Baseerat Online News Portal

رسالہ رمضان(1)

ابوتراب ندوی
ویران مسجدیں اور خالہی سجدہ گاہیں
مسلمانوں کو رمضان المبارک کی نعمت ایک بار پھر ملی ، اس سے قبل بھی ملی ، اللہ بار بار عطا فرمائے ، لیکن اس بار جو ملی تو ایسی کہ جو کبھی نہ ملی، نہ نوارانی چہرے، نہ پھولوں سے مہکتے ہوئے بچے، نہ جگہ پانے کی طلب میں مسجدوں کی طرف اٹھتے تیز قدم، مسجدوں کے خاموش منارے ان سجدہ گاہوں کو حیرانی سے دیکھ رہے ہیں کہ آخر یہ کس طرح ویران ہوگئے، یہ منارے حیرانی سے کہہ رہے ہیں کہ ہم گواہ ہیں کہ اے مسلمانوں تم پر کوئی بمباری نہیں ہوئی ، نہ ہی آسمان سے تم پر کوئی قہر نازل ہوا، نہ زمین زلزلوں سے پھٹی ہو، نہ ہی آسمان اتنا برسا ہو یا زمین ایسی امنڈ پڑی ہو کہ تم کو سیلاب بہا لے گئے، تو پھر تم کہاں کھوگئے؟
اگر ایسا کچھ ہوتا تو ہم بھی تمہارے شریک غم ہوتے تو پھر کس نے تم سے تمہاری مسجدیں چھین لی، ان مسجدوں میں فرشتوں کی صفیں آج بھی آراستہ ہیں مگر تم کہاں ہو؟
مؤذنوں کی اذانوں میں تمہیں مسجد کی طرف بلانے کے بجائے اپنے گھروں میں بند رہنے کی صدا کیاہے؟
دیکھو مہینہ گذرگیا، سوچا کہ رمضان میں تو تم جوق در جوق ہمارا رخ کروگے، رمضان میں تو تمہارے غافل بھی ہمارے سائے میں پناہ لیتے ہیں ، لیکن یہ کیا ہوا کہ تمہارے متقی بھی کہیں نظر نہیں آئے۔
نوحہ کناں منارے
یہ کیا ہوا کہ کلک ازل نے ہمیں تمہارے نوحہ خوانوں میں لکھ دیا، کوئی ہماری آہ و بکا سننے والا نہیں۔
تمہیں کیا پتہ کہ ہم نوحہ خواں اس وقت بھی تھے جب تم مسجدوں میں حاضر ہوتے تھے ، تمہاری بے کیف نمازیں اور بے روح سجدے ہمیں کل بھی لرزہ بر اندام کئے ہوئے تھے ، مسجدوں میں جیسے پابہ جولاں لائے جارہے ہو، اور امام کے سلام پھیرتے ہی تمہاری آزادی جیسے تمہاری دنیا کو آگ لگ رہی ہو جسے بجھانے کے لئے تم تیزی سے بھاگ رہے ہو۔ تم بھول گئے کہ تمہارے رب نے تم سے کیا کہا:
اتلُ ما أوحِىَ إِلَيكَ مِنَ الكِتـٰبِ وَأَقِمِ الصَّلوٰةَ ۖ إِنَّ الصَّلوٰةَ تَنهىٰ عَنِ الفَحشاءِ وَالمُنكَرِ ۗ وَلَذِكرُ اللَّـهِ أَكبَرُ ۗ وَاللَّـهُ يَعلَمُ ما تَصنَعونَ ﴿سورة العنکبوت، آية 45﴾
تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو۔
نماز کا مقصد تو یہ تھا کہ تم فحش و منکرات سے رک جاؤ اور اپنے رب سے قریب ہوجاؤ اگر ایسا نہیں ہوتا تو تمہارے نبی کی وعید بڑی سخت ہے من لم تنهه صلاته عن الفحشاء والمنكر، لم تزده من الله إلا بعدا جس کی نماز اسے فحش اور منکرات سے نہیں روک سکی تو وہ اسے اللہ سے دور ہی کردیتی ہے (طبری، ابن کثیر وغیرہم) اور یہ کیا کہا کہ
"اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے”
