Baseerat Online News Portal

دلت سیاست اور سیاست میں دلت ، پاسوان سے پاسبانی تک

عبد الحمید نعمانی
بھارت میں دلت سیاست کا ایک خاص معنی ہے اور اس کی تاریخ خاصی ماضی تک جاتی ہے ، اس میں سنت اور سیاست داں دونوں شامل ہیں ، دلت تحریک اور سیاست ، بھارت کے اہم موضوعات میں سے ایک اہم ترین موضوع ہے ، جب بھی دلت سیاست کے منظر نامے پر کوئی قابل ذکر شخصیت آتی یا جاتی ہے تو کیا کچھ ہونے والا ہے اور جو دلت سیاست اور دلتوں کی ترقی و تنزلی کے تناظر میں کئی قسم کے ایسے مسائل و مباحث ملک کے سامنے آجاتے ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ،20-19مارچ 1927 میں جب دلتوں /اچھوتوں کے ایک بڑے اجلاس کو خطاب کر تے ہوئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ نے کہا تھا ۔
1. اچھوت اونچ نیچ کی سوچ کو اپنے دماغ سے نکال دیں ،
2. اپنی مدد آپ کریں علم حاصل کرنے اور عزت و وقار سے جینے کا عہد کریں ،
3. مردہ جانور کھانا چھوڑ دیں ، (امبیڈکر جیون درشن از ڈی آر،نم صفحہ 40)
تب بھی بہت سے لوگوں کے کان کھڑے ہوگئے تھے ، انھیں لگنے لگا تھاکہ کچھ ہونے والا ہے ، ڈاکٹر امبیڈکر سے پہلے مہاتما جیوتی با پھولے نے اپنی تخلیق‘‘ غلام گری’’ اور عملی جدو جہد سے سماج میں خاصی ہلچل پیدا کر دی تھی ، درمیانی دورمیں پیری یارنے بھی کئی طرح کے سوالات سماجی اورنچ نیچ اور سیاسی و سماجی نمائندگی کے حوالے سے اٹھائے تھے ، اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے کانشی رام نے اقتدار میں دلتوں کی حصے داری کے معاملے کو مضبوطی سے سماج کے سامنے رکھا۔ ماضی قریب اور حال میں مایاوتی ، رام داس اٹھاولے ،ادت راج اور رام بلاس پاسوان کا ابتداً نام کام سامنے آیا تو سمجھا یہی جارہا تھا کہ یہ بھی نظریات پر مبنی دلت سیاست کو بھارت میں آگے بڑھانے کا کام کریں گے ، لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی یہ سارے کے سارے محض اقتدار کو مقصود و محور بناکر سرگرم عمل ہوگئے اور نظریے کی بات بہت دور اور پیچھے رہ گئی ،عناصر اربعہ رام بلاس پاسوان ، رام داس اٹھاولے ، مایاوتی اور ادت راج میں سے علمی و تعلیمی لحاظ سے سب سے آگے ادت راج ہیں ، تاہم مواقع سب سے زیادہ مایاوتی اور رام بلاس پاسوان کو ملے ، لیکن اٹھاولے سمیت رام بلاس پاسوان ، مایاوتی نظریے پر مبنی دلت سیاست کے بجائے ، موقع پرستی کی سیاست کے شکار ہوگئے اگر چاروں متحد ہوکر مقاصد کی یکسانیت کے پیش نظر کام کرتے تو ملک میں دلت سیاست کو لے کر ایک الگ طرح کا ہی منظر نامہ ہوتا ، جس طرح دلت دانشوروں اور اہل علم و قلم نے علمی ، تاریخی ، سماجی ، مذہبی حوالے سے ، برہمن وادی عناصر کا برابر سرابر مزاحمت و مقابلہ کرتے ہوئے د فاعی پوزیشن میں ڈال دیا ہے ،لٹریچر کی سطح پر کئی معاملے میں تو آگے نکل گئے ہیں ،اس طرح سیاسی طور سے تفوق پسند عناصر کا مقابلہ نہیں کیا جاسکا بلکہ ان کے ساتھ ہوکر بسا اوقات ان کو تقویت پہچانے کا کام کیا جس کی وجہ سے دلت سماج کو مطلوبہ توقیر و توجہ نہیں ملی اور یہ سمجھ لیا گیا اور پیغام گیا کہ دلت قیادت کو اقتدار میں تھوڑی بہت جگہ دے کر نظریے سے ہٹایا اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور ہوا بھی یہی ، رام بلاس پاسوان کے جانے کے بعد دلت سیاست اور سیاست میں دلتوں کی سماجی و مذہبی اور سیاسی حصے داری اور مطلوبہ وقار و حیثیت اور گہرائی تک پہنچ چکے جات پات کے زہر کے تریاق اور بہتر سماجی تبدیلی کو لے کر سوال بھی سامنے آرہا ہے ، رام بلاس پاسوان کے سیاسی کیرئیر کا آغاز جس طرح سے ہوا تھا اور جس طرح ایک با اثر طاقتور دلت لیڈر کے طور پر سامنے آئے تھے ، اس سے کمزوروں ، دلتوں ،محنت کشوں کی ایک موثر آواز کی بجا طور سے توقع پیدا ہوگئی تھی کچھ برسوں تک جس طرح کا گفتار و کردار سامنے آرہا تھا ، اس کے پیش نظر توقع بے جا بھی نہیں تھی ، لیکن گزرتے دنوں کے ساتھ بیشتر دلت لیڈر اس خیمے کے ساتھ ہوگئے ، جس سے سماجی و اقتصادی ، مذہبی اور سیاسی طور سے مخالفت و مزاحمت تھی ، اپنے لیڈروں کو دیکھتے ہوئے دلت اور پسماندہ طبقات کے عوام بھی انھیں کی راہ پر چل پڑے اورنظریہ اور جیوتی باپھولے ، امبیڈکر ،کانشی رام کی راہ سے بڑی تعداد ،دور ہوتی چلی گئی ، ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ یوپی (اور دیگر ریاستوں)میں پانچ برسوں میں بی ، جے پی کے دلت ووٹوں کا حصہ 10فی صد سے بڑھ کر 34فی صد ہو گیا ہے ، جات پات کی زد میں آنے کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بی،جے پی کی جیت میں دلت فیکٹر کا اہم رول رہا ہے ۔ اس کا شمالی ہند کی ریزرو سیٹوں پر خاصا اثر و تفوق ہے ۔ بی ،جے پی نے دلت ووٹوں کو اپنے حق میں کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ جب کہ مایاوتی وغیرہ صرف کچھ جاٹو ووٹوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئیں ، غیر جاٹو دلت کی بڑی تعداد بی ،جے پی کے ساتھ چلی گئی،اس کے باوجودوقت آنے پر جات پات کے زیر اثر آج بھی اس کے تفوق پسند لیڈر ، اپنا وزن دلتوں کے خلاف ہی ڈالتے نظر آتے ہیں ، ہاتھرس کانڈ بھی اس کی واضح مثال ہے ۔ چندر شیکھر آزاد جیسے نئے اور نوجوان نظریاتی کے ساتھ سماجی و اقتصادی ، سیاسی لحاظ سے ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ، لیکن وہ مایاوتی ، ادت راج ، را م داس اٹھاولے اور رام بلاس پاسوان جیسے نام والے با اثر لیڈروں کے مقابلے ابھی اپنی مطلوبہ جگہ سماج اور سیاست میں نہیں بنا سکے ہیں ، جس کے سبب دلت سماج باوقار اور قابل توجہ حیثیت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکے اعدادو شمار کے مطابق ہر روز 10دلت خواتین عصمت دری کی شکار ہوتی ہیں ،لیکن دلت لیڈر اقتداری تفوق کے حصول میں از حد لگے رہنے کی وجہ سے دلتوں کے خلاف ہونے والے ذلت آمیز واقعات پر روک لگانے لگوانے میں ناکام رہے ہیں ، دلتوں کی سیاسی ، سماجی سر گرمیوں کو اکثریت کے تفوق پسند طبقے اپنی توہین اور وقار و تفوق کے خلاف سمجھتے ہیں ، جب کہ تفوق پسندوں کی تعداد ، دلتوں اور محنت کش طبقات کے مقابلے خاصی کم ہے، رام بلاس پاسوان کے رام منوہر لوہیا ، جے پرکاش نارائن ، کر پوری ٹھاکر وغیرہم کے قریبی ہونے کے ناتے ، خاص طرح کی اصولی و نظریاتی سیاست کی امید تھی ، انھوں نے 1983ءمیں دلت سینا بنا کر سیاست کو ایک سمت دینے کا اشارہ دیا تھا ، لیکن2000ءمیں اپنی الگ پارٹی بناکر جوڑ توڑ کی سیاست شروع کی اور اقتدار میں رہنے والی سرکار میں اپنی جگہ حاصل کر نے میں لگ گئے ، اس میں وہ کامیاب رہے لیکن دلت سیاست کی نظریاتی و اصولی بنیاد کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی ہے ۔ وہ پاسوان بن کر رہ گئے ، دلتوں ، کمزوروں کے پاسباں نہیں بن سکے ،بہار میں بھی راجد ، جد یو ، بی ، جے پی وغیرہ بڑی پارٹیوں میں لوک جن شکتی پارٹی کا شمار نہیں ہے ،لیکن رام بلاس پاسوان اپنی پارٹی کے ساتھ کسی نہ کسی جہت سے موجودگی درج کرانے میں کامیاب رہے ہیں ، جیتن رام مانجھی کے سامنے آنے سے پہلے رام بلاس پاسوان بہار کے واحد دلت لیڈر تھے ۔ اسمبلی کی سیٹوں میں 38سیٹیں ریزرو ہیں ، 40اسمبلی انتخابی حلقے میں دلتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، کم و بیش دیگر سیٹوں میں بھی دلتوں کی آبادی ہے ۔پاسوان ، سرکار بنانے کی پوزیشن میں تو کبھی نہیں رہے ،لیکن سرکار بنانے والی پارٹی /پارٹیوں کے لیے پاسوان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا ، اس کے باوجود برہمن وادی تفوق پسندی کے خلاف کوئی نظریاتی محاذ قائم نہیں کر سکے۔ لہذا مہاتما جیوتی با پھولے ، ڈاکٹر امبیڈکر ، پیری یار ، کانشی رام وغیرہ اور ان سے پہلے کبیر داس ، رام داس ، تکا رام جیسی ہستیوں کی طرح ، فکر و عمل میں زندگی کی امید بھی نہیں کی جاسکتی ہے ، اقتدار اور موقع پرستی کی سیاست موقع اور وقت گزرتے ہی ختم بھی ہوجاتی ہے ، دلت دانشوروں نے گرچہ نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کی اچھی کوشش کی ہے ۔ تاہم اسے دلت سیاسی لیڈر اپنے عمل اور سیاست میں مطلوبہ سطح پر شامل نہیں کر سکے ، یہ دلت سیاست کا ایک بڑا المیہ ہے ، اسے کون ختم کرے گا یہ یقین کے ساتھ کہنا مشکل ہے۔

Comments are closed.