Baseerat Online News Portal

سراپا محبت : ماسٹر الحاج حبیب الرحمٰن مرحوم

ڈاکٹر خالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
پھوپھا ماسٹر الحاج حبیب الرحمٰن (خانقاہ ٹولہ،بیگنا، کشن گنج، بہار) ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر 6 مئی 2021 ،جمعرات کو تقریباً عصر کے وقت چل بسے۔آخری دنوں میں بخار آنے لگا تھا۔تین دن مکمل بیہوش رہے۔
جنوری 2006 میں ان پر فالج کا ایسا سخت حملہ ہوا کہ اس کے بعد مستقل پندرہ سال بستر پہ رہے۔گرچہ تھوڑا بہت چلتے پھرتے تھے۔
پھوپھا جس مہینے میں ہائی اسکول سے ریٹائر ہونے والے تھے، اسی مہینے میں فالج کے شکار ہوگئے۔حلال روزی روٹی کے معاملے میں حددرجہ حساس تھے۔کبھی اسکول کی ڈیوٹی میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں کی۔
وہ مدرسہ اسلامیہ غوثیہ صوفیہ بیگنا کی کمیٹی کے صدر رہے تو وہاں بھی اکثر دورہ کرتے اور مدرسہ میں تاخیر سے آنے والے اساتذہ کے حاضری رجسٹر پر لال قلم چلادیا کرتے تھے۔کہتے تھے کہ مدرسے کے استاذ کا رزقِ حلال کے سلسلے ميں اس طرح بے حس ہونا بہت افسوس ناک ہے۔
وہ نمازوں کے نہایت پابند تھے۔تلاوت، تسبیح اور ذکر کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے۔
وہ بڑوں کا دل سے احترام کرتے تھے اور چھوٹوں سے نہایت محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔
انھوں نے نہایت اصولی زندگی گزاری۔انھیں بے اصولی، بے ایمانی، خیانت اور بددیانتی سے سخت نفرت تھی۔
ان کے اندر اپنے اعزہ واقربا اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور آڑے وقت پر کام آنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
ان کی پوری زندگی ابتلا وآزمائش میں گزری۔ان کی بیوی یعنی میری پھوپھی ہمیشہ بیمار رہیں، لیکن پھوپھا نے نہایت صبروضبط اور ہمت واستقلال کے ساتھ ان کے بہتر سے بہتر علاج کی کوشش کی۔
میرے پھوپھا مجھ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔میں جب بچہ تھا،وہ ہمارے گھر آتے تو ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا تھا۔اس خوشی کی وجہ یہ تھی کہ پھوپھا اس زمانے کا مشہور بسکٹ ایمپرو، ڈھیروں ٹافیاں اور چاکلیٹ لے آتے تھے۔ان کے آنے کا مطلب تھا کہ گھر میں اچھے کھانے کا اہتمام ہوگا۔پھر اس پہ ان کا والہانہ پیار ملتا تھا……اب ایک بچے کو خوش ہونے کے لیے اور کیا چاہیے۔
پھوپھا میری دادی ماں، ابا اور چچا ابا کا اس قدر احترام کرتے کہ ہمیں لفظ احترام کا مطلب انھیں کے اس رویے سے سمجھ میں آیا تھا۔
وہ بہت لحاظ و مروت اور وضع کے آدمی تھے۔
میری دادی ماں سے ان کا باتیں کرنے کا لہجہ اتنا اچھا لگتا تھا کہ میں ان کی نقلیں کیا کرتا تھا۔
ان کے کچھ معمولات تھے، جس کی پابندی فالج سے پہلے تک کرتے رہے۔
مثلاً صبح فجر دم بیدار ہوکر نماز پڑھنا، پھر گُل کرنا، پھر باتھ روم جانا، پھر واپس لوٹ کر برش کرنا(جب کہ اس وقت گاؤں میں برش وغیرہ عام نہیں تھا۔لوگ مسواک یا راکھ اور کوئلے سے دانت صاف کرلیا کرتے تھے۔)
پھوپھا صحت وتندرستی کا بہت خیال رکھتے تھے۔