اس کلام الہی کو شاید تم کبھی خاطر میں نہیں لائے کہ اللہ کا ذکر دنیا کی ہر شی سے عظیم ہے اور یہ کہ تم جب اللہ کو یاد کرتے ہو اور اسکے مقابلہ جب وہ تم کو یاد کرتاہے تو یہ اس سے بھی بڑی بات ہے جو تمہارے لئے دنیا کی ساری نعمتوں سے بڑھ کر ہونی چاہئے۔ اس کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرو کہ کیا تمہاری زندگی فحش سے دور ہوئی ، کیا غفلت کی کھائیوں میں ڈھکیلنے والی فلموں اور ویڈیو کا غلبہ اب بھی تمہاری زندگی پر نہیں ، وہ کونسا لمحہ ہے جب تمہاری زبان اللہ کے ذکر سے آباد رہتی ہے۔ تم تو ابلیس اور یہودیوں کے بچھائے ہوئے جالوں میں پھنس کر رہ گئے، جیسے نشہ باز نشہ کرکے بے سدھ پڑ جاتے ہیں، ذرا تم اپنی حالت پر غور کرو، کیا تم بھی فیس بک، واٹس اپ اور سمارٹ فون کی دنیا میں بے سدھ نہیں پڑے ہو، تمہارے پاس اللہ کے ذکر کا وقت ہی کہاں۔
مسجدیں تمہارے کس کام کی
تو پھر تمہیں اس کا پتہ کیسے چلے کہ تم جو نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہو اس کا مطلب کیا ہے،یہ عظیم دعا جسے کبھی تم نماز میں دعا سمجھ کر پڑھتے ہی نہیں ، اس کے ایک ایک جملہ کے مطلب کا حصول جو اس دنیا و جہان سے بڑھ کر قیمتی ہیں تمہاری اکثریت کو اس کا پتہ ہی نہیں ، تم جو تسبیحیں کرتے رہے اس نےتمہارے دلوں پر اللہ کی کبریائی کی کوئی کیفیت پیدا نہیں کی، اس لئے کہ تمہیں ان تسبیحوں کا مطلب معلوم ہی نہیں، تو یہ مسجدیں تمہارے کس کام کی یہ تو ان لوگوں کے لئے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا:
قَد أَفلَحَ المُؤمِنونَ ﴿١﴾ الَّذينَ هُم فى صَلاتِهِم خـٰشِعونَ ﴿٢﴾ ﴿سورة المؤمنون﴾
یقیناً کامیاب ہوگئے وہ ایمان والے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔
جب سورہ فاتحہ کا مطلب معلوم نہ ہو تو خشوع و خضوع کہا ں سے آئے، نماز کی روح سورہ فاتحہ ہے اگر تم اسے سمجھ کر ، دعا کے طور پر پڑھا کرتے ،تو گویا تم اپنی نماز خشوع کی پہلی منزل طے کرچکے ہوتے پھر رکوع و سجود ہر عمل میں تسبیح و تہلیل کا مطلب تمہارے ذہن سے نہ جاتا۔ طوطے کی طرح رٹی رٹائی کچھ آیتیں تمہارے اندر کس طرح تبدیلی پیدا کرسکتی تھیں، کس طرح تمہیں تمہارے رب سے ہم کلامی کا شرف ملتا۔ جب رکوع و سجود میں تسبیحیں کرتے ہوئے اللہ کی عظمت دل میں نہ ہو تو بارگاہ رب میں تمہاری سرگوشی کہاں سے پہونچے اور وہ تمہیں کیوں کر یاد کرے ، اس بات کی فکر کسے ہوئی، نہ تمہارے علما کو نہ ہی تمہارے عوام کو، گویا تمہیں اپنے نبی کی یہ تنبیہہ یاد نہیں رہی :
قَالَ عُمَر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَال: إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ، وَابْنُ مَاجَه.
