Baseerat Online News Portal

دردناک واقعات:دیکھو مجھے جو دیدہ ٔ عبرت نگاہ ہو

ش م احمد
ٔٔ7006883587
دیس اور دنیا میں گزشتہ تین ماہ سے کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کورونا وائرس انسانوں کو حلکم میں ڈالنے سے ذرا سا بھی پیچھے ہٹا ہو۔ انڈیا میںمہلک وبا کے چلتے خون کے آنسورُلانے والے واقعات کا تسلسل جاری ہے ، ان سے حسا س دل انسانوں کے کلیجے پھٹ رہے ہیں ، پلکیں آنسوؤںسے تر ہیں ، دل پاش پاش ہیں ، جذبات مجروح ہیں ۔ سوچتا ہوں آخر آئینہ ٔدہر کووڈ۔۱۹ کے حوالے سے روز روز دردناک واقعات، جگرسوز مناظر، قیامت خیز قصے، تکلیف دہ تصویریں دکھا کر انسا ن دوست حلقوںکا رنج والم دوآتشہ کر نے سے باز کیوں نہیں آرہا؟ آخر قدرت بھی بڑے بڑوں کی خطائیں اور گناہ بھوکے پیاسے، غریب ولاچار مزدوروں اور ان کے بیوی بچوں کے کھاتے میں لکھ کر پے در پے ان سے ہی کیوں انتقام لئے جارہی ہے؟ اس سرزمین کے غریب باسیوں کے لئے انسانی المیوں کی باڑھ تھمنے کانام کیوں نہیںلے رہی ہے؟
اس میں دورائے نہیں آئینہ ٔ دہر کا یہ مایوس کن عکس ہم سب کے لئے بہت بہت دل آزار اور دل شکن ہے ۔ دل آزاری اور دل شکنی کی یہ ہوائیں ابھی کورونا کے روپ میں بستی بستی درد وکرب ہی بانٹتی پھرتی ہیں کہ امفان طوفان مغربی بنگال اور اوڑیسہ میں آبادو شاداب بستیوں کا وناش کر کے مرثیہ خوانی کی ایک نئی لہر کا زیروبم غم کے سمندر میں پیدا کر دیتی ہے۔ یہ قہرسامانیاںں ابھی اپنے بال وپر ہی پھیلاتی ہیں کہ فوج درفوج ٹڈی دَل کھڑی فصلوں پر ٹوٹ کر کسانوں کو بے موت ماردیتی ہیں ؎
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگتے ہیں
در د کا یہی پیوند ہمارے قلب ونگاہ کو جھٹکے پہ جھٹکا دیتی چلی آرہی ہے ۔ میرا یقین ہے کہ دلِ روشن اورجذبہ ٔانسانیت سے سرشار لوگوں نے یہ اندوہناک کہانی میڈیا کی زبانی سن کرلازماً سر دآہیں بھر لی ہوں گی کہ ایک چھیالیس سالہ مزدور کا صرف اس بنا پر گھر واپسی ایک ناتمام خواب بن کر رہا کیو نکہ ٹرین میں سفر کے دوران ہی سانسوں سے ا س کا رشتہ بھوک پیاس کی شدت سے ٹوٹ گیا ۔ کہانی یہ بنی کہ بدترین بدنظمی کا شکار انڈین ریلوے چھیاسٹھ گھنٹے تک اس غریب مسافر کو ایک دانہ بھی کھانے کو پیش نہ کر سکا، حالانکہ اس نے ریل کا جو ٹکٹ خریدا تھا اس میں باضابطہ طور ناشتہ بھی شامل تھا لیکن اُسے کھانے پینے کے بجائے موت کاپیالہ پینے پر گزارہ چلانا پڑا۔