Baseerat Online News Portal

دینی مدارس اپنے نظام تعلیم کوبہتربنائیں

مولاناانیس الرحمن قاسمی
قومی نائب صدرآل انڈیاملی کونسل نئی دہلی،چیرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن
علم ایک بیش قیمت صفت ہے اورایسی شے ہے،جومال ودولت،عزت ومنصب سے بھی قیمتی ہے؛بلکہ مال ودولت اورعزت ومنصب کے حصول کاذریعہ بھی ہے اوردنیاوی واُخروی آرام وراحت کاسامان بھی؛ مگر مسلمانوں کے موجودہ ذہنی وفکری سوچ اورسماجی ومعاشرتی رویہ پرغورکیاجائے تویہ بات واضح ہوتی ہے کہ عملی طورپرزمین وجائداد،مکان ودکان اورجاہ ومنصب کی جواہمیت ان کے نزدیک ہے،اس سے کمتراہمیت علم کوحاصل ہے، ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں کی اس سوچ کوبدلیں اوران کے ذہن ودماغ میں یہ بات پیوست کریں کہ ایمان اورعلم واخلاق ہی اصل دولت ہے،باقی چیزیں علم وعمل کی راہ سے آتی ہیں اور ان کی حیثیت ثانوی ہے۔
اس وقت یہ زیادہ ضروری ہے کہ جولوگ علم رکھتے ہیں،وہ ان لوگوں، مردوں،عورتوں اور لڑکے ولڑکیوں کی بنیادی تعلیم کی فکر کریں،جو بے علمی کی وجہ سے نہ صرف جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں؛بلکہ ارتداد کے کنارے پرکھڑے ہیں،لہٰذا اس وقت ایسے مکاتب کے قیام کی خصوصی ضرورت ہے،جو ہرمحلہ اورقصبہ میں ہوں او رجہاں مسلمانوں کو دین کے مبادیات سے واقف کرایاجائے اوران کے بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دی جائے؛تاکہ وہ حلال وحرام سے واقف ہوسکیں اور کفروایمان اورتوحیدوشرک میں امتیاز کرسکیں،خاص طور پراس کے لیے مساجد کو مرکز بنایاجائے؛تاکہ یہ مساجد صحیح معنوں میں ہماری دینی زندگی کا مرکز بن سکیں اورائمہ وعلما ان مراکز سے امت کی رہنمائی اورہدایت کافریضہ انجام دے سکیں،اگرایسا نہیں کریں گے تو یہ امت اور پستی میں جائے گی۔
ابتدائے عہدنبوی سے چوتھی صدی ہجری تک دین کے مبادیات سکھانے سے لے کرقرآن وحدیث اورفقہ وکلام بلکہ طب وفلسفہ کی اعلی تعلیم کے مراکزیہی مسجدیں تھیں،تمام محدثین،ائمہ فقہ حضرت امام ابوحنیفہؒ،امام مالکؒ،امام احمدبن حنبلؒ،امام شافعیؒ اوران کے تلامذہ کادرس زیادہ ترمسجدوں ہی میں ہواکرتاتھا،چوتھی صدی کے بعدمدارس کی تعمیرکارجحان بڑھاتھا۔آج بھی مسجدحرام مکہ مکرمہ،مسجدنبوی مدینہ منورہ میں ابتداسے لے کراعلیٰ تعلیم کاسلسلہ جاری ہے اوریہی طریقہ دنیاکی تمام مسجدوں میں جاری رکھناچاہیے،اس سے کم خرچ میں ہرعمرکے بڑے چھوٹے لوگوں میں دینی تعلیم کی اشاعت ہوگی۔اورامت ہرمحلہ،ٹولہ میں دینی تعلیم سے وابستہ ہوگی۔
بلاشبہ انسان کی سب سے پہلی اوربنیادی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے، اس کے حکم کے مطابق زندگی گزارے تاکہ وہ صحیح راہ پرقائم رہے اورآخرت میں منزل مقصود کو پائے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ دین کے سمجھنے والے اور قرآن کو پڑھنے والے افراد موجود رہیں، جن کا اخلاق وکردار ٹھیک اسی طرح ہو جیسا قرآن چاہتا ہے اوریہی مدارس اسلامیہ کامقصدبھی ہے۔اللہ جل شانہ نے فرمایاہے:
اوروہی ہے جس نے (عرب کے)ناخواندہ لوگوں میں انہی(کی قوم) میں سے (یعنی عرب میں سے) ایک پیغمبربھیجاجوان کواللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اوران کو(عقائدباطلہ واخلاق ضمیمہ سے)پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اوردانشمندی(کی باتیں)سکھاتے ہیں۔