اللہ اس کتاب کے ذریعہ قوموں کو اٹھاتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعہ دوسروں کو پستی میں گراتا ہے۔
تو سمجھا تم نے کہ تمہاری پستی کی وجہ کیا ہے، تم نے قرآن کو اس طرح چھوڑ دیا کہ تمہیں سورہ فاتحہ کا مطلب بھی معلوم نہ رہا، اور تم ہو کہ دنیا بنانے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے سرگرداں ہو یہ سب فریب ہے ، واللہ دھوکہ ہے، تم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
تمہاری ثروت کا مدفن
ارے ناداں تم نے یہ نہیں سمجھا کہ مسجد میں تمہاری دولت دفن تھی اور تم نے اس کا ذریعہ صرف کارخانوں، مارکٹ اور آفسوں کو سمجھ لیا ۔ تم نے نماز کے وقت اپنے گھر میں آرام کو ترجیح دی۔ اگر تم مسجد یہ سمجھ کر آتے کہ تمہاری اصل کمائی یہیں سے ہونی ہے، تمہارے ہر کام کی منظوری، تمہارے ہر پروجیکٹ کی کامیابی، تمہاری ہر الجھن کی دوری، تمہاری ہر رکاوٹ کو عبور کرنے کا قدم اسی مسجد سے اٹھنا ہے تو یقین مانو کہ یہ چند لمحات تم دنیا سے کٹ کر صرف اپنے رب کے حضور میں گذار تے۔
اب تو تمہیں کہنے والے بھی نہ رہے، اب تو ہمارے منبروں سے دل کو چھولینے والے واعظ بھی اٹھ گئے، ذرا بتاؤ کہ اس میں کس کا دخل ہے، یہ جو تم نے فرسودہ کتابوں کو اپنے باپ دادا کی میراث سمجھ کر اپنے مدارس میں سینوں سے لگائے رکھا، ان کتابوں نے تمہارے عالموں کو جاہل بنادیا، یہ جو تمہارے مدارس میں بے معنی قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہوتی رہیں اس کے زوال کا تم نے کبھی ادراک ہی نہیں کیا، اس لئے جو نسل پروان چڑھی وہ ناخلف ٹہری، اس سے نہ کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی افق میں امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے۔
جب مسلمانوں کا انبوہ اپنے رب کے کلام سے ناواقف ہو تو وہ کس طرح اپنے رب سے اپنا تعلق قائم رکھ سکتاہے۔ اقبال نے یہی تو کہا تھا کہ تم اپنے سماج کو قرآنی سماج اسی وقت بنا سکتے ہو جب وہ قرآن کو سمجھنے کے قابل ہوجائے:
تیرے وجود پر جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
یہ مسجدیں تمہارے کام کی نہیں اس لئے کہ ان کا مقصد تمہارے رب نے کچھ اور ہی بتا یا ہے:
وَأَنَّ المَسـٰجِدَ لِلَّـهِ فَلا تَدعوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ﴿١٨﴾ ﴿سورة الجن﴾
اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو (18)
لیکن تم ایمان داری سے بتاؤ کہ کیا مسجد پہونچ کر بھی تمہارے دلوں پر دنیا غالب نہیں رہی ؟ تم اپنے مسائل اللہ کے سپرد کرنے کے بجائے اپنے ہی ذہنی ادھیر بن میں نہ رہے، تم نے اپنے رب کو صرف اپنے رب کو کب پکارا؟
تم نے اپنے رب کی محبت کو نہ سمجھا اور نہ ہی اس سے کبھی محبت کی۔ تمہیں پتہ ہی نہ چلا کہ وہ کیسا محبوب ہے اگر ایک بار اس کی محبت پالیتے تو دنیا کی ہر شی اپنے حقیقی حسن میں تمہارے سامنے جلوہ گر ہوتی، پھر جو لذت ملتی وہ حقیقی لذت ہوتی جس کے لئے دنیا لٹانے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوتی ۔ ذرا اس حدیث پر غور کرو:

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (في كلام الله له في المنام) يَا مُحَمَّدُ هَلْ تَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْملأُ الأَعْلَى .. قَالَ فِي الْكَفَّارَاتِ، وَالْكَفَّارَاتُ الْمُكْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَالْمَشْيُ عَلَى الأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ وَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ۔ الترمذي 3157 وهو في صحيح الجامع 59