اسی طرح یہ تحقیق طلب جانکاہ خبر بھی ریلوے کی بدنظمی کو قابل دست اندازیٔ قانون بتائی جاتی ہے کہ کھانے پینے کی عدم دستیابی سے دس ماہ عمر کی ایک ننھی کلی موت کے ہاتھوں مسل دی گئی۔ فسانہ یہیں نہیں رُکتا ، ہم میں سے بہت سوںنے کل پرسوں ٹی وی چنلوں سے ایک مری ماں اور اس کے معصوم بچے کا ناقابل ِبرداشت غم انگیز منظر اشک گریاں قلب بریاں ہوکر ضروردیکھا ہوگا ۔ یہ حزنیہ کہانی انسانیت کے چہرے پر ایک اور زناٹے دار طمانچہ رسید کر گئی ۔ میں نے بھی سٹوری کہلانے والی اس درد بھرے واقعے کو بہ نگاہ ِ عبرت دیکھا ۔ کیا دیکھا، آپ بھی سنئے :
اِدھر ایک مزدور خاتون ( ماں) کی میت ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ساکت وصامت آسمان کی طرف منہ کئے پڑی ہے ، اُدھر اس کاتقریباً ڈیڑھ سالہ بچہ اپنی مری ہوئی ماں کو جگا نے کے لئے بار بار اس کے جسم پر تنی چادر ( سہولت کے لئے ہم اسے کفن کانام دیں ) کو اپنے کمزور ہاتھوں سے بار بار ہٹا کر اپنے سر پر ڈال رہا ہے ۔ میں نے محسوس کیا کہ شاید وہ معصومیت کے عالم میں ماں کے آنچل نما کفن میں خود کو چھپا نا چاہتاہے تاکہ زمانے کی برہم ہواؤں سے بچ سکے۔ اسے یہ احساس ہو کہ ماں کے سینے سے چمٹ کر یہ ستم شعارہوائیںاس کا کچھ نہ بگاڑیں سکیں گی ، مگر آہ !!!
یہ ناقابل ِدید منظر دیکھ کر میں سرتا پابھونچکا رہا۔ میری چھٹی حس کو لگا کہ کٹی پھٹی میلی انڈر شرٹ پہنا یہ پابرہنہ نیم عریاں معصوم یتیم بچہ اپنی ماں کی چادر ہٹا کر اہل ِ بصیرت کو اپنا بے کیف ماجرا بزبان ِ حال سنارہا ہے ، وہ اپنی معصوم زبان میں اپنی تلخیاںبیان کر رہا ہے :
’’میری بچاری بھوکی پیاسی ماںمر گئی، لوگ جھوٹ موٹ مجھے کہیں گے تماری ماتا بھگوان کے پاس کھا پی کر لوٹ آئے گی ، ا س کے ساتھ جو ہوا بہت اچھا ہوا، کم ازکم ظالم دنیا کی ستم رانیاں ، افلاس کی ایذائیں، ہم سب کے بھوکے پیٹ ، پیاس سے خشک ہوئے ہونٹ، چہرے کی غمگینی ، آنکھوں کے آنسو ماں کو اب مزید ستانے بھگوان کے نہیں پہنچیں گے ۔
میری ماں نے جنم لیا تو اسی کے ساتھ اُس کی تکلیفوں محرومیوں کی کرم کنڈلی بھی شروع ہوئی۔ اس کی سات پشتوں کی قسمت میںغربت کے ہاتھوںغم والم کی ٹھوکریں ، مصائب کے دھکے، المیوں کی بارشیں، غریبی و بے چارگی لکھی ر ہیں ۔ آج میں کورونا کے بھیانک دور جب اپنی ماں کو دائمی طور وداع کر رہاہوں، میں پورے یقین و اعتماد سے اپنی زندگی کے بارے میں پیش گوئی کر تاہوں کہ ماں کی یہی انمول وراثت پتھر کی لکیر کی مانند اب میرا بھی مقدر ہو تی ر ہے گی۔ میں ایک معصوم کم فہم بچہ ہوں مگر جانتا ہوںکہ میری پیاری ماں کا قاتل کا تب ِ تقد یر نہیں بلکہ جابرانِ وقت اوربڑ بولے حکمران ہیں۔ ہماری کروڑوں زندگیاں ان کی حکومت وسلطنت قربان ہوں تو ان کا بال بھی بیکا نہ ہوگا !انہی مہربانوں کے شُبھ ہاتھوں میری ماں کی بے رحم موت کے بعد اب شان ِ بے نیازی کے ساتھ یہ بڑے لوگ دُکھوں، تکلیفوں اور المیوںکے ساتھ مرا حتمی قبالہ لکھیں گے ، ایک دن چلتے چلتے میرا بھی وہی حشر ہوگا جو آج ماں کا ہوا۔ آپ یقین مانئے میری پہاڑجیسی اٹل محرومیوں سے، میرے نت نئے استحصالوں سے، اپنے خالی پیٹ کی آگ بجھانے کی اَنتھک جدوجہد میں میری ناکامیوں سے ہی جب میرے ان لاڈلے چہیتے حکمر انوں کی سیاسی دوکانیں چلتی ہیں ،ان کی کرسی کا دانہ پانی چلتاہے، ان کی عیاشیوں کا دھندا بھی بغیر کسی لاک داؤن کے جاری رہتا ہے ، تو وہ بھلا مجھے کیوںراحت دینے لگیں ؟
اگر دووقت روٹی کی یقینی دستیابی، بیماری سے بچنے کی ضمانت ، خواندگی کی روشنی آنکھوں میں بسانے کی قوت ، سر پر چھت کی سہولت کا میرا دیر ینہ خواب ہمیشہ ہمیش کے لئے شرمندہ ٔ تعبیر ہوگیا تو اپنے ان سیاسی مداریوںکو بھاشن کے لئے الفاظ کے بھنڈار ، جملوں کے ذخیرے ، وعدوں کے گودام کہاں سے میسر ہوں گے؟ پھر تو اُن کے سیاسی چھل کپٹ کا دَم پل بھر میں گھٹ کر رہ جائے گا۔ ا س لئے یہ دل سے کبھی نہیں چاہتے کہ ان کی توسط سے میرا کبھی کوئی بھلا ہو ، میں بھی سر اونچا کر کے جی سکوں، مجھے بھی عزت ِ نفس نام کی چیز پیاری لگے ۔ زبانی کلامی چاہے یہ سیانے مجھے کتنا ہی آتم نربھر ہونے کا اُپدیش دیں ، کتنی ہی بار بیس لاکھ کروڑ روپے امداد کی جگالیوں سے سہانے سپنے دکھائیں ، کتنی ہی طفل تسلیاں دے کر’’ غریبی ہٹاؤ ، اچھے دن آئے‘‘ کی راگ چھیڑ یں، میرے ہر ے زخم ہرگز ہرگز مندمل نہ ہوں گے ۔ کڑواسچ یہی ہے کہ کل بھی بھوک میراگلا دبا رہی تھی ، آج کورونا دور میں بھی بھوک ہی میری حد سے زیادہ جانی دشمن بنی ہے ۔ بے نوائی میری شناخت ہے، آج بے روزگاری اُسی طرح مزدور کا اوڑھنا بچھونا ہے جیسے کل تھی، بلکہ سچ پوچھو تو گزرے ہوئے کل سے یہ آج یہ زیادہ تیکھی ترچھی ہے ۔کل کے مثل آج بھی غریب کے ساتھ ہر کوئی مذاق جائز سمجھا جارہاہے ، حتیٰ کہ آج بھی یُگ یُگ سے بندھوا مزدور سمجھ کر یوگی جی مزدور کے لئے کام دھندے کی تلاش میں دوسری ریاست چلے جانے کو اپنی اجازت سے مشروط کر رہاہے۔ مزدورکے لا ینحل مسئلوں سے ان راج گروؤں کا اگر کوئی سروکار ہے تو صرف اتنا کہ غریب اپنا ووٹ ان کے سیاسی نیلام گھر کے بھینٹ چڑھائیں ، بدلے میں ان سے بے مروتی اور سنگ دلی پائے۔ ان نیتاؤں کا اگر مزدور کی غربت سے کوئی لینا دینا ہوتا تو الل ٹپ لاک ڈاؤن کر کے یہ اس کے کام کاج کی تمام راہیں بند کر کے اسے بھوکوں مرنے نہ چھوڑدیتے۔ میں کہتا ہوںمیری بیماری سے ان کا کیا بگڑتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ میں اگر پڑھ لکھ کر سوچنے سمجھنے پر ان کی اجارہ داری توڑدوں تو بھلا اُن کی کرسیاں رہیں گی کہاں ؟ اس لئے یہ تعلیم وتربیت کے بجائے مجھے گنوار اور اَجڑ دیکھنا پسند کر تے ہیں۔
اس وقت کسمپرسی کی مثال بنی میری ماں کی نعش مجھے میرے اپنے اصل مستقبل کا آئینہ دکھارہی ہے ۔ جن گھمبیر حالات میں آج یہ غم کی ماری ظالم وجابردنیا چھوڑچلی، کل میں بھی اسی طرح کسی دوراہے چوراہے پر تم لوگوں کوبے گور وکفن پڑا ملوں گا۔ پھر تم لوگ بھی شوق سے میری محرومیوں اور بے نوائیوں کی تصویریں فلمیں بناکرانہیں بیچ کھائیں گے تاکہ میرے دُکھوں کی تجارت سے لاکھوں کروڑوں روپے تمہاری تجوریوں کی زینت بنیں، مگر آج تم سب بڑے لوگ مجھے جھوٹا دلاسہ دینے کی توفیق بھی نہیں پارہے ہو‘‘۔
مجھے لگا کہیںیہ یتیم بچہ اپنی مری ہوئی ماں کے جسم پر سے کئی بار ساڑھی ہٹا کر اُسے یہ تو نہیں بول رہا تھا:ماں ! اُٹھ بھی جاؤ، تجھے اور کتنی دیر سونا ہے ، مجھے اپنی گودی میں سہلادے ،چھاتی کا میٹھا میٹھادودھ پلا دے ، میرے لئے مخملی بستر بن جا ، زوروں کی نیند آرہی ہے ، یہاں یہ اجنبی بھیڑ مجھے کھائے جارہی ہے، جھلستی گرمی کے ظالم تھپیڑے بھی ستارہے ہیں۔اُٹھونا!
ہمارے یہاںہر جگہ دکھوں صدموں کی لہلہاتی فصلوں کے بیچ یہ ایک نئی کہانی ہے جو سماج میں اوپر سے نیچے تک انسانیت کی بد ترین موت پر ماتم کناں ہے ۔ مجھے نہیں پتہ ٹی وی کے چھوٹے اسکرین نے دُکھی کہانی کے اس دل گداز منظر نے ہمیں درد کی کتنی بڑی ٹیسیں سونپ دیں ، مگر میں صرف ا تنا جانتاہوں کہ اس کم نصیب بچے کی سلطنت اپنی ماں کی گودی تھی اور حکومت اس کی مامتا کی سرحد تک محدودتھی۔اس سرحد کا اب نام رہا نہ نشان ۔ آپ ہی بتائیں ہم اس ننھی جان کو یہ تلخ حقیقت کو کس زبان میں بتاسکتے ہیں کہ بچہ تُو ہمیشہ کے لئے اجڑ چکا ہے، تیری ماں بھگوان کے پاس بھوک اور پیاس کی لڑائی ہار کر چلی گئی، اس لئے تُو یتیم کہلاتا ہے یعنی وہ بچہ جس کی زندگی پر نئے نئے غموں ، پریشانیوں ، اذیتوںاور مصیبتوں کی پُروائیاں ہر موڑ پر اور ہرموسم میں چلتی ہی رہیں گی ، یاد رکھ خود بھوکا رہ کر تجھے دودھ پلا نے و الی ماں۔ بار باراپنی گودی میں سہلانے والی ماں ، تھپکیاں دے کر سلا دینی والی ماں، لوریاں سناکر آنکھوں میں میٹھے سپنے دینے والی ماں، رونے کی معمولی آواز پر تڑپنے والی ماں ، مسکانوںپر جان چھڑکنے والی ماں، تمہیںبیمار دیکھ کر اپنا سکون وآرام گنوا دینے والی ماں۔۔۔ آہ! ماںاب مٹی کا ایک ڈھیر ہے ،بے حس وحرکت فانی وجود، سُدھ بُدھ سے خالی شریر جو صرف چتا کا منتظر ہے ، جسے شمشان گھاٹ کی آگ راکھ میں بدل کرآپ سے آپ سار اقصہ گول کر ے گی ۔
اس بے یارو مددگار مری ہوئی بہاری عورت کا یوںقصہ تمام ہوا مگر اس کے غریب شوہر کی زندگی اور بھی دشوار تر ہو گئی ۔ میاں بیوی اور دو چھوٹے چھوٹے بچوں پر مشتمل یہ کنبہ گجرات سے بہار کے کٹہار ضلع کی جانب گھرواپسی کا سفر ٹرین میں طے کررہاتھا، کیونکہ گجرات میں اس کے پاس کوئی کام دھندا نہ رہا تھا۔ بے کاری اور تنگ دستی نے بہت جلد بھوک کے اژدھے کا روپ دھارن کر کے اس کنبے کو ڈسناشروع کیا۔ مجبوری اور بے بسی کی دو دھاری تلوار گلے پر سونتی دیکھ کر میاں بیوی اور دوبچے مجبوری کی حالت میں گھر لوٹ رہے
تھے ۔ مزدور عورت کے شوہر کو سان گمان نہ تھا کہ سات پھیروں میں جنم جنم کا ساتھ دینے کا اپنا وچن بھول کراس کی بیوی دو دن تک کھانے پینے سے محروم رہ کر بالآ خر سر راہ مرجائے گی ، جاتے جاتے وہ اپنے دومعصوم بچوں کا بوجھ اپنے نادارشوہر کے کمزور شانوں پر ڈال گئی ۔ اب یہ تین زندگیاں آنے والے دنوں میں کن آندھی طوفانوں کاسامنا کریں گی ، اس کی کچھ کچھ پیش بینی بھی نہیں کی جاسکتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ آج ہم سب لوگ اپنے حاکمان ِ وقت کو بلاناغہ کورونا کورونا چلاّ تے پارہے ہیں، ان کی گفتگو ؤںسے، سماعتوں سے، تصویروں سے یہی جھلکتا ہے کہ ان کے پاس عالمی وبا سے نجات پانے کا کوئی نہ کوئی نقش ِ راہ ہے مگر متذکرہ بالا دل خراش واقعات سے
اخذ ہوتا ہے کہ یہ ہماری محض خوش فہمیاں ہیں ۔ قدرت کی طرف سے عذاب کا جو بدترین کوڑا ہم پر اجتماعی طور مسلسل پڑ رہاہے وہ خدانخواستہ اور شدید تر ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ حکومت کے پاس محنت کشوں ، مزدوروں ، چھوٹے موٹے کاروبار سے جڑے غریبوں کی مدافعت میں کوئی لائحہ عمل ہے ہی نہیں، نظم نسق کی باگیں بھی یکسر ڈھیلی پڑی ہوئی ہیں ، عدل و انصاف کا پلڑا بھی ہر گزرتے لمحے کیس ساتھ ہلکا ہو تا جارہاہے۔
فاعتبرو یا اولیٰ الابصار
نوٹ: ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں

Comments are closed.