Baseerat Online News Portal

خواجہ اجمیری معین ِدین و انسانیت کی متفقہ شخصیت کاآفاقی نام ہے!!

 

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی،چلہنیاوی

گیسٹ لیکچرارمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

[email protected]

مکرمی حضرات و خواتین!

                 حسن اتفاق ہی کہیے کہ پھر بزدلوں نے طعن و تشنیع کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے،وہ ہمارے اور براداران وطن کے درمیان بالاجماع متفق علیہ شخصیت ہے، جس سے سنگھی ٹولوں اور گوڈی میڈیا کی اسلام اور انسانی دشمنی کا پول کھل کر عیاں ہوجاتا ہے!بڑے افسوس کی بات ہے کہ دشمنان اسلام صرف اقلیتوں خصوصا  مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ملک عزیز کو ہرطرح سے برباد ی کے دہانے پر پہونچانے کی ٹھان لی ہے، جب کہ ہمارا ملک طویل لاک ڈاؤن کیوجہ سے مختلف آفتوں سے دوچار ہے،وطن عزیز کی معیشت کباڑی معیشت کی دہلیز پر پہونچنے کے بالکل قریب ہے،لوگ کورونا مرض اور اسکے خوف و دہشت سے جوجھ رہے ہیں، انسانیت بھوکوں مررہی ہے، کوئی انکا پرسان حال نہیں ہے، لاکھوں نوکریاں بے روزگاری میں بدل رہی ہے، حتی کہ تعلیم یافتہ افراد،اساتذہ کرام سبزیاں وغیرہ بیچ بیچ کرموت کے منہ میں جانے سے بچنے کے لئے حکومت کی پالیسیوں کا ساتھ نباہ رہے ہیں اوروہ ہر بات پرعمل کرنے پر مجبوربھی ہیں، مگر ملک کے شر پسند عناصرکی انہیں غلط پالیسی کے نتیجے کیوجہ سے ہمارا حقیقی دشمن چین اور نیپال نے ہمارے ہندو مسلم تنازع سے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کی اصلی سرزمین پر قبضہ کرلیا ہے اور الٹا ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہا ہے۔

                اور ہم ہیں کہ اب تک ہندومسلم جھگڑوں میں پڑے ہوئے ہیں، موجودہ مصائب و فتن اورآسمانی آفتوں کے باوجود ہمارے ملک میں ایک ایسا ٹولہ ہے جو مندرجہ بالا کسی بھی امر کاخیال کئے بغیر اپنی پرانی عادت وروش سے باز ہی نہیں آرہا ہے! تنبیہات ربانی سے اسکا ضمیر سبق اور ہدایت حاصل کرنے سے عاجز ہے، انکی آنکھوں اور دلوں پروہ دبیز پردہ پڑ گیا ہے، جسکی وجہ سے ہندومسلم کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا ہے، وہ ہندو مسلم بھید بھاؤ کی گمراہیوں اور بے حیا کاموں میں تھوڑے پیسوں کی لالچ میں پڑے ہوئے ہیں اور گنگا جمنی تہذیب،اخوت و مودت کے ماحول اور یکجہتی و یگانگت کی فضا کو تار تار کررہے ہیں اور سنگھی پریوار کو خوش کرنے کے لیے انکی ناپاک سازشوں کا شکارہوتے جارہے ہیں اور مسلسل ملک کی معیشت و برباری کا سودا کیے جارہے ہیں اور اسکی محبت بھری فضا میں زہر گھولنے کا کام کرتے جارہے ہیں،کہیں منافرت وعداوت کی بیج بورہے ہیں، تو کہیں ہندومسلم فساد اور غیر دستوری قوانین کی سازشیں کررہے ہیں اور ملک کوبد سے بدتر بنانے کی ناپاک کوششیں کررہے ہیں اور مسلمانوں کے صبرو استقامت کا ہرطرح سے امتحان لے رہے ہیں، اگر کہیں مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریزہوگیا اور سارے مظلوم متحد ہوگئے!؟ تو معاملہ پر معاملہ، فتنہ پر فتنہ، قتل پر قتل کا الزام کس پر لادا جائے گا!؟جب کہ یہ مسلمانوں کا مشغلہ نہیں۔شرپسندوں کا شیوہ ہے،جو وہ مسلمانوں کی نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکی شریعت اورانکے مصادر و مراجع سے کھلواڑ کرتے جارہے ہیں اور انکی نیکیوں اور اچھائیوں پر پرپردہ ڈال کریا تو مردوں کی قبر کھود رہے ہیں یا بلا وجہ کے الزامات سے پر امن ماحول کو بگاڑنے اور مسلمانوں کے جذبات سے مذاق کررہے ہیں۔مسلمانوں نے کبھی کسی پر انگلیاں نہیں اٹھائیں! اور نہ وہ بے وقوفی والی حرکت کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں!شر پسندوں کاطبقہ ہے اورمیڈیا کا ایک فتنہ پرور گروپ ہے جورات دن اسی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ماحول کیسے خراب کیا جائے، کیسے ہندومسلم فساد کروایا جائے!! حتی کہ اس مقصد کے لیے مسلمانوں اور ہندووں کے ایک متفق علیہ، ناموراورمقبول و معروف شخصیت حضرب خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کی کردار کشی کرکے مسلمانوں کو دنیا والوں کے سامنے ظالم، لٹیرا، اچھوت اور خونخوار انسانوں کے طور پر متعارف کرانے کے لیے سنگھی حربوں کابیج بو ڈالا جس سے ملک میں کہرام مچ گیا۔

