Baseerat Online News Portal

شراب ،، انسانیت کی بدترین دشمن ۔

 

شمشیر عالم مظاہری۔ دربھنگوی۔امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا۔ ویشالی بہار ۔

شراب کے حرام قرار دیئے جانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے استعمال سے آدمی کم از کم کچھ دیر کے لئے اس جوہر عقل وتفکر سے محروم ہو کر جو اس کے پروردگار کا خاص الخاص عطیہ اور معرفت الہی کا وسیلہ ہے۔ ان حیوانوں کی صف میں آجاتا ہے جن کو ان کے پیدا کرنے والے نے عقل و تمیز کی نعمت اور اپنی خاص معرفت کی صلاحیت عطا نہیں فرمائی ہے۔ اور یہ انسان کا اپنے او پر بڑے سے بڑا ظلم اور اپنے پروردگار کی انتہائی ناشکری ہے۔ اس کے علاوہ نشہ کی حالت میں بسا اوقات اس سے انتہائی نامناسب اور شرمناک حرکتیں سرزد ہوتی ہیں شراب نوشی کی وجہ سے شرابی بسا اوقات ایسی حرکتیں کرتا ہے جو انسانیت سے گری ہوئی ہوتی ہیں۔ شراب پینے والوں میں بغض و عناد، گالی گلوج، مار پیٹ، قتل و غارت گری، چوری ڈاکہ زنی، ظلم و ستم، جیسی برائیاں عام ہوتی ہیں۔ اور وہ شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں شراب نوشی کے نتیجہ میں بعض اوقات بڑے دور رس اور تباہ کن فسادات برپا ہو جاتے ہیں اسی لیے تمام آسمانی شریعتوں میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ہر دور کے خدا پرست مصلحوں اور روحانیت پسندوں نے اس سے پرہیز کیا ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت اور غالباً اس کے بہت پہلے سے عربوں میں خاص کر مدینہ میں شراب کا بےحد رواج تھا گھر گھر شراب بنتی تھی اور پی جاتی تھی اس سے وہ نشاط و سرور بھی حاصل کیا جاتا تھا جس کے لیے عموماً پینے والے اس کو پیتے ہیں اس کے علاوہ اس ماحول میں شراب نوشی کو ایک اخلاقی عظمت و فضیلت کا مقام بھی حاصل تھا وہاں کا عام رواج یہ تھا کہ دولت مند لوگ شراب پی کر نشہ کی حالت میں خوب داد و دہش کرتے اور مال لٹاتے تھے جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا اسی وجہ سے شراب نہ پینا یا کم پینا بخل و کنجوسی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔شراب کا وہاں عام رواج تھا اور گویا وہ ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس کے وہ بری طرح عادی تھے اور ان کی نگاہ میں اس کو ایک عظمت بھی حاصل تھی اس لیے اس کی ممانعت کے بارے میں ابتداءمیں تو نرم تدریجی رویہ اختیار کیا گیا لیکن جب قوم میں اس کی صلاحیت پیدا ہو گئی کہ قطعی حرمت کا اعلان ہوجانے پر وہ اس کو یکلخت چھوڑ دے تو پھر اتنا سخت رویہ اختیار کیا گیا کہ جس قسم کے برتنوں میں شراب پینے کا رواج تھا سرے سے ان برتنوں ہی کے استعمال کرنے کی ممانعت کر دی گئی اسی طرح کے بعض اور بھی انتہائی سخت احکام جاری کیے گئے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شراب کی ممانعت (تدریجاً) تین دفعہ میں کی گئی ہے ( جس کی تفصیل یہ ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ شراب پیا کرتے تھے اور جوۓ سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے تو ان دونوں چیزوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ( کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز؟ دریافت کرنے کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ خود ان میں سے صالح طبیعت رکھنے والوں نے محسوس کیا ہوگا کہ اسلام کی عام تعلیمات اور اس کے پاکیزہ مزاج سے یہ دونوں چیزیں میل نہیں کھاتیں۔ ان کے اس سوال کے جواب میں سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی ۔

مفہوم،، اے پیغمبر۔ یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ انہیں بتا دیجیے کہ یہ دونوں چیزوں میں گناہ ہے بہت اور فائدے بھی ہیں لوگوں کے لئے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔ تو کچھ لوگوں نے کہا کہ (اس آیت) میں شراب اور جوئے کو قطعیت کے ساتھ حرام قرار نہیں دیا گیا ہے تو وہ لوگ ( گنجائش سمجھتے ہوئے) اس کے بعد بھی پیتے رہے یہاں تک کہ ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے ( اور امامت کر رہے تھے اور نشہ میں تھے) انہوں نے قرأت میں کچھ گڑ بڑی کر دی ( اور کچھ کا کچھ پڑھ گئے) تو شراب کی ممانعت کے سلسلہ میں یہ دوسری آیت نازل ہوئی جو پہلی آیت کے مقابلہ میں زیادہ سخت تھی۔