اللہ نے اپنے نبی سےخواب میں فرمایا: اے محمد کیا تم جانتے ہو کہ فرشتوں میں کس بات پر بحث ہورہی ہے، ان کے درمیان کفارات پر بات ہورہی ، اور کفارات نماز کے بعد مسجد میں ٹہرنا (نماز کے بعد مسنون اذکار کے لئے ) جماعت کے لئے پیدل چل کر جانا اور تکلیف میں اچھی طرح وضو کرنا ہے، جس نے یہ کیا وہ خیر کے ساتھ جیا اور خیر کے ساتھ مرا ، اور اس کے گناہ اس طرح دھل گئے جیسے نومولود ہو۔
دیکھا تم نے کہ زندگی میں خیر کی ضمانت کیا ہے اور اچھی موت کی ضمانت کس عمل میں ہے، اگر آج اس امت کی زندگی میں خیر نہیں تو اسکی وجہ صاف ہے۔
داخلہ منع ہے
اب جب تمہاری مسجدوں سے وہ مومن نا پید ہوگئے جن کی کامیابی کی شرائط قرآن نے صاف صاف بتادیا تو ان پر قدرت نے "کورونا” کی STOP پلیٹ لگاکر تمہیں مسجدوں میں داخلہ سے روک دیا ہے، بہت ہوگیا، اب بس کرو ، نہیں چاہئے تمہارا یہ منافقانہ کردار، ایسا سماج جسکے دل ایمان سے خالی ہوں، جو سماج علم سے بے بہرہ اور عقل سلیم سے پیدل ہو ، دین اسلام کو اس سے قبل مسلمانوں کی کسی نسل نےاس طرح رسوا نہ کیا ۔
مسلمانوں ! ہم گواہ ہیں تمہارے عروج و زوال پر ، آج تم پوری دنیا میں جس مقام پر پہونچے ہوئے ہو اس میں تمہاری حالت زار ناقابل بیا ن ہے، ذرا اپنے آپ کو قرآن کے آئینہ میں دیکھو، تمہارے چہرے پر یہ وحشت، تمہاری اڑی ہوئی رنگت، تمہارے جسم پر تقوی کا تار تار عبایہ ، داغ داغ جسم ، یہ اپنی کیا حالت بنالی تم نے ، قرآن نے تو کہا کہ تم میں وہ لوگ کامیاب ہیں جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے ہیں اور کہا کہ جو :
وَالَّذينَ هُم عَنِ اللَّغوِ مُعرِضونَ ﴿٣﴾ لغو سے دور رہنے والے ہیں۔
یہ سوشل میڈیا جسے آج تم جہاد کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھ بیٹھے ہو، اس میں تم اس طرح کھوگئے کہ اس سے بڑا لغو اور کچھ نہ رہا، اس میں پڑ کر تم نے قرآن و سنت کا مطالعہ چھوڑدیا، اللہ کے ذکر کا تمہارے پاس وقت نہیں، تمہاری زندگی میں سکون نہیں، تم دنیا کی سب سے جاہل قوم میں شمار کئے گئے، سال گذرجاتا ہے اور تمہارے نام سے ایک کتاب پڑھنے کا ریکارڈ نہیں بنتا، تم سے بڑھ کر جاہل قوم اور کون ہوسکتی ہے، کیا دنیا میں اٹھنے کا یہی شیوہ ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ تم میں کامیاب وہی ہیں جو :
وَالَّذينَ هُم لِلزَّكوٰةِ فـٰعِلونَ ﴿٤﴾ زکوۃ ادا کرنے والے ہیں۔
زکوۃ تو دور تم دوسروں کا مال ہڑپ کرکے اپنی دنیا چمکانے کی فکر میں رہے، تمہارے دلوں میں مال کی محبت ایسی بیٹھی ہے کہ جیسے ہر گوشہ سے یہ صدا آرہی ہو، یہی میرا رب ہے ہے یہ سب سے بڑا ہےتو حاجتمندوں کے لئے تمہارے ہاتھ کس طرح اٹھیں، کوئی قومی پروجیکٹ کیوں کر بن سکے یا کامیاب ہوسکے۔ اللہ نے مزید کہا کہ جو :
وَالَّذينَ هُم لِفُروجِهِم حـٰفِظونَ ﴿٥﴾ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
لیکن تمہارا حال کیا ہے کہ تمہارے گھروں سے اسلامی حیا و پردہ کا تصور اٹھ گیا ، تمہاری بہو بیٹیوں اور غیروں میں فرق مٹ گیا، تمہارے بیٹے اور بیٹیاں غیر مسلموں کی آغوش میں کھیلنے لگیں ۔ قرآن نے تمہاری کامیابی کے نسخے میں یہ بھی کہا کہ جو :
وَالَّذينَ هُم لِأَمـٰنـٰتِهِم وَعَهدِهِم رٰعونَ ﴿٨﴾ اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں۔
