Baseerat Online News Portal

دوہرامعیار

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
جس وقت جوکام ہوناچاہئے، اس وقت اگروہ کام نہ ہوتوبڑامسئلہ پیداہوجاتاہے، اس کااندازہ آپ ملک کے اندرکوروناکی مہاماری سے بخوبی لگاسکتے ہیں، جس وقت ملک بندی کی گئی، دراصل اس وقت ملک بندی ہونی نہیں چاہئے تھی اورجس وقت ملک بندی اختتام کوپہنچی، اس کے لئے وہ وقت مناسب نہیں تھا، ملک بندی ۲۲؍مارچ ۲۰۲۰ء کے بعد شروع ہوئی اوراس بے ڈھنگے پن سے شروع ہوئی ، جس کامشاہدہ دنیاکی آنکھوں نے دیکھا، لوگ کس طرح مارے مارے پھرنے پرمجبورہوئے؟ بھوک سے کس طرح لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں؟ کس طرح بے چارے مزدوروں کوہزارہاکلومیٹرپیدل سفر کرنا پڑا؟ بچے کس طرح زخم خودرہ ہوئے؟یہ سب پرنٹ اورالکٹرانک میڈیاکی تاریخ میں رقم ہیں، اگراس وقت ملک بندی نہ کی جاتی؛ بل کہ لوگوں کومہلت دی جاتی اوران سے یہ کہاجاتاکہ اس مہینہ کے آخرتک جسے جہاں جاناہے، چلے جائیں، ملک بندی ہونے والی ہے، سفرکی تمام سہولتیں ختم کردی جائیں گی، کارخانے اورفیکٹریاں بندکردی جائیں گی، کنسٹرکشن کاکام روک دیاجائے گاتواس وقت جن حالتوں کاسامنا کرنا پڑا اورمزدوروں کوجس طرح کی پریشانیاں اٹھانی پڑیں، وہ نہیں کرناپڑتااوروہ پریشانیاں نہیں جھیلنی پڑتی۔
اب اس وقت ’’ان لاک ون‘‘کادورشروع ہوچکاہے، پی ایم جی نے اعلان کردیاہے کہ اب ملک کے لاک ڈاؤن کوان لاک کرناضروری ہوگیاہے اور۲۲؍جون کے بعد سے جن سڑکوں پرخاک اڑرہی تھی، ان پرگاڑیاں چلنی شروع ہوچکی ہیں، دکانیں کھول دی گئی ہیں، بازاروں کی رونق واپس آرہی ہے، بس اب کچھ ہی چیزیں ایسی ہیں، جنھیں ان لاک کرنے کاآرڈرنہیں دیاگیاہے، ورنہ اکثرچیزیں ان لاک ہوچکی ہیں، جان بچانے کے لئے ایساکرناواقعتاً بہت ضروری ہوگیاتھا؛ لیکن دوسری طرف کوروناکی مہاماری کودیکھتے ہوئے یہ کہاجاسکتاہے کہ ملک بندی کااصل وقت یہی تھا؛ کیوں کہ اس وقت ایک ایک دن میں کورونامتاثرین کاتعدادسترہ سترہ ہزارتک پہنچ رہی ہے، جس کاصاف مطلب یہ ہے کہ اس وقت کوروناتیزی کے ساتھ اپنے پنجے گاڑرہاہے اورجس چیز سے بچنے کے لئے ملک بندی کی گئی تھی، ملک اسی کاشکارہورہاہے، ظاہرہے کہ یہ سب غلط فیصلوں کے نتیجہ میں اوراس وجہ سے ہورہاہے کہ جس وقت جوکام ہوناچاہئے ، اس وقت وہ کام ہوا نہیں۔
اس طرح کے آرڈرسے نہ چاہتے ہوئے بھی ہم یہ سمجھنے پرمجبورہیں کہ ’’کوروناویسانہیں، جیساہمیں بتایاجارہاہے‘‘، ابھی حال ہی میں WHOکی طرف سے ایک ویڈیووائرل ہوئی ہے، اس میں تویہ بھی کہاجارہاہے کہ یہ بیماری ایک دوسرے سے منتقل نہیں ہوتی توسوال یہ ہے کہ اسی بات کی وجہ سے پوری دنیاکولاک ڈاؤن کردیا گیا اوراسی WHOکے کہنے سے کیاگیا، پوری دنیا کی معیشت تبارہ وبربادہوگئی اوراب اسی WHOکی طرف سے ویڈیویہ وائرل ہورہاہے کہ یہ بیماری ایک دوسرے سے نہیں پھیلتی، اس سے بھی یہی لگتاہے کہ ’’کچھ توہے پردۂ زنگاری میں‘‘۔
ہمارے ملک کی حالت تو ملک بندی کے ابتدائی دن سے ہی مشکوک چلی آرہی ہے، جس کی ابتداشاہین باغ کی احتجاجی علامتوں کواکھاڑپھینکنے سے ہوئی، پھر تبلیغی جماعت پرکوروناکے پھیلاؤ کے الزام نے یہ ثابت کردیاکہ ’’کورونابہانہ ہے، مسلمان نشانہ ہیں‘‘، جس الزام کی وجہ سے غیر تو غیر، اپنے بھی یہی کہنے لگے کہ واقعی اس میں تبلیغی جماعت نے جرم کاارتکاب کیاہے، اس کے بعداسی ملک بندی کے دوران چن چن کران لوگوں کوجیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا، جنھوں نے سی اے اے کے غیرجمہوری قانون کے خلاف زبان بھی کھولی تھی، اس میں حاملہ خاتون تک کونہیں بخشا گیا، پھراس قانون کی آڑمیں جودہلی فسادبرپاکیاگیااورجواس کے اصل مجرم تھے، جن کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے یہ فسادپھوٹاتھا، ان سب پر نظرکرم کرتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی، جودفاعی پوزیشن اپنائے ہوئے تھے، اس چارج شیٹ نے بھی یہ واضح کردیا کہ حکومت کس نہج پرکام کررہی ہے؟
قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرظفرالاسلام خان کا مسلمانوں کے خلاف اپنائے جا نے والے رویہ پرآواز اٹھانے والے عرب کے بعض ٹیوٹ کے جواب میں صرف ایساہی توکہاکہ شکرہے ، تم نے ہمارے دردکوسمجھااوراس کے لئے آواز اٹھائی، اس قول کوملک دشمن قراردیاگیا، یہ توامریکہ نے بھی کہا، امریکہ سے ہندوستان نے اپنے تعلقات کیوں ختم نہیں کرلئے؟ اس کی توچمچہ گیری کرتے نہیں تھکتایہ ملک، اس نے ظفرالاسلام خان سے بڑی بات کہہ دی تھی، پھرکیوں نہیں اس کے خلاف ایک آواز بھی بلند کی گئی؟ ظفرالاسلام خان پرملک سے غداری کامقدمہ ٹھونک دیاگیا، اورامریکہ سے تعلقات بڑھانے اورسانٹھ گانٹھ کرنے میں لگاہواہے ہمارادیش، تعجب ہے کہ دیش کابادشندہ اپنادرد بھی بیان نہیں کرسکتااورغیراسی درد کوبیان کرے توکوئی بات نہیں۔
اس ملک میں اب صاف ہوچکاہے کہ یہاں کامعیاردوہراہے، ہرچیزکامعیاردوہراہے، وشنومندرمیں لوگ پھنسے ہوتے ہیں، مرکزنظام الدین میں چھپے ہوتے ہیں، اپنے حق کے لئے جمہوری طریقہ پرلڑناجرم ہے، جب کہ سرعام گولی چلانے کی بات کرنا؛ بل کہ گولی چلانااورگولی چلانے کے لئے ابھارناجرم نہیں، دھمکی دیتے ہوئے کسی پرہلہ بولنااوردوکانات ومکانات کوخاکسترکردیناجرم نہیں، دفاعی پوزیشن اختیارکرناجرم عظیم ہے، اس ملک کی ایک بڑی اقلیت اگراپنے مذہب پرعمل کرناچاہے اوراس پرسختی کے ساتھ کاربندرہے تویہ جرم ہے، جب کہ دوسرے لوگ معمولی معمولی بہانہ بناکر اقلیتوں کو قتل کریں تویہ جرم نہیں، تعلیم کے لئے فیس میں کمی کرنے کامطالبہ کرناجرم ہے؛ لیکن ان ہی طلبہ پرلاٹھی ڈنڈے برسانااور ان کی ہڈیاں توڑنا کوئی جرم کی بات نہیں، یہ ہے اس ملک کادوہرامعیار۔
مسلمان ہمیشہ سے اس ملک کے قانون کااحترام کرتے رہے ہیں، وہ ہمیشہ سے عدالت پربھروسہ رکھتے ہیں؛ لیکن اب عدالتوں کامعیاربھی بدل چکاہے، اس کی واضح مثال بابری مسجدکافیصلہ ہے، اس پرکوئی ثبوت نہیں کہ مندرتوڑکرمسجدبنائی گئی ہے؛ لیکن پھربھی فیصلہ ان کے حق میں نہیں، تین طلاق کے خلاف دوچاردرخواستیں عدالت میں پہنچیں، اس کااعتبارہوگیااوراس کے حق میں لاکھوں خواتین کامارچ ہوا، ان کے دستخط کے ساتھ لاکھوں کی تعداد میں درخواستیں گئیں؛ لیکن یہ عدالت کی نگاہ میں غیر معتبر، لیوان ریلیشن شپ کے حق میں چندآدمیوں کی درخواست آئی، وہ قابل قبول ہوگئیں؛ لیکن ان کے خلاف میں اٹھنے والی اکثریت کی آواز غیرمعتبر،یہ ہے اب عدالت کامعیار۔
اسی دوہرے معیارکوپھرسے ایک مرتبہ اپنایاگیاہے، جگن ناتھ یاتراکے لئے اجازت دے دی گئی، وہ مذہبی تہوارہے، عیدمذہبی تہوارنہیں، اس کے لئے درخواست غیرمعتبر، جگن ناتھ یاترامیں لاکھوں کی بھیڑتھی، سوشل ڈسٹینسنگ کاخیال بھی نہیں رکھاگیاتھا؛ لیکن پھربھی کوئی حرج نہیں، مساجد میں نمازکے لئے اجازت نہیں، خواہ احتیاطی تدابیرکی کتنی بھی رعایت کرلی جائے، یہ دوہرامعیارکب تک چلے گا؟ اوراس دوہرے معیارکے ساتھ یہ ملک کب تک باقی رہے گا؟ دوہرے معیارپرچلائے جانے والے ملک کبھی ترقی نہیں کرتے، انصاف کے ترازوکے دونوں پلڑے درست ہونے چاہئیں،فیصلے حق کے مطا بق ہونے چاہئیں، دوہرامعیاراپنائے جانے والے ملکوں کاحشربہت براہواہے، ان سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔

Comments are closed.