                مسلمانوں کی تاریخی، عالمی شخصیات، بزرگوں اور اولیاء اللہ پر ہونے والی سنگھی اورگوڈی میڈیا کی گستاخیوں کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی توہین شریعت اور اسکے لئے استعمال کی جانے والی بے حیا زبان و سوچ کی کسی کو اجازت ہی دی جائے گی،جیسا کہ ابھی نیوز 18 چینل کے اینکر امیش دیوگن نے ہمارے ہردلعزیز شخصیت اور بہی خواہ انسانیت کیساتھ بدتمیزی والی زبان کا استعمال کیا ہے اور اسطرح سنگھی سوچ کا گوڈی میڈیا نے پرچار سنا ڈالا ہے۔ جس سے ہمارے اسلاف پرتخریبی تنقید کا بڑا حملہ ہی سمجھا جائے گا، جس کی کسی کواجازت نہیں دی جاسکتی؟حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کا معاملہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے، جو سن کر خاموش بیٹھ جایا جائے!وہ توہمارے جتنے عزیز ہیں اس سے کہیں زیادہ ہندوؤں کے عزیز ہیں، جہاں ہم ان کی شخصیت اور کارناموں پر جان و مال سے قربان ہونے کو تیار ہیں، وہیں ہمارے برادارن وطن نچھاور ہونے کو ریڈی ہیں،اس جم کیلئے اگرمجرم صحافی صرف معافی کے الفاظ ادا کردیں تو ہرگز کافی نہیں سمجھا جائے گابلکہ توہین شخصیت اور سب کے دلوں کو ٹھیس پہونچانے کے الزام میں اسے سخت سے سخت سزااور ایسے چینل پر عبرتناک کارروائی کرنی چاہیے تاکہ مسلمان قوم و ملت بشمول مخلص برادران کے دل کو قرار آئے اور وطن عزیز کو آگ میں جھلسانے سے بچایا جائے۔ریاستی اور مرکزی حکومت سے ہم لوگ مطالبہ کرتے ہیں کہ ظالموں اور شرپسندوں پرفورا نکیل کسیں!۔ تاکہ پھر کسی کو اسلام اور مسلمانوں پر انگلی اٹھا نے کی ہمت و جرأ ت نہ ہوسکے۔

                نیوز 18 چینل کے اس بدزبان اینکر، مینیجنگ ڈائریکٹر اورملزم صحافی امیش دیوگن کی نازیبا حرکت پر عوام دیکھنا چاہتی ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومت کیا قدم اٹھاتی ہے؟ اور مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے کھیلنے کی کیا سزا تجویز کرتی ہے؟ مسلمانوں کیطرح ان پر بھی غداری کا مقدمہ دائر کرتی ہے یااسے سے اورں کیطرح آزاد چھوڑکر الٹا الزام مسلمانوں پر تھوپ دیتی ہے؟ معاذ اللہ! صحافت وترسیل کے نام پر نفرتیں پھیلانے کا سلسلہ اب بالکل بند ہونا چاہیے،جو ملک اور معیشت کو دیمک کی طرح کھائے جارہا ہے؟ نفرت کے سوداگروں کی دوکانیں اب بند کرنے کا وقت آگیا ہے؟ کب تک مسلمان صبر واستقامت کا دامن تھامے خاموش بیٹھے رہیں گے؟اور یہ لوگ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے رہیں گے!یہ خاموشی اب ہمیں جینے نہیں دے گی؟ ابھی جبکہ پورے برصغیر میں اس کے نازیبا الفاظ و تعبیر سے جو واویلا مچا ہواہے۔ ہندوستان کی پوری دنیا میں شبیہ خراب ہورہی ہے، اس مجرم شخص کو اب تک جیل کی کوٹھریوں میں بند کردینا چاہیے مگر افسوس! وہ ابھی بھی آزاد گھوم رہا ہے؟ اور ونود دوا اور ڈاکٹر ظفر الاسلام جیسے امن پسند صحافی پر معمولی باتوں سے غداری کے مقدمات لادے جارہے ہیں؟ کیا یہ ملک کا عدل و انصاف ہے؟ جہاں عدل و انصاف نہیں! وہاں امن و امان کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ملک کے ممتاز ادارے اورمشہور و معروف علماء عظام نے بھی خواجہ صاحب پر بے بنیاد الزام پر اپنی خاموشی توڑی ہے اور جم کر تمام ہم مشرب و مذہب کے نمائندوں نے اپنے اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش کیا ہے اور سب کو متحد ومتفق ہو کراب ظلم و ستم اور توہین و بے حیائی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے! ملزم صحافی امیش دیوگن کی مردود باتوں کے خلاف نہ صرف علماء ملک و قوم نے صدائے حق بلند کی ہے، بلکہ غیر مسلم معتقدین نے بھی اسے برا سمجھا اور گردانا ہے، جگہ جگہ اس چینل اور صحافی پر مقدمات درج کرنے اور اس نیوز 18 چینل کو بائیکاٹ کرنے کی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اور جگہ جگہ اس پر مقدمات درج ہورہے ہیں، پورا ملک بشمول برصغیر دہل کر رہ گیا ہے،دیکھتے ہیں سرکار کیا فیصلہ اور مناسب ایکشن لیتی ہے؟؟؟

                حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کی عالمگیر شخصیت پرکسی کا اختلاف نہیں ہے وہ ہمارے بالاتفاق پیشوا اور رہنما ہیں، ہم کسی کو ان کی شخصیت پر کیچڑ اچھالنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں، حضرت خواجہ اجمیری رحمۃ اللہ صاحب جو بلا امتیاز مذہب وملت سب کے نزدیک انسانیت کے ہم نوا اور اسکے بڑے غم خوار سمجھے جاتے ہیں۔پوری دنیا انکو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور انکا احترام کرتی ہے، ان کی کردارکشی کرنے والے امیش دیوگن نے ان پر جو سنگین الزام لگایا ہے، گھناؤنا ریمارک کیا ہے اور جو گھٹیا تعبیر ”لٹیرا چشتی” کہہ کر انکی عالمگیر شخصیت کو عالمی سطح پر مجروح کرنے کی جو ناپاک کوشش کی ہے۔ ہم تمام مسلمان اورانکے معتقدین برادران وطن شدید مذمت کرتے ہیں اور انکی سخت گرفت اورعبرتناک سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔

                دیکھتے ہیں مودی سرکار۔۔ گوڈی میڈیا کے اس متنازع بیان اور بے بنیاد الزام کے خلاف کیا ایکشن لیتی ہے؟ یا یہ کہ اسکے بھی حوصلے بلند کر کے چھوڑ دیتی ہے جیسا کہ فرقہ پرست حکومت نے ماضی و حال میں دیگرفرقہ پرستوں اور شرپسند عناصر کیساتھ رویہ اپنا یا ہے اور انکے عزائم بلندکیے ہیں اور انکے ناپاک ارادوں کی سرکاری سرپرستی کی  ہے۔ اور انکو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جسکی وجہ سے گوڈی میڈیا اور شر پسند عناصر کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے ہیں کہ اب مسلمانوں کے خلاف نئے نئے فتنہ پرور زہر اگلتے ہیں۔ اور تمام مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہونچاتے رہتے ہیں۔یہ معاملہ سر سے کہیں اونچا نہ ہو جائے، جس پر بعد میں کنٹرول کرنا مشکل طلب ہوجائے حکومت کو آج ہی لگام لگانے کی شدید ضرورت ہے۔

                ان میڈیا والوں کو آخر یہ حق کون دیتا ہے؟ کہ وہ کسی بھی مخصوص طبقہ کے خلاف زہر افشانی کریں؟ اپنے متنازعہ بیانات جاری کرتے رہیں؟ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہیں؟ اور ڈیبیٹ منعقد کرواتے رہیں؟ مسلمانوں کی شریعت، رسم و رواج اور انکے عادات و اطوار تک کو وہ نشانہ بناتے رہیں؟؟ حد تو یہ ہے کہ اب وہ شرپسند عناصر۔ مسلمانوں کی عبادت و ریاضت، مساجد و مدارس، خانقاہوں اور درگاہوں تک کو ٹارگٹ کرنے لگے ہیں، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اب نامور اسلامی شخصیات اور اسلامی شریعت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے نہیں شرماتے ہیں! مسلمانوں کی دل آزاری کرنا حرام ہے، انکی جان ومال کو بھی برباد کرنا بڑا ظلم ہے جو ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا ہے، ایسی ناپاک سازشوں اور کوششوں کو روکنا حکومت کے اولین درجے کا کام ہے جس میں کسی قسم کی کوتاہی ملک کو تاریک غار میں لے جا سکتا ہے۔

                 آخر یہ اوچھی سیاست اور ناپاک پروپیگنڈوں کا کھیل اور تماشہ کیسے اورکہاں سے ہو رہا ہے؟ کون اسکی سرپرستی کررہا ہے؟ کب تک یہ سازش ہوتی رہے گی؟ اب تو کورونا وبا اور چین اور نیپال کی حرکت کے بعد تو یہ ڈرامہ ملک کے مفاد و معیشت کی خاطر بند کردینا چاہئے!!!

Comments are closed.