یہ وہ کسوٹی ہے جس پر تمہارے خاص وعام کوئی بھی پورا نہیں اترتے۔ تم میں کتنے ہیں جو قومی عہدوں پر فائز ہیں، مختلف اداروں کے ذمہ دار ہیں جبکہ وہ اس کے اہل نہیں، امانت کا تقاضہ تھا کہ وہ دستبردار ہوجاتے ، وہ اپنے رب پر یقین رکھتے اللہ انہیں اس سے بہتر عزت دیتا، تم چھوٹی چھوٹی باتوں پر خیانت کے مرتکب ہوتے ہو ۔ کیا تمہیں پتہ نہیں کہ کاہلی بھی ایک خیانت ہے، زندگی کے ایک دن کو گذار دینا بغیر اس کا محاسبہ کئے ہوئے کہ کیسی عبادت کی، کتنا ذکر کیا، کیا علم حاصل کیا اور عہد کا پاس رکھے بغیر تو نہ کوئی فرد اور نہ ہی کوئی قوم عزت پاسکی ہے۔
مومن کے لازمی اوصاف تو اور بھی ہیں کہ وہ عفو در گذر کرنے والا ہو، وہ غصہ پینے والا، ایثار و قربانی کرنے والا، والدین کا خدمت گذار، اپنوں پرائے کا غم کھانے والا وغیرہ وغیرہ ، قرآن کے صفحات پر تمہارے کردار کی مکمل تصویر کھینچ دی گئی ، جس سے اب تمہیں کوئی مناسبت نہیں رہی ۔
اب تمہیں انصاف سے بتادو کہ اگر کوئی قوم اپنی پہچان اپنے تشخص کو اس طرح مٹادے تو پھر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کے وجود کو مٹنے سے بچالے، اللہ کو کیا غرض پڑی ہے کہ وہ اس قوم کے پیچھے بھاگتا رہے اس کے لئے بڑا آسان ہے کہ بندے ہی بدل دے ۔
وَإِن تَتَوَلَّوا يَستَبدِل قَومًا غَيرَكُم ثُمَّ لا يَكونوا أَمثـٰلَكُم ﴿٣٨﴾ ﴿سورة محمد﴾
اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے
تاریخ انسانی کا ایک بڑا فتنہ
تم نے سمجھ لیا کہ یہ ” کورونا” کی وبا چند دنوں کی بات ہے پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔ اب تم نے مشاہدہ کرلیا کہ تمہارا گمان غلط تھا ، اب تم اچھی طرح سمجھ گئے ہو کہ یہ وبا اس طرح جانے والی نہیں ، یہ جن لوگوں کا وقت آن پہونچا ہے انہیں لے کر جائے گی ، ان میں نیک بھی ہونگے اور غافل بھی ، لیکن اس کے بعد جو مرحلہ آئے گا وہ بڑا اندوہناک ہوگا، وہ بھوک اور افلاس کا مرحلہ ہوگا، اس میں المناک اموات ہونگی۔ یہ تاریخ انسانی کا ایک بڑا فتنہ ہے، یہ ان فتنوں میں ہے جن سے تمہارے نبی نے پناہ مانگتے رہنے کے لئے کہا تھا:
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إِذَا تَشَهَّدَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَعِذْ باللَّهِ مِن أَرْبَعٍ يقولُ: اللَّهُمَّ إنِّي أَعُوذُ بِكَ مِن عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَمِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا وَالْمَمَاتِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ (صحيح مسلم ورواه البخاري بفرق بسيط)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں کوئی تشہد پڑھ لے تو اللہ سے چار باتوں سے پناہ مانگے: اے اللہ میں تیری پناہ چاہتاہوں جہنم کے عذاب سے، عذاب قبر سے اور زندگی و موت کے فتنوں سے اور فتنۂ دجال کے شر سے۔
جمہور علما نے اس دعا کو سنت مؤکدہ کہاہے، جلیل القدر تابعی طاؤس اسے واجب مانتے ہیں۔ زندگی کے فتنوں میں ایک بہت بڑا فتنہ آج "کورونا” کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، جو ظہور دجال کی قربت کا عندیہ دیتاہے۔ لیکن ہماری غفلت اس حدتک بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اس موضوع پر کوئی بات سننا گورار نہیں کرتے ، اس کے برعکس صحابہ کرام کا یہ حال تھا کہ وہ اس بات سے چوکنا رہتے تھے کہ دجال ان کے زمانہ میں ظاہر نہ ہوجائے جب کہ آپ ﷺ نے ان سے قیامت کی دسیوں علامتیں بتا رکھی تھی جو ظہور دجال سے پہلے رونما ہونی تھیں، لیکن ان پر فتنہ دجال اس حد تک چھایا ہوا تھا کہ ہر وقت اس کی فکر میں رہتے تھے۔
(جاری )

Comments are closed.