مدارس کے نصاب تعلیم، یاطریقہ تعلیم میں جن بنیادی امورکواہمیت دی گئی ہے، وہ مذکورہ قرآنی ہدایت کے مطابق ہے، مذکورہ آیت کریمہ میں تعلیم وتربیت کے مدارج کوبیان کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ پہلے قرآن کی تعلیم اس طرح ہونی چاہیے کہ مکتب میں ناظرہ قرآن پاک طلبہ پڑھ لیں،یہ تعلیم امت کے ہرفردکے لیے ہے،چاہے وہ مرد ہو، یاعورت۔اسی کے ساتھ اخلاقیات کی تعلیم ہونی چاہیے؛تاکہ لڑکے اورلڑکیاں بلوغ کے مرحلہ سے پہلے گناہوں سے دوررہنے کے عادی بن جائیں اوران کے دل ودماغ میں گناہوں کی نفرت راسخ ہوجائے، اگر ان دوپہلووں پرہم غورکریں تومعلوم ہوگا کہ مدارس ومکاتب بنیادی طورپراسی اصول پرجاری ہیں،البتہ پوری امت کوجس درجہ کاقرآنی واخلاقی علم اورتزکیہ نفس ہوناچاہیے، وہ نہیں ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ جس قرآن کو سیکھنافرض قرار دیاگیا ہے،امت اس فریضہ کومکمل ادانہیں کررہی ہے، اگرمسلم گھروں کاجائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ چندفیصد افراد ہی قرآن صحیح پڑھتے ہیں،باقی اکثر ایسے ہیں،جو قرآن پڑھنا یا توجانتے ہی نہیں ہیں اوراگر جانتے بھی ہیں تو صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں پڑھتے؛اس لیے قرآن سیکھنے اورسکھانے پرخاص توجہ دی جائے۔ محلوں اورگھروں میں اس کا اہتمام اورانتظام ہو،جولڑکے، لڑکیاں اسکول وکالج میں پڑھتے ہیں، ان کے لیے گرمی کے موسم اور دیگر تعطیلات میں قرآن اورعربی زبان کی تعلیم کے لیے مساجدمیں خصوصی کلاس کانظم کریں؛تاکہ وہ قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے والے بن سکیں۔
قرآنی علم کے ساتھ دیگرعلوم نافعہ کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے،رسول اللہ صلی علیہ وسلم جب علم میں اضافہ کی دعاکرتے تھے توعلم نافع کالفظ استعمال کرتے تھے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دعایہ تھی:
اے اللہ! اس دل سے تیری پناہ جو نرم نہ ہو،اس دعا سے تیری پناہ جو قبول نہ ہو،اس نفس سے تیری پناہ جو سیرنہ ہو،اس علم سے تیری پناہ جو نفع نہ پہنچائے، اے اللہ! ان چاروں سے تیری پناہ۔
یہی وجہ ہے کہ مدارس کے نصاب میں دیگرعلوم نافعہ کی کتابیں بھی داخل کی گئیں ہیں؛ تاکہ پڑھنے والوں کو زندگی کے دوسرے معاملات کی بھی واقفیت ہو سکے،جیسے تاریخ، جغرافیہ، حساب یالسانیات میں اردو، ہندی، انگریزی یا دیگر زبانیں پڑھائی جاتی ہیں،اس سے دوطرح کی معلومات حاصل ہوتی ہیں، ایک وہ معلومات ہیں جوانسانی زندگی کے لیے کام آنے والی ہیں، جیسے سماجی علوم، جغرافیہ وتاریخ یا سائنس۔ دوسری لسانیات جو ہر صوبے اور خطے کے اعتبار سے نصاب میں رکھی گئی ہیں،جن سے ہم ہندستانیوں کو سابقہ پڑتا ہے اورروز مرہ کے کاموں میں استعمال کے علاوہ دعوت وتبلیغ میں مددگارہوتی ہے؛مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اصحاب مداس نے مذکورہ علوم کی تعلیم پرصحیح توجہ نہیں دی ہے،نہ ہی ان علوم کے اساتذہ اپنے فن کے ماہر ہوتے ہیں اورنہ ہی ان کی تربیت اس اندازکی ہوتی ہے،جوان علوم کی تعلیم وتدریس کے لیے ہونی چاہیے۔نیززندگی کے دیگرمسائل سے واقفیت کے لیے طلبہ کے سامنے مختلف علوم کے جانکار وماہرین سے موضوعات کے اعتبارسے خطاب بھی کراتے رہنا چاہیے،اس سے وہ کمی دور ہوگی،جومدارس کے علماوطلبہ کے اندرعمومی طورپرپائی جاتی ہے،مگران خطابات ومحاضرات کا اہتمام تسلسل کے ساتھ درجہ وارہوناچاہیے۔
