاد رکھو) میں نے اپنے بندے کی مغفرت کردی۔
سو یہ لمحہء رجوع ہے اور اپنے رب کے سامنے ماتھا ٹیکنے کا وقت ہے۔ موجودہ حالات جس نے پورے عالم کو زیر و زبر کردیا، اس بات کی علامت ہے کہ ہمارا خالق ہم سے روٹھا ہوا ہے۔ ہم نے منانا ہے اور بار بار منانا ہے۔ یقینا مایوسی کفر ہے۔ ہمیں اپنے رب کی مہربانی پر نظر رکھتے ہوئے اس کی جانب رجوع کرنا ہوگا۔ اس کے سامنے ندامت کے آنسو بہانے ہوں گے، شدت سے گڑگڑانا ہوگا۔ یقیناً وہ وقت دور نہیں کہ دنیا اس آزمائش صورت حال سے نکل کر امن اور سلامتی کی طرف آئے گی اور آفات و بلیات سے چھٹکارا حاصل کر پائے گی۔
اے اللہ!! اپنے محبوب کی امت کے حال پر رحم فرما (آمین)۔

Comments are closed.