مفہوم۔ اے ایمان والو،، ایسی حالت میں نماز کے پاس بھی نہ جاؤ جب کہ تم نشہ میں ہو تا وقتیکہ ( تمہیں ایسا ہوش نہ ہو) کہ تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو ( سورہ نساء) مگر کچھ لوگ ( اس کے بعد بھی گنجائش سمجھتے ہوئے ) پیتے رہے (ہاں جیسا کہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے اس کا اہتمام کرنے لگے کہ نماز کے قریب نہیں پیتے تھے) تو سورہ مائدہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں جو پہلی دونوں آیتوں کے مقابلہ میں زیادہ سخت اور صاف صریح تھیں۔

مفہوم۔ اے ایمان والو۔ بلاشبہ یہ شراب اور جواء اور بت پانسے ( جو ایک خاص قسم کے جوئے میں استعمال ہوتے تھے یہ سب چیزیں) گندگی اور ناپاک ہیں اور شیطانی اعمال میں سے ہیں لہذا ان سے کلی پرہیز کرو پھر تم امید کر سکتے ہو کہ فلاح یاب ہوجاؤ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں پھانس کر تمہارے درمیان بغض و عداوت پیدا کردے ( اور تم کو آپس میں لڑا دے) اور اللہ کی یاد سے اور نماز جیسی نعمت سے ( جو بارگاہ خداوندی کی حضوری ہے) تم کو روک دے تو کیا تم ( شراب اور جوئے وغیرہ سے) باز آؤ گے؟ جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو ان لوگوں نے کہا ( اے ہمارے پروردگار! ہم باز آئے اور ہم نے اس کو بالکل چھوڑ دیا) پھر ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے ان لوگوں کا کیا انجام ہوگا جو راہ خدا میں شہید ہو چکے ہیں یا اپنے بستروں پر ( بیمار پڑ کر) انتقال کر چکے ہیں اور وہ شراب پیا کرتے تھے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے اور اب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے ( تو ہمارے جو بھائی ان دونوں میں ملوث تھے اور اسی حال میں انتقال کر گئے یاراہ خدا میں شہید ہوگئے تو آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟) تو اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔

مفہوم۔ ان صاحب ایمان اور نیکوکار بندوں پر کوئی گناہ ( اور مواخذہ) نہیں ہے ان کے کھانے پینے پر جب کہ ان کا حال یہ ہو کہ وہ خدا سے ڈر کر پرہیز گاری کی زندگی گزارتے ہوں اور دل سے مانتے ہوں اور اعمال صالحہ کرتے ہوں۔ ( مسند احمد)

شراب کی حرمت اور شرابی کے بارے میں وعیدیں ۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز ( یعنی ہر وہ مشروب جس کو پی کر نشہ آجاۓ) خمر ( شراب) کا مصداق ہے اور حرام ہے اور جو کوئی دنیا میں شراب پیئے اور اس حال میں مرے کہ برابر شراب پیتا ہو اور اس نے اس سے توبہ نہ کی ہو تو وہ آخرت میں جنت کی شراب طہور سے محروم رہے گا۔ (صحیح مسلم)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیشہ شراب پینے والا اگر اسی حال میں مرے گا تو خدا کے سامنے اس کی پیشی مشرک اور بت پرستی کی طرح ہوگی۔(مسند احمد)

شراب بطور دوا کے بھی استعمال نہ کی جائے ۔

حضرت وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طارق بن سوید رضی اللہ عنہ نے شراب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو شراب پینے سے منع فرمایا انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اس کو دوا کے لئے استعمال کرتا ہوں آپ نے فرمایا کہ وہ دوا نہیں ہے بلکہ وہ تو بیماری ہے۔( صحیح مسلم)

بعض قرائن کی بنا پر کچھ ائمہ اور علما کی رائے یہ ہے کہ یہ حدیث اس دور کی ہے جبکہ شراب کی قطعی حرمت کا حکم نازل ہوا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مصلحت اور مقصد کے لیے شراب بارے میں انتہائی سخت رویہ ہنگامی طور پر اختیار کیا تھا اس سلسلہ میں بعض ان چیزوں کو بھی منع فرما دیا تھا جن کی بعد میں آپ صلی اللہ وسلم نے اجازت دے دی اس بنا پر ان حضرات نے اس کی گنجائش سمجھی ہے کہ اگر کسی ایسے مریض کے بارے میں جس کی زندگی خطرہ میں ہو معتمد اور حاذق طبیب کی راۓ ہو کہ اس کے علاج میں شراب نا گزیر ہے تو صرف بقدر ضرورت استعمال کی جا سکتی ہے۔