اسی کے ساتھ آج مدارس میں جدیدعصری علوم کے ساتھ کمپیوٹرکی بنیادی تعلیم کااضافہ کرناچاہیے اوراس کاکلاس لسانیات کے کلاس کے ساتھ ہی لسانی اسباق کوپڑھانے والے اساتذہ کوٹریننگ دے کرکرایاجاسکتاہے،اس کے لیے الگ سے استادکی تقرری ابتدائی مرحلہ میں کرنے کی شایدضرورت نہ ہو،اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ موجودہ عہدمیں اورآنے والے مستقبل میں اس کی ضرورت کتنی اوربڑھ جائے گی،اب کمپیوٹراورانٹرنیٹ وغیرہ دینی علوم تک آسانی سے رسائی کابھی ایک بڑاذریعہ ہوگئے ہیں؛اس لیے کمپیوٹرکی تعلیم آسان طریقہ پردینے پرپوری توجہ دینی چاہیے۔
جہاں تک مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کا معاملہ ہے تووہ اس لیے کہ وہ قرآن وحدیث کی زبان ہے اوردینی کتابوں کااصل سرمایہ اسی زبان میں ہے،یہی حال اردوکاہے،جو عام طورپر وسط ہندستان میں رہنے والوں کی زبان ہے اوریہ شمال وجنوب اورمشرق ومغرب کے اکثر شہروں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے،اسی طرح ہندی جو ملک کی قومی زبان ہے۔ فارسی بھی کسی حد تک مدارس میں داخل ہے؛کیوں کہ بہت سی دینی کتابیں فارسی زبان میں ہیں اور اردوسے اس کاگہرہ رشتہ ہے، اس طرح ہمارے مدارس میں زندگی کی اہمیت اور ضرورت کو سامنے رکھ کر یہ نصاب بنایاگیا ہے تاکہ دین کے علوم بھی ہمیں حاصل ہوں اور دنیا کی ضروری معلومات بھی بہم پہنچ سکیں۔
مدارس کی مالی وانتظامی مشکلات بہت زیادہ ہیں،ان کودورکرنے کے لیے مسلسل اجتماعی کوشش ہونی چاہیے، اگرمدارس ہرصوبہ وضلع میں باہم مربوط نہیں ہوں گے اوران کے درمیان ربط وتوافق نہیں ہوگاتوان کی ترقی جیسی ہونی چاہیے نہیں ہوپائے گی؛اس لیے کہ ہرمدرسہ کے پاس اس طرح کے تعلیمی وانتظامی ماہرین نہیں ہیں جوبڑے مشہوردینی مدارس کے پاس ہیں،جس کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح کانظام جس قدرمضبوط ہوگا،مدارس کوترقی ہوگی۔
مدارس کے نظام کوجس قدربہتر،معیاری وپرکشش بنایاجائے گا،اسی قدراس سے استفادہ کرنے والے افراد زیادہ ہوں گے اورامت دینی واخلاقی تعلیم سے آراستہ ہوگی؛ کیوں کہ موجودہ دور میں علم کے عصری درسگاہوں میں اخلاقی ودینی بے راہ روی کی تعلیم کا جو رواج ہے، وہ انتہائی مضرہے۔
بہرحال مسلمانوں کو چاہیے کہ علم دین اورعصری علوم دونوں کوحاصل کریں اور اپنے لڑکے ولڑکیوں کو تعلیم واخلاق کے زیور سے آراستہ کریں۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی کوشش کریں؛ تاکہ انہیں ہرطرح کی ترقی حاصل ہو اور وہ پستی سے نکل کر اونچائی کی طرف جائیں۔
ہندوستان میں دوطرح کے مدارس رائج ہیں،ایک وہ مدرسے ہیں جنہیں نظامیہ کہاجاتاہے،اوردوسرے وہ مدرسے ہیں جوسرکاری مراعات یافتہ ہیں اورعالیہ مدارس کے نام سے موسوم ہیں۔نظامیہ مدارس کے طلبہ کے لیے میٹرک اورانٹرکا امتحان دے کرسرٹیفیکیٹ لینے کی بھی سہولت ہو،تاکہ جوطلبہ عصری درسگاہوں،اسکول وکالج میں جانا چاہیں یاسرکاری اسکولوں میں تدریس کافریضہ انجام دیناچاہیں توان کے لیے راہ کھلی رہے۔مدارس کے فارغین سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کے لیے اپنی اندراہلیت پیداکرلیں اورکم ازکم ڈی ایل ایڈاوربی ایڈکی ڈگری حاصل کرلیں،تاکہ ہزاروں اسکولوں میں اردوکی خالی جگہوں پروہ بحیثیت استادفائزہوسکیں۔اس سے ایک بڑافائدہ معاشی سہولت کے ساتھ ساتھ ملک کی نئی نسل میں اعلیٰ اخلاقی تعلیم دینے کابھی انہیں ملے گا۔اورفرقہ وارانہ صورتحال بہتر ہوگی،حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کے مضراثرات سے امت اورقوم کوبچانے میں نمایاں کرداراداکرسکیں گے۔

 

Comments are closed.