Baseerat Online News Portal

ستارے چھپ گئے مگر روشنی باقی ہے  نوراللہ نور

ستارے چھپ گئے مگر روشنی باقی ہے

 

نوراللہ نور

 

ابتدائے آفرینش سے اس دشت فناہ کا یہ اصول رہا ہے کہ ہر آمد کے کے ساتھ رفت یقینی ہے نیک و بد کی تمیز کے بغیر ہر ذی روح کے ساتھ فنا کا دستور مساوی ہے عالم کی ادنی سی شی بھی فانی ہے اور یہ اصول تا ابد قایم رہے گا مگر کچھ اس مادر گیتی پر ایسے بھی لعل و گوہر ؛ آنکھوں کا تارہ ؛ دلوں کا مہ پارہ سیم و زر سے بھی قیمتی ہستیاں ہوتی جن کی فرقت اس حسین چمن کو بے رونق کر دیتی ہے ۔

ہجر و وصال تو ایک امر لابدی ہے جس کا وجود متقین ہے اس سے دامن کشی ممکن نہیں مگر کچھ فرقتیں ایسی تکلیف دہ ہوتی ہے کہ سہن کی قوت نہیں رہتی سال رواں ہم ایک عذاب میں مبتلا تھے ہی کہ دوسری طرف اکابر کے رخصت کا سلسلہ چل پڑا میخانہ علم و فن کے ساقی اپنی دایمی منزل کی طرف کوچ کرنے لگے اور ہماری تشنہ لبی باقی رہ گئی ۔

 

سال کے آغاز میں ہی بزگوں کا سایہ ہم سے اٹھنے لگا تھا مگر ہم اپنے بے چین و بے کیف قلب کو جھوٹی تسلی دیتے رہے کہ اب زخم بھرنے کو ہے مگر مہینوں کے بعد زخم تازہ ہوجاتا ہے رمضان میں حضرت شیخ الحدیث کی رحلت نے ہمیں آبدیدہ کردیا تھا اور علمی خزانہ لیکر اپنے رب کے حضور جا پہنچے اس کے بعد بھی سلسلہ تھما نہیں بلکہ اور بھی ہم اپنے اکابر سے محروم ہوتے رہے ابھی حضرت شیخ الحدیث کے زخم بھرا بھی نہیں تھا کہ علم و ادب کوہ ہمالہ اور جمعیت کے فعال و بیدار سپاہی حضرت متین الحق اسامہ رحمہ اللہ نے ہمیں داغ مفارقت دے دی اس واقعہ نے تو ہمیں افسردہ تو کر ہی دیا تھا اور ہم اس درد و کرب سے نکل بھی نہیں پائے تھے مظاہر علوم کے ناظم حضرت بھی داغ فرقت دے گیے اور گزشتہ کل ماہر و باہر باکمال شخصیت حضرت مولانا وصی صاحب بھی دامت برکاتہم سے رحمتہ اللہ علیہ ہوگیے ۔۔

جو ستارے ہم سے روپوش ہوے ہیں اور جن آبگینوں سے ہم محروم ہوے ہیں یقیناً وہ تمام اپنے آپ میں ایک نمایاں مقام اور ایک منفرد شناخت رکھتے تھے اور ان کی رخصت سے ہوئے نقصان کا تدارک ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنی جگہ پر صرف ایک انسان ہی نہیں بلکہ اپنی جگہ جہد مسلسل کی ایک ناقابل تسخیر عمارت تھے اور علم و عمل اور زہد و خشیت کے عملی نمونہ تھے ان کی فرقت ایک حسین عہد کے اختتام کا تتمہ ہے ان کے جانے سے علم و ادب کی شادابی ذرا سی بے رنگت لگے گی کیونکہ یہ تمام اپنے فن کے لیے ایک انجمن کی حیثیت رکھتے تھے ۔۔

خیر ہجر و وصال کا‌ اصول یہ خدائے واحد کا‌ اصول ہے اس کی تنکیر درست نہیں یہ حضرات ہم سے ضرور روپوش ہوگیے مگر ان کی روشنی ابھی باقی ہے ان کی کاوشات ؛ یادگار ہمارے قلب و جگر ہمیشہ تابندہ و پایندہ رہیں گی اور ان کی بتای ہوی راہ کلید ظفر ہوگی اللہ سب کے ساتھ قبر میں آسانی کا معاملہ فر مایے اور ان کی شبانہ روز محنتوں کو قبول فرما یے۔

یوں تو کوئی بھی جدا ہو اذیت بہت ہوتی ہے مگر خدا کا کرم ہے جانے والوں کی صرف اجساد ہماری نظروں سے اوجھل ہو ے ہیں ان افکار و خیالات ؛ فضل و کمال ؛ ان کے بیش بہا تصانیف اور نادر و کمیاب موتیاں ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں غم درست ہے مگر امیدیں ہار جانا موزوں نہیں ہے کیونکہ انہوں نے اپنے پیچھے وہ علمی اثاثہ چھوڑ گئے ہیں کہ ہماری تشنہ لبی باقی نہیں رہے گی یقینا علمی قافلہ آہستہ رو کوچ کر چکا ہے اور علم و فن کے خورشید مبیں نظروں سے اوجھل ہو گیے ہیں لیکن قافلہ قاسمی کے راہی کے خوشبو تابندہ ہے اور ان علمی آفتاب کی ضوفشانی درخشندہ ہے اور تا قیامت پایندہ رہے گی

Comments are closed.