ماسٹر الحاج حبیب الرحمٰن طبعاً بے حد حساس تھے۔اِدھر سے ملک کے بدلتے حالات پر بہت متفکر رہتے تھے۔وہ فراش ہونے کے باوجود پابندی سے آکاش وانی پٹنہ، بی بی سی اور آل انڈیا ریڈیو سنتے تھے اور روزانہ اخبار انقلاب کا مطالعہ ہی نہیں کرتے تھے بلکہ دنیا جہان کے واقعات و حادثات سے آگاہ بھی رہتے تھے۔اس کا اندازہ اس وقت ہوتا تھا، جب کبھی ان سے میری ملاقات ہوتی تھی اور وہ ریاستی، قومی اور عالمی حالات پر گفتگو کرتے تھے،مجھے ان کی تازہ معلومات واطلاعات پر حیرانی ہوتی تھی۔
ان کی پیدائش 2 جنوری 1946 کو ہوئی۔
ان کے والد کا نام مہرالدین اور ان کی والدہ کا نام قیط النسا تھا۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم میاں محمد احسن صاحب کے مکتب سے حاصل کی۔
ثانوی تعلیم مدرسہ اسلامیہ غوثیہ صوفیہ بیگنا، کشن گنج، بہار سے مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے پٹنہ چلے گئے۔
پٹنہ میں مدرسہ شمس الھدیٰ سے فضلیت کی ڈگری حاصل کی اور بی این کالج ،پٹنہ سے گریجویشن کیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے علاقے سے اکا دکا ہی لوگ پٹنہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوں گے۔
پھر 2 ستمبر 1972 کو اُرلاہا ہائی اسکول میں بحیثیت استاذ ان کا تقرر ہوا۔ان کی تدریس کے سبجیکٹ پالیٹیکل سائنس اور انگریزی تھے۔
بعد میں کچھ دنوں کے لیے ان کا تبادلہ پوٹھیا ہائی اسکول، کٹیہار ہوگیا، لیکن پھر واپس اپنے پرانے اسکول یعنی ارلاہا ہائی اسکول لوٹ آئے اور وہیں سے 31 جنوری 2006 کو ریٹائرڈ ہوئے۔
ان کی شادی ناظمی بیگم بنت منشی توحید حسین(بیگنا، کشن گنج، بہار) سے ہوئی۔
تین اولاد پیدا ہوتے فوت ہوگئیں۔صرف اکلوتا بیٹا انجینئر نجیب ساگر ہے۔
ماسٹر حبیب الرحمٰن مرحوم اپنے بیٹے کی بہترین تعلیم وتربیت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔
انھوں نے ابتدا میں گھر پر ہی علاقے کے بہترین اتالیق کا انتظام کیا۔پھر ارریہ میں داخلہ کرایا۔پھر ساتویں سے لے کر بارھویں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم دلوائی، پھر نجیب ساگر نے راک وڈ انجینئرنگ کالج سے بی ٹیک سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔
وہ اچھا کھانے، اچھا پہننے، اچھے مکان اور اچھی زندگی کے شوقین تھے۔خدا نے ان کے یہ سارے شوق پورے کیے۔
مومن کے بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیماری سے مومن کے گناہ جھڑتے ہیں۔ناگہانی بیماری میں موت پر اللہ پاک شہادت کا درجہ عطا کرتا ہے۔پھوپھا الحاج ماسٹر حبیب الرحمٰن صاحب مرحوم پورے پندرہ سال مکمل طور پر بستر پہ رہے۔پھوپھا نے آخری سانس رمضان جیسے مبارک ماہ میں لی۔میں نے پھوپھا کو ہمیشہ نمازوں کا پابند پایا۔یہاں تک کہ بیماری کے دوران تیمم کرکے کبھی بیٹھ کر، کبھی لیٹ کر نماز پڑھتے تھے.پھوپھا رزقِ حلال پر سختی سے عمل کرتے تھے۔کبھی بھی اسکول دیر سے نہیں پہنچے۔اللہ پاک ان کی مغفرت کرے۔ان پر رحم، کرم اور فضل نازل کرے۔ان کی نیکیوں کو قبول کرے.ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام ومرتبہ بخشے۔ہم سبھوں کو ،پھوپھی اور نجیب بابو کو صبرِ جمیل بخشے۔

Comments are closed.