شراب کے بارے میں دس قسم کے لوگوں پر لعنت ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس قسم کے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے ۔

(1) شراب بنانے والے ملازم پر لعنت ہوتی ہے ۔

(2) اپنے واسطے شراب نچوڑ کر تیار کرنے والے پر بھی لعنت ہوتی ہے ۔

(3) شراب پینے والے پر لعنت ہوتی ہے ۔

(4) شراب ادھر سے ادھر لے جانے والے پر لعنت ہوتی ہے ۔

(5) شراپ اٹھانے والے پر بھی لعنت ہوتی ہے ۔

(6) شراب پلانے والے پر لعنت ہوتی ہے ۔

(7) شراب بیچنے والے پر لعنت ہوتی ہے ۔

(8) شراب کے پیسے اور اس کی قیمت کھانے والے پر لعنت ہوتی ہے ۔

(9) شراب خریدنے والے پر لعنت ہوتی ہے ۔

(10) جس واسطے شراب خریدی جاۓ اس پر بھی لعنت ہوتی ہے ۔( ابو داؤد، ابن ماجہ،مشکوۃ، اسوہ رسول اکرم) تو صرف ایک شراب کی وجہ سے دس قسم کے لوگ اللہ اور رسول کی لعنت کے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔

آخرت میں شرابی کا عذاب ۔

حدیث کی کتابوں میں شرابی کے عذاب کے بارے میں بے شمار حدیثیں مروی ہیں طرح طرح کے عذاب سے شرابی کو دوچار کیا جائے گا۔ مسند امام احمد بن حنبل اور مستدرک حاکم میں شراب کے عذاب کے بارے میں ایک عبرتناک حدیث شریف نقل فرمائی ہے آقائے نامدار علیہ الصلوٰۃ و السّلام نے ارشاد فرمایا کہ جہنم میں زانیہ اور بدکار عورتوں کی شرمگاہوں سے غلاظت کی نہر جاری ہو گی اس نہر کا نام ( نہر الغوطہ) ہے اور اس نہر کی غلاظتوں کی بدبو سے خود اہل جہنم پریشان ہوں گے جہنم کے مختلف طبقوں میں جن لوگوں پر عذاب ہوگا ان پر زانیہ عورتوں کی شرمگاہوں کی غلاظتوں کی نہر سے جو بدبو کی ایذا ہوگی وہ دوسرے عذابوں سے کہیں زیادہ سخت ہوگی۔ اور شرابی کو اسی نہر سے زانیہ عورتوں کی شرمگاہوں کی غلاظتیں پلائی جائیں گی جب جہنم کے دوسرے طبقہ کے لوگ اس کی بدبو کی وجہ سے ان پر جو عذاب ہو رہا تھا اس کو بھی فراموش کر دیں گے تو جب شرابی خود اس کو اپنے منہ میں لے کر پیئے گا تو اس کی ایذا اور عذاب کا کیا ٹھکانہ ہوگا ہر مسلمان بھائی کو عذاب الٰہی سے ڈرنا لازم ہے جیسا دنیا میں رہ کر دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ گندی اور ناپاک چیز کو اپنے منہ میں لیا تھا تو جہنم میں عذاب بھی اسی نوعیت کا ہوگا کہ جہنم میں جتنی ناپاک اور گندی چیزیں ہوں گی ان میں سب سے زیادہ گندی اور خبیث ترین چیز شرابی کو پلائی جائے گی ۔

امت کی شراب نوشی کے بارے میں ایک پیشن گوئی ۔

شراب کی حرمت کے بارے میں شریعتِ اسلام کا جو بے لاگ فیصلہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے متعلق جو سخت ترین رویہ اختیار فرمایا ہے وہ مندرجہ بالا احادیث سے معلوم ہو چکا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ منکشف کیا گیا تھاکہ شریعت کے ان واضح ا حکام اور آپ صلی اللہ وسلم کے اس سخت رویہ کے باوجود آپ صلی اللہ وسلم کی امت کے کچھ غلط کار لوگ شراب پئیں گے اور اپنے بچاؤ کے لئے بطور حیلہ کے اس شراب کا کوئی اور نام رکھیں گے اور نام کی تبدیلی سے دوسروں کو یا خود کو فریب دینا چاہیں گے۔ حالانکہ صرف نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی اور شریعت کا حکم بھی نہیں بدلتا اس لئے خدا کے نزدیک وہ شراب نوشی کے مجرم ہوں گے اور نام بدلنے کا فریب ان کا دوسرا جرم ہوگا ۔

حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا آپ ارشاد فرماتے تھے کہ میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور ( ازراہِ فریب) اس کا کوئی دوسرا نام رکھیں گے۔ ( سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)

اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت کو سنوار نے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Comments are closed.